کوئٹہ: سردار بہادر خان یونیورسٹی کی بس میں دھماکے سے ہلاک ہونے والی خاتون کی لاش کو اسپتال منتقل کیا جا رہا ہے۔ فوٹو اے پی۔۔۔۔

۔جیسا کہ بار بار کے حملوں کی طرح، اس بار بھی لشکرِ جھنگوی نے سنیچر کو کوئٹہ میں ہونے والے نہایت خوفناک پُرتشدد حملوں کی ذمہ داری قبول کرلی ہے۔ ان حملوں کو دیکھتے ہوئے کہہ سکتے ہیں کہ صورتِ حال ہاتھوں سے نکل رہی ہے اور یہ بے قابو فتنہ ثابت ہو سکتا ہے۔

لشکرِجھنگوی اُس عسکریت اور شدت پسندی کے مجموعے کا ایک حصہ ہے، جس کی طویل تاریخ ہے اور یہ کسی خاص علاقے کے لیے نہیں بلکہ پورے پاکستان اور اس کے مستقبل کے لیے سنگین خطرہ ہے۔

لشکرِ جھنگوی آج دہشت گردی کے خطرات میں خود اپنی ہی ایک تاریخ ہے: اس کا آغاز شیعہ مخالف ایجنڈے سے ہوا اور انہوں نے اپنی طویل فہرست کے مطابق چُن چُن کر شیعہ اور زائرین کو نشانہ بنانا شروع کیا۔ یہی نہیں، اکثر اوقات انہوں نے اندھا دھند حملے بھی کیے، جن میں بچے اور خواتین بھی براہ راست نشانہ بنیں۔

وہاں بلوچستان میں لشکرِ جھنگوی موجود ہے اور اس نے مبینہ طور پر بلوچ علیحدگی پسندوں سے رابطے استوار کر لیے ہیں۔ وہاں قبائلی علاقوں میں بھی لشکرِ جھگنوی ہے، جو طویل عرصے تک پہلے القائدہ کے ساتھ کھڑی تھی، اب تحریکِ طالبان پاکستان کے ساتھ اس کے تعلقات ہیں۔

وہاں پنجاب میں لشکرِ جھنگوی موجود ہے، جو پنجابی طالبان کے زیرِ سایہ، خود کو بدستور پروان چڑھاتے ہوئے اپنا دائرہ وسیع کرتی چلی جارہی ہے۔

اب اسے مجموعی طور پر دیکھیں تولشکرِ جھنگوی صرف بلوچستان کے لیے ہی نہیں بلکہ پورے ملک کے واسطے نہایت سنگین خطرہ ہے۔ لشکرِ جھنگوی عسکریت اور شدت پسندی کے مختلف چہروں اور جہتوں کا صرف ایک رخ ہے۔

لگاتار حملوں کے خطرے کی بات نہیں لیکن مطلب یہ ہے کہ ان کامقابلہ کرنے کے لیے باضابطہ علاقائی طریقہ کار اختیار نہیں کیا جاسکتا۔

بلوچستان میں فوج کی زیرِ سربراہی قائم سکیورٹی اسٹیبلشمنت سکیورٹی پالیسی پر اختیار رکھتی اور اس کا نظم و نسق چلاتی ہے جبکہ لشکرِ جھنگوی اس سکیورٹی پالیسی سے بنیادی رابطے بڑھا چکی ہے۔

صرف واحد احساس کی بنیاد پر کہ بلوچ علیحدگی پسندوں کو تشدد کےذریعے ہی کچلنا ہے، اس سے غیر ریاستی عناصر کو اپنے پنجے گاڑے کی گنجائش ملی۔ اس کامطلب یہ کہ کہیں اور بھی دیگر غیر ریاستی عناصر اس موقع سے فائدہ اٹھانے کی خاطر ریاست کی توجہ کا مرکز بننے کے اہل ہیں۔

تشدد کے ذریعے علیحدگی پسندوں کو کچلنے کے اس احساس کا بدترین پہلو یہ نکلا کہ ریاست کے حامی بلوچ شدت پسند، جن کا اپنا الگ موقف ہے، وہ بھی لشکرِ جھنگوی سے رابطے اور راہ و رسم بڑھارہے ہیں۔

بلوچ علیحدگی پسند بذاتِ خود ایک مسئلہ ہیں اور سنیچر کو زیارت ریزیڈنسی کی تباہی اس مسئلے کی شدت بیان کرنے کے لیے کافی ہے لیکن اس سے بھی بڑا مسئلہ خود ریاست کی اپنی پالیسی ہے۔

بلوچ علیحدگی پسندی ایک سیاسی مسئلہ ہے لیکن اس سے نہایت ہی سفّاکانہ انداز سے نمٹا جارہا ہے لیکن لشکرِ جھنگوی، جس سے آہنی ہاتھوں سے نمٹنا چاہیے، اسے یونہی کھلا چھوڑ دیا گیا ہے۔

بلوچ علیحدگی پسندوں کے خلاف نہایت شدید کارروائی جبکہ لشکرِ جھنگوی کے خلاف نرمی، فوج کی زیرِ سربراہی قائم سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کی یہ دونوں پالیساں فوری طور پرتبدیل کرنے کی اشد ضرورت ہے۔

بلوچستان اور لشکرِ جھنگوی سے آگے بڑھ کر دیکھیں تو وسیع تناظر میں تصویر تقریباً پوری کی پوری تاریک ہے۔ جمہوری تبدیلی آچکی لیکن بعض مقدس مقامات اب تک سیاستدانوں کی دسترس سے دور ہیں: نیشنل سکیورٹی اور خارجہ پالیسی۔

خوش کلامی کے انداز میں غیر ریاستی عناصر کی اصطلاح استعمال نہ کی جائے، یہ عناصر پاکستان کی سلامتی اور دنیا کے ساتھ اس کے خارجہ تعلقات کو لاحق سب سے بڑا اور واحد خطرہ ہیں۔ کیا فوج یہ سُنے گی؟

تبصرے (0) بند ہیں