مری ماتا مندر اور امام حسین کا تعزیہ

اپ ڈیٹ 23 اکتوبر 2015
— تصویر اختر بلوچ
— تصویر اختر بلوچ
— تصویر اختر بلوچ
— تصویر اختر بلوچ
— تصویر اختر بلوچ
— تصویر اختر بلوچ

ایک دن ہمیں وشال نامی شخص نے فون کیا، اور ہماری معلومات میں یہ اضافہ کیا کہ وہ ڈان ڈاٹ کام پر ہمارے بلاگ پڑھتے رہتے ہیں۔ انہوں نے اپنی خواہش کا اظہار کیا کہ رتن تلاؤ کے علاقے میں واقع مری ماتا مندر پر لکھیں، جہاں ان کے مطابق ہندو برادری کے افراد کو اپنی مذہبی رسومات ادا کرنے سے روکا جاتا ہے۔

ہم نے ان سے کہا کہ وہ شام 7 بجے ہمیں پریس کلب میں ملیں۔ وشال 7 پریس کلب پہنچے۔ ان کے ہاتھ میں ایک بازوئی تھیلا تھا (جسے ہم شولڈر بیگ کہتے ہیں)۔ ملاقات کے دوران انہوں نے اپنا تھیلا کھولا اور ہمارے سامنے دستاویزات کے انبار لگا دیے۔ ہم نے ان میں سے کچھ کا اِنتخاب کیا اور باقی انہیں لوٹا دیے۔ اگلا مرحلہ مری ماتا مندر کا دورہ کرنا اور اس کے بارے میں لکھنا تھا۔

کراچی کے مرکزی علاقے صدر کے قریب ایک علاقہ رتن تلاؤ ہے۔ تلاؤ سندھی زبان میں تالاب کو کہتے ہیں۔ رتن تلاؤ بذاتِ خود ایک طویل موضوع ہے۔ فی الوقت ہمارا موضوع رتن تلاؤ کے درمیان اکبر مارکیٹ ہے جہاں مری ماتا مندرہے۔ یہ کراچی کی سب سے بڑی موٹر سائیکل مارکیٹ ہے۔ اکبر مارکیٹ میں ایک سڑک سسٹر اسکوائر اسٹریٹ کے نام سے ہے۔ اب اس اسٹریٹ کا نام گلی نمبر 19 ہے۔

اسٹریٹ پر مختلف عمارتوں کے درمیان آپ کو ایک چھوٹا سا لوہے کا گیٹ نظر آئے گا۔ اِس گیٹ پر ایک جانب 'یا اللہ' اور ایک جانب 'یا محمد' جب کہ درمیان میں ”مائی جنت کا تازیہ“ لکھا ہے۔ ایک سرکاری نقشے کے مطابق اِس مندر کا کل رقبہ 285 گز تھا جو اَب سکڑتے سکڑتے 50 گز رہ گیا ہے۔ یہاں ہندو اپنی مذہبی رسومات ادا کرتے ہیں اور محرم میں اس مندر سے امام حسین کا تعزیہ بھی برآمد کیا جاتا ہے۔ اصل مسئلہ اس مندر کی ملکیت کا ہے، لیکن جن فریقوں کے درمیان یہ تنازع ہے، وہ 285 گز کی ملکیت پر نہیں بلکہ 50 گز کی ملکیت پر ہے، جو کہ باقی رہ گئی ہے۔

دونوں فریقین اپنے اپنے موقف پر قائم ہیں اور معاملہ مقدمے بازی تک پہنچ گیا ہے۔ اہلِ محلہ نے مندر کی ملکیت کے دعوے دار ہندو برادری کے افراد کے خلاف درخواست انتظامیہ کو دی ہے۔ جب کہ مندر پر ملکیت کے دوسرے دعوے داروں نے بھی انتظامیہ کو درخواستیں دی ہیں۔ 2014 کو اکبر مارکیٹ کے رہائشیوں نے متعلقہ تھانے کو ایک درخواست دی جس کا متن حسبِ ذیل ہے:

اسی طرح کی ایک درخواست شری مہاراشٹرا پنچائت کراچی کے وشال راجپوت کی جانب سے کمشنر کراچی کو بھیجی گئی۔12/1/2015 کو کمشنر کراچی کو درخواست کرتے ہوئے لکھا گیا ہے کہ:

پیر 11 مئی کو میں اور ساتھی محسن سومرو اکبر روڈ پر واقع موٹر سائیکل مارکیٹ کی گلی نمبر 19 سِسٹر اسکوائر اسٹریٹ پر مری ماتا مندر کے گیٹ پر پہنچے۔ گیٹ کے باہر موٹر سائیکلیں کھڑی ہوئی تھیں، اور مندر کی نگران خاتون دکان داروں سے موٹر سائیکلیں ہٹانے کا کہہ رہی تھیں۔ ان کی اِس درخواست پر کم ہی توجہ دی جارہی تھی۔ لہٰذا محسن بھائی اور میں نے موٹر سائیکلیں ہٹانا شروع کیں۔

یہ دیکھ کر سامنے کی دکان پر موجود ایک نوجوان بھی ہماری مدد کرنے آگیا۔ خیر بڑی مشکل سے ہم مندر تک کا راستہ بنانے میں کامیاب ہوگئے۔ خاتون نے ہم سے آنے کی وجہ دریافت کی تو ہم نے انہیں بتایا کہ ہمیں امام حسین کا تعزیہ دیکھنا ہے۔ وہ ہمیں اندر لے آئیں۔ وہاں پرایک چھوٹا سا صحن تھا اور اس کے سامنے دو کمرے تھے جن پر تالا پڑا ہوا تھا۔ صحن کے بائیں جانب ایک چبوترا سا بنا ہوا تھا۔ خاتون جنہوں نے اپنا نام محمودہ بتایا تھا، نے ہمیں چبوترے پر لگا پردہ ہٹا کر تعزیہ دکھایا۔

ان کے مطابق مائی جنت ان کی والدہ تھیں اور 1957 سے تا دمِ مرگ اِس تعزیے اور مندر کی نگران تھیں۔ ان کی وفات کے بعد یہ ذمے داری ان پر آن پڑی۔ انہوں نے بتایا کہ ہر سال محرم کی نو اور دس تاریخ کو تعزیے کو زیارت کے لیے باہر لایا جاتا ہے اور اس رسم میں ہندو اور مسلم سب ہی شریک ہوتے ہیں۔

اس کے علاوہ ہندو مندر میں اپنی پوجا پاٹھ کے لیے آتے رہتے ہیں۔ ہم مندر میں نصب قدیم تختیوں کی تصاویر بنانے لگے جس پر وہ طنزیہ انداز میں مسکراتے ہوئے کہنے لگیں کہ: ”بنا لو بنا لو، مجھے کوئی اعتراض نہیں۔ ابھی پچھلے دِنوں سوامی نارائن مندر میں ہندوؤں کی بڑی پوجا تھی۔ ٹی وی والے فلم بنانے آئے تھے، لیکن مندر والوں نے انہیں بھگا دیا“۔

ہم نے یہ سنتے ہی کیمرہ بند کیا اور ان سے رخصت کی اِجازت چاہی۔ ہندو پنچائیت کراچی کے نائب صدر ڈاکٹر راج اشوک نے ہمیں بتایا کہ مندر کا کل رقبہ 286 گز تھا، جو اب سکڑ کر 50 گز رہ گیا ہے۔ انہوں نے اس بارے میں ایک دستاویز بھی ہمارے حوالے کی جس میں لکھا ہے کہ مندر کی زمین 1938 میں الاٹ کی گئی تھی۔ ان کے مطابق بنیادی طور پر یہ مندر ہے اور وہ تعزیے کی موجودگی کو تسلیم نہیں کرتے پھر بھلے ہی مندر کے دروازے پر کچھ بھی لکھا ہو۔

اہم بات یہ ہے کہ 9 مئی 2015 کو سندھ کے مختلف مندروں کی مرمت اور تزئین و آرائش کے لیے اخبارات میں ایک اشتہار شائع ہوا ہے۔ اِس میں مری ماتا مندر کا نام بھی شامل ہے۔ یعنی ریکارڈ کے مطابق یہ مندر ہے۔ لیکن 12/7/1978 کو ہونے والے ایک معاہدے کے مطابق مہاراشٹرا پنچائت نے اس بات کی اجازت دی تھی کہ تعزیہ مندر میں اس شرط پر رکھا جائے گا کہ جب ضرورت ہو گی مندرکی جگہ خالی کر دی جائے گی۔ یہ معاہدہ جانو بھائی فیروز شاہ اور موہن گائیکواڑ جو شری شام سوموونش مہاراشٹرا پنچائت کے سیکریٹری تھے، کے مابین ہوا تھا۔

یہ دستاویز بھی ہمیں وشال نے فراہم کی تھی۔ مندر کی نگراں محمودہ بیگم کو ہندوؤں کے پوجا پاٹھ پر کوئی اعتراض نہیں، جبکہ ہندوؤں کا کہنا یہ ہے کہ مندر جاتے ہوئے وہ عدم تحفظ کا شکار رہتے ہیں۔

لیکن یہ بات سچ ہے کہ یہ مندر ہے اور یہ بھی حقیقت ہے کہ مندر میں تعزیہ بھی موجود ہے۔ یوں تو یہ مذہبی رواداری کی ایک خوبصورت علامت ہے، لیکن محمودہ بیگم اور ہندوؤں کے درمیان مندر کی ملکیت کے تنازع کو کس طرح حل کیا جائے، ہم یہ سمجھنے سے قاصر ہیں۔ ”کوئی بتلائے کہ ہم بتلائیں کیا۔“

— تصاویر بشکریہ اختر بلوچ


لکھاری کی وضاحت: اس بلاگ کے شائع ہونے کے چند دن بعد وشال نے مجھے فون کر کے اطلاع دی کہ مندر اب واپس ہندو برادری کے زیرِ انتظام آگیا ہے۔

تبصرے (11) بند ہیں

[email protected] May 15, 2015 07:05pm
akhtar balouch waqie aik zaberdest likhari hen or un ki mazkora tahrer aik shakar se kem nahi jis kelie wo yaqenen mubarek bad ke mustahuq hen mger is silsle me un se guzarish he ke kal ke ram bagh aj ke aram bagh or manora or clifton ke qadeem mandron ki tbah hali ke bare me bhi likhen kun k ye aik history he jo dhere dhere khatem ho rahi he
Jaffer Abbas Mirza May 15, 2015 07:36pm
Such a masterpiece. We normally don't knowledge about our heritage. Article like this increases our understand and knowledge about city. I urge Dawn.com and Akhtar Balouch to continue this effort of exploring heritages.
Razzak Abro May 15, 2015 08:06pm
This place is more important for its background about religious harmony. Good write up Akhtar sahib.
vajeesh May 16, 2015 10:50am
Akhter Baloch sahab, aap nay iss writing say both say minorities ki tarjumani ki hai hum apko teh dil say salam pesh karte hai aur hosala afzai karte k aap nay important topic per apna qalm utaya
Waqas Ali May 16, 2015 11:50am
اختر بلوچ صاحب ، تاریخی اعتبار سے اہمیت رکھنے والی اور بعض متنازع تعمیرات و عمارات کے بارے میں اپ کی تحقیق یقینا قابل ستائش ہے ۔ اس ضمن میں ڈان نیوز بھی قابل تعریف ہے جو اختربلوچ کی مدد سے مفید اور معلومات فراہم کرنے کیلئے سلسلہ جارہی رکھا۔
sajid bajeer May 16, 2015 11:53am
acha likha he sir..aise buht tarekhi mandr or degr mqamat mojod hen....jo rattan tala us pr bhe likho
نور May 16, 2015 01:52pm
میرے خیال میں مذہبی ہم آہنگی کے اس علامت کو تنازعات میں الجھا کر ختم کرنے کی بجائے اسے ہندومسلم بقائے باہمی اور بھائی چارگی کے مشترکہ میراث کے طور پر دیکھنا اور رکھنا چاہیے۔ ایک مشترکہ ٹرسٹ بنا کر دونوں کمیونیٹیز کو فائدہ پہنچایا جاسکتا ہے۔
ghulam zahira May 16, 2015 04:24pm
v. nice.
ghulam zahira May 16, 2015 04:32pm
بہت خوب ،اس قسم کی تحقیق بہت محنت طلب کام ہے اور یہ جگہ خاص اہمیت کی حامل ہے،
نجیب احمد سنگھیڑہ May 16, 2015 05:26pm
اس تنازعہ کو بابری مسجد تنازعہ کی طرح حل کرنے کی کوشش کا آغاز کرنا چاہیے۔
عمار Oct 23, 2015 06:11pm
جن کی ملکیت ہے ان کو ملنی چاہیئے..