مچھلی کی افزائش کے لیے زیر زمین کھارے پانی کا استعمال

اپ ڈیٹ 27 مارچ 2015
شکاگو کے ایک فارم میں تلاپیہ مچھلیوں کی تجرباتی افزائش کی جارہی ہے۔ 21 جون 2012 — اے ایف پی
شکاگو کے ایک فارم میں تلاپیہ مچھلیوں کی تجرباتی افزائش کی جارہی ہے۔ 21 جون 2012 — اے ایف پی

میٹھے پانی کی دستیابی ایک عالمی مسئلہ ہے اور بدلتے ہوئے موسمی حالات نے دنیا کے کئی حصوں میں اسے ناقابل اعتبار بنا دیا ہے۔ بہت سے ترقی پذیر ممالک کو مسلسل خشک سالی کے سے حالات کا سامنا ہے، اور میٹھے پانی کی دستیابی ان کے لیے ایک خواب بنتی جا رہی ہے۔ پاکستان میں بھی صحرائی اور میدانی علاقوں کے حالات اس سے کچھ زیادہ مختلف نہیں، جیسا کہ صحرائے تھر، جہاں ہم مویشیوں اور فصلوں کے ساتھ ساتھ قیمتی انسانی جانوں کو بھی کھو رہے ہیں۔

اس صورتحال کا تقاضہ ہے کہ میٹھے پانی کی کمیابی کا حل تلاش کرنے کے ساتھ ساتھ زیر زمین کھارے پانی کو خوراک کی پیداوار کے لیے استعمال کیا جائے۔ زیر زمین کھارا پانی انتہائی قحط زدہ ملکوں ایتھوپیا، صومالیہ اور انگولا تک میں موجود ہے اور ہمارے ملک کے بیشتر علائقوں میں وافر مقدار میں باآسانی دستیاب ہے لہٰذا اس طرح کے پانی میں فارمنگ کے متعلق سوچا جانا حیاتیات کی بقا کے لیے بہت مناسب اور وقت کی ایک اہم ضرورت ہے۔

زراعت کے لیے زیرِ زمین کھارے پانی کی افادیت کو طویل عرصے سے محسوس کیا جاتا رہا ہے، لیکن زرعی فصلوں کے لیے یہ مؤثر ثابت نہیں ہوا کیونکہ عملی طور پر تقریباً تمام زرعی اجناس میٹھے پانی پر ہی انحصار کرتی ہیں یا انہیں کھارے پانی کے ساتھ ساتھ میٹھے پانی کی بڑی مقدار کی ضرورت ہوتی ہے۔

دوسری جانب کھارا پانی دنیا بھر میں سمندری حیات کی پرورش کے لیے عملی طور پراستعمال ہو رہا ہے جسے ہم میریکلچر (mariculture) یا کوسٹل اکواکلچر (coastal aquaculture) کے نام سے جانتے ہیں۔ کوسٹل اکواکلچر کے علاوہ سمندر سے دور خشکی پر بھی زیر زمین کھارے پانی میں سمندری مچھلیوں اور پودوں کی کاشت کی جارہی ہے اور شمالی و لاطینی امریکا، آسٹریلیا، مشرق وسطیٰ سمیت دنیا کے کئی حصوں میں ایسے پانی میں سمندری مچھلیوں، جھینگوں، کیکڑے، گھونگھوں اور سمندری گھاس کی کامیاب افزائش کی جارہی ہے۔

تھائی لینڈ، آسٹریلیا، برازیل، اسرائیل، مصر، ویت نام، چین، بھارت وغیرہ سمیت کئی ممالک میں یہ ایک بڑھتی ہوئی صنعت ہے۔ ریاست ہائے متحدہ امریکہ کی الاباما، ٹیکساس، فلوریڈا اور ایریزونا ریاستوں میں زیرِ زمین کھارے پانی کو کئی طرح کی مچھلیوں، جھینگوں اور دیگر سمندری حیات کو اگانے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔

زیرِ زمین کھارے پانی میں مچھلی کی افزائش کے ذریعے زراعت سے وابستہ لوگوں کی آمدنی بڑھانے کے ساتھ ساتھ زراعت کو بڑھاوا دینے کی زبردست صلاحیت موجود ہے؛ اور اس کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ اس کے ذریعے سیم و تھور کی وجہ سے ناقابل کاشت زمینوں کو قابل کاشت بنایا جاسکتا ہے۔ یہ میٹھے پانی کی کمی اور خشک سالی سے متاثرہ علاقوں میں بھوک مٹانے اور غذائی تحفظ کو یقینی بنانے کا ایک بہت بڑا ذریعہ ثابت ہو سکتا ہے۔

پاکستان میں بہت بڑے رقبے پر زیر زمین پانی کے ذخائر کھارے ہیں جنہیں سمندری مچھلی کی افزائش کے ذریعے معاشی فائدے کے لیے استعمال میں لایا جاسکتا ہے۔ پاکستان بھر میں آبپاشی کے کمانڈ ایریا میں زیر زمین نمکین پانی کے ذخائر 11 لاکھ ایکڑ سے زیادہ ہیں، یہاں تک کہ پنجاب اور سندھ کے نہری علاقوں میں بھی زیر زمین نمکین پانی کے ذخائر چھوٹے پاکٹس کی صورت میں بڑی تعداد میں موجود ہیں اور بہت ساری کھاری جھیلیں بھی اندرون ملک موجود ہیں۔ جبکہ زیر زمین میٹھے پانی کے ذخائر دریائے سندھ کے ساتھ ایک تنگ پٹی تک محدود ہیں۔

صوبہ سندھ میں 78 فیصد زیر زمین پانی کھاری ہے، جبکہ پنجاب میں تقریباً 23 فیصد زیر زمین پانی زراعت کے لحاظ سے کمتر معیار کا ہے۔ مزید برآں، صوبہ سندھ میں کل سیراب زمین کا تقریبا 56 فیصد حصہ سیم و تھور سے متاثر ہے۔ سیم و تھور کے اثرات کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ ملک بھر میں تقریباً 40،000 ہیکٹر سالانہ کاشتکاری سے ترک کیے جا رہے ہیں۔

ملک کی آبادی کا ایک بڑا حصہ سیم و تھور سے براہ راست متاثر ہے اور 2020 تک ایسے لوگوں کی تعداد 3 کروڑ 20 لاکھ سے تجاوز کرنے کی توقع ہے۔ مزید برآں، صوبوں میں نہری پانی کی صورتحال حوصلہ افزا نہیں جس کی وجہ سے زرعی زمینوں کی پیداوری صلاحیت متاثر ہو رہی ہے اور کسان معاشی نقصانات کا سامنا کر رہے ہیں، خاص طور پر چھوٹے کسان بحران کی زد میں ہیں۔

ایک جانب ناقص معیار کے زیر زمین پانی کے استعمال کی وجہ سے زرعی زمین سیم و تھور کا شکار ہونے کی وجہ سے کم پیداوار کی حامل ہوتی جارہی تو دوسری جانب ایسی زمین میں کاشت پر اخراجات بھی نسبتاً زیادہ آنے کی وجہ سے زراعت کی پائیداری اور بڑھتی ہوئی آبادی کے لیے خوراک کی ضروریات پورا کرنا ایک سوالیہ نشان ہے۔

اس صورت حال میں زیرِ زمین کھارے پانی کی اقتصادی اہمیت کو سمجھنے کی ضرورت ہے اور کسانوں کو اس پانی میں مچھلی کی افزائش کی افادیت سے آگاہ کرنا چاہیے۔ اس سے ان کی مجموعی زرعی پیداوار میں اضافے کے ساتھ ساتھ برابر کی زمینوں کو قابل کاشت بنایا جاسکے گا کیونکہ کھارے پانی کے مچھلی کے تالاب آس پاس کی زمینوں سے نمک چوس کر ان کی بحالی کا ذریعہ بنتے ہیں۔ اس طرح کے تالاب دنیا کے کئی ملکوں میں کھارے پانی کے علائقوں میں سمندری مچھلی کی افزائش کے ساتھ ساتھ زرعی زمینوں کی بحالی کا کام سرانجام دے رہے ہیں۔

سمندر کے مسلسل آگے بڑھتے رہنے کی وجہ سے 22 لاکھ ایکڑ زرعی زمین اب تک کھارے پانی کی نذر ہو چکی ہے، جس کی وجہ سے کسان اب فشنگ کی طرف بھی منتقل ہو رہے ہیں۔ مچھلیاں پکڑنے میں اضافے اور اس کے لیے پرانی تکنیکوں کے استعمال نے قدرتی وسائل کو خاتمے کی حد تک پہنچا دیا ہے۔ ملک کے فشریز سیکٹر کے ریوینیو کی صلاحیت کبھی 1 ارب ڈالر ڈالر تھی لیکن آج صرف 20 سے 30 کروڑ ڈالر رہ گئی ہے۔

ملک میں میٹھے پانی کی کمی، سیم و تھور سے متاثرہ علاقوں میں روایتی زراعت کی بگڑتی ہوئی صورتحال اور زیر زمین کھارے پانی کی وافر دستیابی کے پیش نظر ان علاقوں میں غربت کے خاتمے اور متبادل روزگار کے مواقع پیدا کرنے کے لیے زیر زمین کھارے پانی میں سمندری مچھلیوں کی افزائش کو فروغ دینا چاہیے تاکہ دیہی معیشت کی ترقی اور کسانوں کی فلاح کو ممکن بنایا جا سکے۔

لیکن اس کام کو آگے بڑھانے سے قبل ایک مضبوط تحقیقی بنیاد قائم کرنے کی ضرورت ہے۔ کھارے پانی والے علاقوں کی اکواکلچر، کھارے پانی کی مچھلیوں اور دیگر حیات کی افزائش کے لیے موزوں ہونے پر تحقیق کی جانی چاہیے، اور اس کے لیے زیرِ زمین پانی کا تجزیہ کیا جانا چاہیے کیونکہ اس کا جانوروں کی افزائش پر کافی اثر پڑتا ہے۔ اگر تحقیق کامیاب ہوتی ہے تو کھارے پانی سے متاثر زمینوں میں چھوٹے پیمانے پر اکواکلچر کے کئی مواقع حاصل ہو سکتے ہیں۔

پانی کی کوالٹی کے تجزیے کے ساتھ ساتھ زیرِ زمین کھارے پانی والے علاقوں کے نقشے بھی تیار کیے جانے چاہیئں اور مانیٹرنگ کی جانی چاہیے جس کے لیے جیوگرافک انفارمیشن سسٹم اور ریموٹ سینسنگ جیسی ٹیکنولاجیز سے مدد لی جا سکتی ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں