'ایم کیو ایم کے خلاف الزامات، ثبوت کے بغیر بےمعنی'
بی بی سی نے اپنی ایک حالیہ رپورٹ میں یہ الزام عائد کیا ہے کہ ایم کیو ایم ہندوستان سے فنڈز وصول کرتی رہی ہے۔ اس الزام نے ایم کیو ایم اور اس کے سربراہ الطاف حسین کے خلاف ایک نیا پینڈورا بکس کھول دیا ہے۔
یاد رہے کہ الطاف حسین برطانیہ میں پہلے ہی منی لانڈرنگ کے الزامات کا سامنا کررہے ہیں۔
اس رپورٹ میں یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ ایم کیو ایم پاکستان کے ہمسایہ حریف سے مالی امداد وصول کرتی رہے اور اس کے کارکنوں نے وہاں ہتھیاروں کی تربیت حاصل کی ہے۔
تاہم کیا ان دعووں کی بنیاد پر ایک مقدمہ چلایا جاسکتا ہے، اس سے قبل اب بھی بہت کچھ کرنا باقی ہے، اور مدعی نے جوکچھ کہا اس کو ثبوت پیش کرنا اس کی ذمہ داری ہے۔
اس واقعہ سے منسلک بعض قانونی پہلوؤں کو سمجھنے کے لیے ڈان نے سابق وزیرقانون اور سپریم کورٹ کے وکیل ڈاکٹر خالد رانجھا سے بات کی۔
سوال: کیا آپ سمجھتے ہیں کہ بی بی سی کی رپورٹ ایم کیو ایم کے سربراہ کے خلاف مقدمات پر کسی قسم کے اثرات مرتب کرے گی؟
![]() |
| ڈاکٹر خالد رانجھا۔ —. فائل فوٹو |
جواب: محض اس بات کا ذکر کردینے سے کہ ایک جرم کا ارتکاب کیا گیا ہے، کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اہمیت اس بات کی ہوگی کہ اس کو ثابت بھی کردیا جائے ۔ اس رپورٹ نے ایسا کچھ نہیں کہا جو نیا ہو۔ برطانوی حکام نے پہلے ہی الطاف حسین پر منی لانڈرنگ کا الزام عائد کررکھا ہے اور یہ سب جانتے ہیں کہ وہ معلوم ذرائع آمدنی سے زائد رقم رکھنے کے الزامات کا سامنا کررہے ہیں۔ یہ تازہ ترین ’انکشافات‘ مجھے اندھیرے میں تیر چلانے کے مترداف معلوم ہوتے ہیں، اس لیے کہ اب تک کوئی ٹھوس ثبوت نہیں پیش کیا گیا ہے۔
سوال: کیا اخباری رپورٹس کو قانون کی عدالت میں بطور ثبوت استعمال کیا جاسکتا ہے؟
جواب: قانونی لحاظ سے بات کی جائے تو قانون کی عدالت میں نامعلوم ذرائع کی بنیاد پر تیار کی گئی اسٹوری بالکل بھی معتبر نہیں ہوتی۔ بی بی سی کے رپورٹر نے ایم کیو ایم اور اس کے رہنماؤں کے خلاف جو کچھ بھی الزامات عائد کیے ہیں، محض ایک داستان کا حصہ ہیں۔
اوّل تو کسی دعوے کو ثابت کرنے کے لیے شواہد کی ضرورت ہے، یا تو وہ شخصی صورت میں ہوں یا پھر قانونی طور پر تصدیق شدہ دستاویز کی صورت میں ہوں۔ اور جب تک ایسا نہیں کیا جاتا، حکومت نہ تو الطاف حسین اور نہ ہی ان کی جماعت کے خلاف ان الزامات کے تحت کوئی کارروائی کرسکتی ہے۔ چونکہ وزارتِ داخلہ نے باضابطہ طور پر ان الزامات کی تحقیقات کا فیصلہ کرلیا ہے، اور برطانیہ سے اس سلسلے میں ٹھوس ثبوت فراہم کرنے کے لیے کہا ہے، چنانچہ اب صرف وقت ہی بتائے گا کہ یہ داستان کس حد تک مصدقہ ہے۔
اگر حکومت پاکستان دستاویزی ثبوت فراہم یا گواہ پیش کرسکے جوثابت کردیں کہ ایم کیو ایم یا اس کی قیادت نے ایسے ذرائع سے رقم وصول کی تھی، جو ملکی قانون کے تحت نہیں آتا، تو پھر ایک مقدمہ دائر کیا جاسکے گا۔ ایک دشمن ملک سے فنڈز حاصل کرنے کا الزام انتہائی سنگین ہے، اور اگر یہ ثابت ہوجاتا ہے تو الطاف حسین اور ان کی جماعت شدید مشکلات سے دوچار ہوسکتے ہیں۔ لیکن یہ سب کچھ ایک قانون کی عدالت میں ثابت کرنا ہوگا۔
سوال: مجموعی طور پر اس رپورٹ کے ایم کیو ایم پر کیا اثرات مرتب ہوں گے؟
جواب: سیاست میں تصور اہمیت رکھتا ہے اور میڈیا کا بیان رائے عامہ کی تشکیل میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ ایم کیو ایم کافی عرصے سے اس طرح کے الزامات کا سامنا کرتی رہی ہے، اور ایسے الزامات یقیناً اس پارٹی سے متعلق منفی تصور کو مضبوط بناتے ہیں۔ تاہم دنیا کے اس حصے میں جہاں ہم مقیم ہیں، سیاسی جماعتوں کے خلاف الزامات عائد کرنے کا سلسلہ نیا نہیں ہے۔ مثال کے طور پر بنگلہ دیش میں جماعت اسلامی پر ہمیشہ ہندوستان سے رقم لے کر ملک میں گڑبڑ پیدا کرنے کا الزام عائد کیا جاتا رہا ہے۔ خود ہمارے ملک میں ہم مختلف اداروں کی جانب سے آئے دن سعودی عرب اور ایران سے مالی امداد وصول کرنے کی اسٹوریز سنتے رہتے ہیں، لیکن میں نے یاد نہیں کہ ان رپورٹوں کی بنیاد پر کوئی ایک مقدمہ بھی دائر کیا گیا ہو۔













لائیو ٹی وی
تبصرے (2) بند ہیں