• KHI: Clear 21.2°C
  • LHR: Partly Cloudy 13.9°C
  • ISB: Partly Cloudy 12.1°C
  • KHI: Clear 21.2°C
  • LHR: Partly Cloudy 13.9°C
  • ISB: Partly Cloudy 12.1°C

برطانوی پاکستانی

شائع June 19, 2013

فائل فوٹو --.
فائل فوٹو --.

منگلا ڈیم کی تعمیر ہو رہی تھی تو دنیا کے ہر ڈیم کے تعمیر کے دوران ابھرنے والے مسئلے کا سامنا پاکستانی حکومت کو کرنا پڑا- ڈیم کی تعمیر کے نتیجے میں ہزاروں افراد بے گھر ہوتے ہیں اور ان افراد کی رہائش کے بندوبست کی ذمہ داری حکومت پر آن پڑتی ہے- تربیلہ کے متاثرین کو ہری پور کے نزدیک ایک علاقے میں جگہ عنایت کی گئی تھی-

منگلا کے متاثرین سے نمٹنے کے لیے کسی حکومتی بزرجمہر نے یہ راستہ نکالا کہ ان افراد کو برطانیہ بھیج دیا جائے- لگ بھگ تین سو دیہات اور آبادیوں کے ایک لاکھ سے زائد رہائشیوں کی تو گویا لاٹری نکل آئی-

آج کئی دہائیاں گزرنے کے بعد برطانیہ میں مقیم پاکستانی افراد کی ایک کثیر افراد موجود ہے اور اعداد وشمار کے مطابق ہر سال ڈھائی لاکھ پاکستانی شہری برطانیہ کا رخ کرتے ہیں-

ہجرت کا ہمیشہ سے یہ پہلو رہا ہے کہ مہاجر اپنے ساتھ اپنے آبائی دیس کی رسومات اور طرز بود وباش بھی لے جاتے ہیں- اس صورت حال میں تشخص اور رسومات کا ایک بنیادی تضاد دیکھنے کو ملتا ہے-

مہاجر جس ملک یا علاقے کا رخ کرتے ہیں، وہاں کی اپنی رسومات اور طور طریقے ہوتے ہیں اور پاکستان جیسے قدامت پرست معاشرے کی اقدار جب آپ برطانیہ جیسے آزاد منش معاشرے پر ثبت کرنا چاہتے ہیں تو تصادم دیکھنے کو ملتا ہے-

یہ تصادم صرف ایک نسل تک ہی محدود نہیں رہتا بلکہ آنے والی نسلوں میں بھی منتقل ہوتا ہے- عام طور پر اس تصادم کا نقصان مہمان ملک کو ہی اٹھانا پڑتا ہے-

اس ضمن میں افغان مہاجرین کے پاکستانی معاشرے پر اثرات قابل غور ہیں- ہم نے بھائی چارے اور مجبوری کے چکر میں افغانیوں کو پناہ تو دے دی لیکن ہمیں یہ مہمان نوازی راس نہیں آئی اور آج عروس البلاد کراچی سمیت پاکستان کے بڑے شہر ان ’مہمانوں‘ کے کارنامے بھگت رہے ہیں-

برطانیہ ہجرت کرنے والے پاکستانی ہماری تمام تر قومی بیماریاں بھی ساتھ ہی لے گئے- تشخص کا مسئلہ، مذہب اور دنیاوی معاملات کے مسائل، شدت پسندی، جنسی مسائل، گھریلو تشدد کا مسئلہ اور زبردستی کی شادیوں کی پاکستانی روایات فرنگی کے دیس میں بھی خوب پھل پھول رہی ہیں-

حقیقت پسند افراد کہہ سکتے ہیں کہ شائد اس طرح ہم نے برطانوی راج سے انکے نوے سالہ راج کا بدلہ لیا ہے- لیکن مصیبت تو یہ ہے کہ ان حرکتوں کا نزلہ ابھی تک ان شاہینوں کے اصلی وطن پاکستان پر ہی گرتا ہے-

دہشت گردی کی بات کی جائے تو احمد عمر شیخ صاحب اس سلسلے کی ایک نمایاں کڑی ہیں- چالیس سال قبل لندن میں پاکستانی والدین کے ہاں پیدا ہونے والے احمد عمر شیخ نے پاکستان کے مشہور ایچیسن کالج سے تعلیم حاصل کی اور اس کے بعد لندن کے ایک مشہور تعلیمی ادارے میں کچھ وقت صرف کرنے کے بعد انہیں جانے کیا خیال آیا کہ بھیس بدل کر کشمیر جا پہنچے جہاں ان دنوں پاکستان کے حساس اداروں کی زیر نگرانی افغان جنگ کے تجربہ کار جنگجو پراکسی وار کا ایندھن بنائے جا رہے تھے۔

کشمیر میں غیر ملکی سیاحوں کو اغواء کرنے کے الزام میں کئی سال اس نے کشمیر کی ایک جیل میں گزارے اور جب طالبان دور میں ایک ہندوستانی ہوائی جہاز اغواء کر کے قندھار اتارا گیا تو تاوان میں مولانا مسعود اظہر کے ساتھ احمد عمر شیخ بھی رہا ہوئے-

کچھ سال بعد امریکی صحافی ڈینیل پرل کے اغواء اور قتل میں بھی حضرت ملوث رہے اور فی الحال اسی جرم میں سکھر جیل میں مقیم ہیں-

اسی طرح 2005 میں لندن دھماکوں میں ملوث چاروں افراد پاکستانی نژاد تھے اور اس حرکت سے قبل وہ لوگ پاکستان میں تربیت پا چکے تھے-

2006 میں راشد رؤف نامی پاکستانی نژاد برطانوی شہری نے اپنے جیسے دیگر نوجوانوں کے تعاون سے برطانیہ سے امریکہ جانے والے طیاروں کو پرواز کے دوران اڑانے کی ناکام کوشش کی- یہ حضرت مولانا مسعود اظہر (جو کہ ہمارے حساس اداروں کی Veritable Arm ہیں) کے رشتہ دار بھی تھے-

دو ہزار بارہ میں چار مزید پاکستانی نژاد افراد کو لندن کی پولیس نے دہشت گردی کے الزام میں گرفتار کیا جو پاکستان سے دہشت گردی کی تربیت حاصل کر چکے تھے۔ پاکستان میں حزب التحریر جیسی خطرناک تنظیمیں متعارف کرانے کے ذمہ دار بھی یہی لوگ ہیں-

کچھ روز قبل ایک پاکستانی جہاز کو لندن کے ایک غیر معروف ہوائی اڈے پر برطانوی لڑاکا طیاروں کی سرپرستی میں اتار لیا گیا تھا اور شبہ یہ تھا کہ اس میں دہشت گرد موجود ہیں- تحقیقات پر پتہ چلا کہ کھانے کے مسئلے پر تنازعہ ہوا اور نوبت جہاز کے عملے کو دھمکیاں دینے پر آ پہنچی-

اسی طرح پچھلے برس، پاکستانی نژاد افراد کا ایک گروہ پکڑا گیا جو انگریز نابالغ لڑکیوں کو ورغلا کر ان سے دھندہ کروایا کرتا تھا- اس نوعیت کے گروہ، برطانیہ کے دوسرے شہروں میں بھی موجود ہیں- انگریز لڑکیوں کو زیادتی کا نشانہ بنانے میں بھی ہمارے شاہین سر فہرست ہیں-

غیرت کے نام پر قتل بھی پاکستان سے زیادہ برطانیہ میں ہمارے غیرت سے بھرپور بھائیوں کے ہاتھوں سرزد ہوتے ہیں، یہ اور بات کہ پاکستان کی طرح برطانیہ میں بھی ان لوگوں کی غیرت اپنے گھر کی دہلیز سے آگے ختم ہو جاتی ہے-

برطانیہ کی پاکستانی نژاد آبادی میں زبردستی شادیوں کی بھی بھرمار ہے اور یہ مسئلہ اس حد تک بڑھ چکا ہے کہ برطانوی حکومت کو نابالغ بچیوں کی زبردستی شادی پر سرکاری پابندی عائد کرنی پڑی ہے-

اس وقت پاکستانی نژاد برطانوی افراد میں سب سے نمایاں اور بلند مرتبہ شخصیت لارڈ نذیر کی ہے جو برطانیہ کے ایوان اعلی کے رکن ہیں- ان کی ذہنی حالت کا یہ حال ہے جب ان کے ہاتھوں ایک ٹریفک حادثہ سرزد ہو گیا اور انکو عدالت نے سزا سنائی تو انہوں نے اس تمام کاروائی کو ایک یہودی سازش قرار دے دیا- سیانے کہتے ہیں کہ برطانیہ میں مقیم پاکستانیوں کی جانب سے ہمیں کبھی ٹھنڈی ہوا تک نصیب نہیں ہوئی-

ہمیں اس پہلو پر سے کوئی سروکار نہیں کہ ان مسائل کی کیا وجہ ہے- وہاں کتنی مسجدوں کے امام کونسی عرب ریاست سے کمائی کھا رہے ہیں یا زیادہ تر مہاجرین پاکستان کے کس علاقے یا طبقے سے تعلق رکھتے ہیں- ہمارا مدعا صرف یہ ہے کہ ان ناہنجاروں کے باعث جو نقصان ہمارے ملک کو اٹھانا پڑتا ہے، وہ ناقابل تلافی ہے-

تازہ ترین اطلاع کے مطابق پاکستانی نژاد برطانوی شہری امجد ملک نے ہماری عدالت عظمی میں اپیل دائر کی ہے کہ انٹرنیٹ پر توہین آمیز مواد کا نوٹس لیا جائے کیونکہ اس سے مسلمان ذہنوں پر برا اثر پڑنے کا خدشہ ہے-

یہ خبر سنتے ہی ہمارے اندر کا پنجابی جاگ اٹھا اور چند نازیبا الفاظ امجد صاحب کی شان میں پیش کیے لیکن اس طرز کے جیالے باتوں سے نہیں لاتوں سے مانتے ہیں-

کوئی اس جاہل کو بتائے کہ بھائی پہلے اپنے گریبان میں جھانکو، برطانیہ میں تمہارے ہم وطن اور ان کی نسلیں جو گل کھلا رہی ہیں، اس پر کچھ سوچو- تمہیں پرائے پھڈے میں ٹانگ اڑانے کی کیا سوجھی ہے؟

یہاں تو ابھی تک یو ٹیوب نہیں کھل سکی اور تم مزید پابندیاں چاہتے ہو؟ برطانوی عدالت میں کیوں نہیں کرتے یہ اپیل؟ کیا برطانیہ میں اس طرح انٹرنیٹ پر پابندی لگائی جا سکتی ہے؟

میرا مشورہ تو یہ ہے کہ کسی اچھے ذہنی امراض کے ماہر سے ملو اور اپنا علاج کرواؤ- کوئی مسئلہ ہو تو پاکستان کا ٹکٹ کٹاؤ، ہم خود ہی تمہارا علاج کر لیں گے- برطانوی پاکستانیوں کے پہلے ہی ہم پر بہت ’احسانات‘ ہیں، ہمیں مزید شفقت کی ضرورت نہیں-


majeed abid 80 عبدالمجید کا تعلق سیالکوٹ سے ہے اور انہیں تاریخ، سیاست اور معاشیات کے مضامین میں دلچسپی ہے۔

عبدالمجید عابد

لکھاری میڈیکل کے طالب علم ہیں اس کے ساتھ تاریخ، سیاسی معیشت اور ادب میں دلچسپی رکھتے ہیں۔
ان کے بلاگز یہاں پڑھیں۔

انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں: abdulmajeedabid@

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تبصرے (1) بند ہیں

Gharib Jun 20, 2013 07:46pm
Pata nahin yeh log jo Shariah ki naare lagate hain, in ko Shariah ki bare main kuch pata bhee hai ke nahin. Jahan se main jaanta hoon, Shariah us mulk main tatbeeq ho sakta hai jahan ka aksaryat rehnewale Muslman ho aur khod Shariah us mulk ki constitution ka hissa ho. Magar UK main aisa nahin. To main hamare maghreb jaane wale hamwatnon ko yaad delana chaahta hoon ke tum log wahan mehmaan ho aur mehmaan ke tarha jeena seekho. Agar kisi din UK ki aksaryat rehnewale Islam ko dawah se qobool karlein to phir Shariah ke naare lagana phir shoro kardo.

کارٹون

کارٹون : 21 دسمبر 2025
کارٹون : 20 دسمبر 2025