• KHI: Clear 21.2°C
  • LHR: Partly Cloudy 13.9°C
  • ISB: Partly Cloudy 12.1°C
  • KHI: Clear 21.2°C
  • LHR: Partly Cloudy 13.9°C
  • ISB: Partly Cloudy 12.1°C

پھلتا نہیں، پھولتا پاکستان

شائع October 19, 2015

گھر کے قریب کسی بھی زچگی ہسپتال یا کلینک کا دورہ کریں تو آپ دیکھیں گے کہ وہاں ماہانہ معائنے یا زچگی کے لیے آئی ہوئی حاملہ خواتین کا رش ہوتا ہے۔ سرکاری ہسپتالوں کے علاوہ نجی زچگی ہسپتال بھی 24 گھنٹے آباد رہتے ہیں اور ایمرجنسی میں رات گئے زچگیاں انجام دینے کے لیے ڈاکٹرز موجود ہوتے ہیں۔

ان تمام زچگی سہولیات کے علاوہ دیہی علاقوں میں ضلعی صحت مراکز اور بنیادی صحت مراکز کی عدم دستیابی یا تسلی بخش انتظامات نہ ہونے کے باوجود مقامی دائیوں کی مدد سے آبادی میں اضافے کا سلسلہ ہمیشہ سے جاری ہے۔

اگر دیکھا جائے تو پاکستان میں ہسپتالوں، کلینکس اور دائیوں کی خدمات لیے بغیر بھی بچے پیدا ہو جاتے ہیں۔ مثال کے طور پر سابق صدر آصف علی زرداری کے کوئٹہ دورہ کے موقع پر بوجہء سیکیورٹی انتظامات ایک حاملہ خاتون کی زچگی ٹریفک میں پھنسے رکشے میں ہوئی۔ اس کے علاوہ وزیر اعظم نواز شریف کے لاہور دورہ کے موقع پر بھی ایک خاتون کی زچگی کنال روڈ پر ٹریفک میں پھنسے رکشے میں ہوئی۔

بچے چاہے جہاں بھی پیدا ہوں، ویسے تو والدین کے لیے خوشی کا باعث بنتے ہیں۔ مگر کیا کبھی کسی نے سوچا ہے کہ ان پیدا ہونے والے بچوں کے لیے موجودہ وسائل ضروریات کے مطابق ہوں گے اور جب وہ بڑے ہوں گے تو کیا وسائل میں اضافہ بھی ہونے والے آبادی کے تناسب سے ہوگا؟

آبادی میں ہونے والا اضافہ کسی بھی طرح موجودہ وسائل کے مطابق نہیں ہے اور اگر آبادی میں اضافہ اسی تناسب سے جاری رہا تو یقیناً وہ وقت دور نہیں جب لوگوں کے پاس پیسے تو ہوں گے مگر خریدنے کے لیے سامان نہیں ہوگا۔ کیا پیدا ہونے والے بچوں کے لیے درکار خوراک، تعلیم اور صحت کے مطلوبہ وسائل دستیاب ہیں؟ کیا پاکستان کے رہائشی علاقوں میں اتنی گنجائش ہے کہ تیزی سے بڑھتی آبادی کو برداشت کرسکیں؟

زیادہ بچے پیدا کرنے کا رجحان ویسے تو شہروں میں قدرے کم پایا جاتا ہے مگر دیہاتوں میں اب بھی کُنبے میں اضافہ سالانہ بنیادوں پر کرنا لازمی سمجھا جاتا ہے اور وسائل کی عدم دستیابی بھی کنبے میں اضافے کی شرح پر اثرانداز نہیں ہوتی۔ شہر کے لوگوں کے مطابق کم بچے پیدا کرنے کی وجہ موجودہ مہنگائی ہے اور والدین بچوں کی بہتر نشو و نما اور تعلیم و تربیت کے لیے دو یا زیادہ سے زیادہ تین بچوں پر اکتفاء کرتے ہیں۔

مگر دیہاتیوں کی سوچ شہریوں کی سوچ سے بالکل مختلف ہوتی ہے اور دیہاتی سمجھتے ہیں کہ جتنے زیادہ ہاتھ ہوں گے، اتنی ہی زیادہ کمائی ہوگی۔ کیونکہ وہ اپنی عقل و سمجھ کے مطابق، مستقبل میں کھیتوں میں کٹائی اور بوائی کرنے والے زیادہ ہاتھوں کے بارے میں سوچتے ہیں۔

آج کے حالات میں تو جو لوگ بہتر کماتے ہیں۔ وہ بڑھتی مہنگائی یا افراطِ زر میں اضافے کے باوجود گزر بسر کر لیتے ہیں۔ مگر مسئلہ وسائل کا تیزی سے کم ہونا ہے اور اس کی وجہ آبادی میں اضافہ اور نئے وسائل کی پیداوار یا تلاش نا ہونا ہے۔ حکومت 19 کروڑ عوام میں سے جن 2 فیصد کے قریب لوگوں سے ٹیکس لیتی ہے۔ وہ موجودہ حالات میں ہی ناکافی ہے اور ہر سال پیش کیے جانے والے بجٹ کا ایک بڑا حصّہ ملنے والی امداد اور قرضوں پر منحصر ہوتا ہے۔

دوسری طرف بڑھتی آبادی کے ساتھ وسائل کی طلب میں تو اضافہ ہو رہا ہے مگر ٹیکس دینے والوں کی تعداد بڑھنے کے بجائے کم ہو رہی ہے۔ اس کے علاوہ توانائی بحران اور دہشتگردی کی وجہ سے بیرونی سرمایہ کاری بھی نہیں ہو رہی اور چلتی فیکٹریاں بھی سسکیاں لے کر چل رہی ہیں۔

مثال کے طور پر سال کی دو فصلوں ربیع اور خریف میں پیدا ہونے والا اناج ابھی تو پاکستانیوں کی ضرورت پوری کر رہا ہے بلکہ ضرورت سے زیادہ بچ جانے والے فروٹ، سبزیاں اور اناج بیرون ملک برآمد بھی کیے جاتے ہیں۔ مگر بڑھتی آبادی اور وسائل کی کمی کی وجہ سے برآمدات میں کمی ہو رہی ہے اور اس کی ایک وجہ اندرونِ ملک طلب میں اضافہ ہے۔ اس کے علاوہ سیاسی حالات بھی وسائل کی پیدوار پر اثر انداز ہوتے ہیں۔

علاوہ ازیں حکومت صحت، تعلیم اور دیگر سہولیات جو مہیا کرتی ہے۔ اس میں اضافہ یا بہتری تو نہیں ہو رہی مگر آبادی میں اضافے کی وجہ سے ان ضروریات کی طلب بڑھتی جا رہی ہے. بڑھتی آبادی کا اندازہ شہروں میں چلنے والی ٹریفک کو دیکھ کر بھی لگایا جاسکتا ہے۔ جس میں اضافے کی وجہ سے سڑکیں مزید چوڑی کی جاتی ہیں اور زیرِ زمین پُل یا اوور ہیڈ پُل تعمیر کیے جا رہے ہیں۔

مگر سڑکوں کی چوڑائی اور سڑکوں کے اوپر یا نیچے پُل کب تک بنائے جائیں گے؟ ایک وقت آئے گا جب سڑکوں کو مزید چوڑا کرنا ممکن نہیں ہوگا اور پُلوں کی تعمیر بھی ممکن نہیں رہے گی۔ لوگوں کی قوتِ خرید انہیں گاڑیاں لینے کی اجازت تو دے گی مگر سڑکوں پر ٹریفک کی حالت خریدی گئی بہترین گاڑی کو گیراج میں ہی کھڑا رکھنے پر مجبور کرے گی، یا پھر حکومت کی جانب سے بڑھتی ٹریفک کو کنٹرول کرنے کے لیے گاڑیوں پر مزید ٹیکسز عائد کر دیے جائیں گے اور پارکنگ فیس بھی گاڑی کے استعمال پر پابندی لگائے گی۔

وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم یا عدم دستیابی کی وجہ مردم شماری کا نہ ہونا بھی ہے جس کی وجہ سے آبادی میں اضافے کا تعین ہی نہیں کیا جاتا اور آبادی کی ضروریات اور وسائل کی دستیابی میں تناسب بگڑ جاتا ہے۔ مردم شماری نہ ہونے کی وجہ سے انتخابات کے لیے کی جانے والی حلقہ بندیاں بھی تبدیل نہیں کی جاتیں۔ جبکہ حلقے میں رجسٹرڈ ووٹوں کی تعداد میں اضافہ بڑھتی آبادی کے تناسب سے جاری رہتا ہے۔

اگر بروقت مستقل بنیادوں پر مردم شماری کروائی جائے تو آبادی میں ہونے والے اضافے پر نظر رکھی جا سکتی ہے اور جس کی وجہ سے مزید وسائل کی طلب اور رسد کو یقینی بنا کر ترقی کی منازل طے کی جا سکتی ہیں۔

اس کے ساتھ ساتھ حکومت مضبوط اور جامع اشتہاری مہم کے ذریعے لوگوں کو آبادی میں ہونے والے اضافے کے نقصانات بتا سکتی ہیں اور حکومت کی طرف سے کم بچے پیدا کرنے والے والدین کو سراہا کر اس مسئلے پر قابو پایا جا سکتا ہے۔

نوید نسیم

بلاگرکا تعلق الیکٹرانک میڈیا سے ہے، مگر وہ اخراجِ جذبات، خیالات و تجزیات کے لیے ذریعہ بلاگ کا استعمال بہتر سمجھتے ہیں۔ انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں۔ : navid_nasim@

[email protected]

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تبصرے (9) بند ہیں

Sharminda Oct 19, 2015 02:16pm
Taxes paid by public are used to either settle IMF loans or to support corrupt public sector departments. Public specially businessmen always try to evade from paying taxes knowing it will never be used for public benefit. Unless there's effective check & balance system in place, and government spend money on tax payers benefits, no one will pay tax willingly. 70% of tax is from Karachi. How much invested back in Karachi, everybody knows. Unfortunately salaried public can't evade income tax, while GST, withholding and all other indirect taxes are also paid by them eventually. Pakistan's taxation system requires serious overhaul. Otherwise stop complaining as today, even if a poor commoner breath in Pakistan, he has to pay tax on it.
نجیب احمد سنگھیڑہ Oct 19, 2015 07:34pm
آبادی اور زمینی وسائل کے عدم تناسب کا نظریہ یعنی ‘خاندانی منصوبہ بندی‘ اصل میں امریکی اور یورپی پالیسی سازوں کے لیئے اپنے استعماری اور نسل پرستانہ عزائم کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کا ایک اہم ذریعہ اور جواز ہے اور اس کے پیچھے ‘گُڑ دے کر مارنا‘ کی سازش کار فرما ہے، اس کا نیک نیتی سے کوئی تعلق نہیں ہے- زلزلے، قحط، سونامی، بیماریاں، سیلاب، حادثات اور دیگر آفاتِ سماوی جن میں بیک جنبش ہزاروں لاکھوں انسان لقمہ اجل بن جاتے ہیں، آبادی اور وسائل میں تناسب برقرار رکھنے کا ایک قدرتی ذریعہ ہیں- قابلِ غور پہلو یہ ہے کہ اللہ تعالی نے جب ہر انسان کے رزق کا وعدہ کیا ہوا ہے، کسی گھر میں بچہ بالخصوص لڑکی کی پیدائش رحمت کہلاتی ہو، جب خدا پتھر میں کیڑے کو غذا مہیا کرتا ہے تو پھر ‘خاندانی منصوبہ بندی‘ کی حمایت میں اس قدر شور و غوغا کرنے کا کیا مقصد ہے؟ اس کے حق میں میڈیا وار کیوں چلائی جا رہی ہے؟ اس پر کثیر سرمایہ کیوں خرچ کیا جا رہا ہے؟
نجیب احمد سنگھیڑہ Oct 19, 2015 07:35pm
حیران کن امر یہ ہے کہ ‘خاندانی منصوبہ بندی‘ کا ڈھنڈورا ایسے یورپی و مغربی ممالک پیٹ رہے ہیں جن کا اپنا خاندانی نظام ہے ہی نہیں-ایسے معاشرے جہاں بچے کو اپنے باپ کے نام کا ہی پتہ نہ ہو، شادی سے پہلے بچے پیدا کرنے کو قانون کی شکل میں جائز قرار دیا جاتا ہو، لڑکی اپنے گھر کی بجائے اپنے بوائے فرینڈ کے گھر ہفتوں گزارتی ہو لیکن اسکے گھر والوں کے لیے یہ کوئی مسئلہ نہ ہو، بوڑھوں کے لیے اولڈ ہوم بنائے گئے ہوں، الغرض ایسے معاشرے، عام یورپی اور امریکی افراد جو ‘خاندان‘ کے کسی جھنجھٹ میں پڑنا ہی نہیں چاہتے اور ‘انجوائے دی سیلف‘ کے معروف مغربی اصول کے تحت اپنی زندگی ذمہ داری سے پاک اور عیش و عشرت و رنگ رلیوں سے بھرپور گزرنا چاہتے ہوں تو ان معاشروں کا، ان ملکوں کا ‘خاندانی منصوبہ بندی‘ پر چیخ و پکار کس طرح عقل کی کسوٹی پر فِٹ بیٹھ سکتی ہے؟ یہ تو ایسے ہی ہو گا جیسے کسی سکول ٹیچر کو کسی میڈیکل لیبارٹری میں بٹھا کر میڈیکل رپورٹ تیار کرنے کا کہا جائے- لہذا ثابت ہوا کہ ‘خاندانی منصوبہ بندی‘ کے پراپیگنڈہ کے پیچھے نہ صرف دال میں کالا کالا ہے بلکہ ساتھ ہی نیلا پیلا لال سرخ بھی ہے-
نجیب احمد سنگھیڑہ Oct 19, 2015 07:36pm
تجدید آبادی کے لیئے سرمایہ دار کی حکمتِ عملی یہ ہے کہ ڈائریکٹلی اور انڈائریکٹلی، عالمی اداروں جو کہ دراصل اسی سرمایہ دار نے اپنی بقا وسلامتی وتحفظ کے لیئے دریافت یا بنائے ہیں مثلاً یو این او، آئی ایم ایف، عالمی بینک اور علاقائی ترقیاتی بینکوں وغیرہ کے ذریعے بھی غربت کے خاتمہ، اقتصادی ترقی، زچہ بچہ صحت، بچے دو ہی اچھے، وغیرہ جیسے پروگراموں کے پردے میں تجدید آبادی کی مہم کو کامیاب بنایا جائے- اور اس مہم کو اولیت دینے کا، اس مہم پر زور صرف کرنے کے پیچھے سرمایہ دارانہ ملکوں کا یہ خوف کار فرما ہے کہ کہیں دوسری اقوام (بالخصوص مسلمان) محض افزائش نسل سے طاقت کا توازن ہی نہ بدل کر رکھ دیں اور وہ محض اپنی بڑھتی ہوئی آبادی کے زور پر ہی دنیا میں غلبہ اور تسلط حاصل کرنے میں کامیاب نہ ہو جائیں-چونکہ زیادہ آبادی سے غربت میں اضافہ ہوگا لہٰذا سرمایہ داروں کو اس بات کا بھی خوف ہےکہ کہیں بھوک سے نڈھال افراد اپنی بھوک مٹانے کے لیئے انکی فیکٹریوں پر براجمان نہ ہوجائیں، انکے منافع میں مزدور برابر کا حصہ مانگنے کے لیئے کہیں اٹھ کھڑا نہ ہو اور سرمایہ دار کے لیئے عوام کے سمندر کے آگے ٹِک جانا ممکن نہیں رہے گا-
نجیب احمد سنگھیڑہ Oct 19, 2015 07:38pm
‘فیملی پلاننگ‘ درحقیقت افرادی قوت کو کھپانے والے آنے والے ممکنہ علاقائی تنازعوں کے حل کی غرض سے کیپٹیلسٹ ممالک کا ایک حفاظتی قدم ہے تاکہ ان کی دولت، منافع انہی کے پاس رہ سکے، اور اس کی گردش کا مدار وسعت اختیار نہ کر سکے- اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ترقی پذیر قومیں اپنی شرح آبادی کے نتیجہ میں ‘زیادہ قوت اور اثر‘ کی مالک ہوں گی- باالفاظ دیگر، تجدید آبادی سرمایہ کاروں کا ایک ‘فیملی پلاننگ سرجیکل اٹیک‘ ہے جسکے پیچھے یہ بات کارفرما ہے کہ مغرب یعنی ‘خوشحال ممالک‘ کی حفاظت باقی دنیا میں ‘برتھ کنٹرول‘ کے ذریعہ ہی ممکن ہے- سیاسی نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو ‘آبادی پروگرام‘ بیرونی دخل اندازی کا ایک ‘مہذب‘ ذریعہ ہیں اور یہ استعماری اور نوآبادیاتی سازشیں ہیں کہ ترقی پذیر ممالک بالخصوص جنوبی ایشیا کے ملکوں کو زیردست رکھا جا سکے، اس پروگرام میں نسل کشی کا ارادہ بھی بعید از قیاس قرار نہیں دیا جا سکتا- فیملی پلاننگ پروگرام میں مذہبی، روحانی، سیاسی، ثقافتی اور روایاتی رکاوٹوں کو ختم کرنے کی غرض سے تجدید آبادی پروگراموں میں ‘زچہ بچہ کے لیئے صحت کی فراہمی‘ کو پاپولیشن پراجیکٹ سے مربوط کر دیا جاتا ہے-
نجیب احمد سنگھیڑہ Oct 19, 2015 07:39pm
فیملی پلاننگ کے سلسلے میں جو لٹریچر، کتابچے، پمفلٹ، کتابیں وغیرہ چھاپی جاتی ہیں ان میں اس بات کی پیشن گوئی بھی بکثرت کی جاتی ہے کہ آبادی میں اضافہ کے ساتھ صحت کی سہولتوں کی حالت بدتر ہوتی جائے گی اور علاقے کی حکومتوں کے لئے یہ ممکن نہیں رہے گا کہ رہائشی سہولیات، ٹرانسپورٹ، حفظان صحت، پانی، ایندھن، اور بنیادی عوامی خدمات زیادہ آبادی کے لیئے مہیا کر سکیں- منصوبہ بندی نظریہ کی تشہیر میں یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ ‘خاندانی منصوبہ بندی‘ لوگوں کے لیئے فائدہ مند ہے، بچے تھوڑے ہوں تو مائیں صحت مند ہوں گی، بچے اچھی تعلیم حاصل کر سکیں گے، چھوٹے کنبوں کا معیارِ زندگی بہتر ہوتا ہے، شرح آبادی سست ہوگی تو ترقیاتی عمل پائیدار ہوگا، انجام کار لوگ تھوڑے ہوں گے تو سیاسی لیڈروں کی سر دردی بھی کم ہو گی، وغیرہ وغیرہ- یہ سب باتیں، یہ سب جواز دراصل ‘برتھ کنٹرول‘ کے حقیقی مقاصد سے توجہ ہٹانے کے لیئے استعمال کیئے جاتے ہیں اور آبادی میں کمی کے پروگرام میں ‘سائیکالوجیکل آپریشنز‘ کا درجہ رکھتے ہیں اور ان کا مقصد عوام کو ‘ورغلانا‘ یا اپنی ‘لائن‘ پر لانا ہوتا ہے-
نجیب احمد سنگھیڑہ Oct 19, 2015 07:41pm
‘بچے دو ہی اچھے‘ کو سامنے رکھ لیا جائے کہ اس سے بچوں کو اچھی تعلیم، صحت، روزگار، تربیت وغیرہ ملے گی اور والدین کو بھی پارٹ ٹائم جاب کرنے کی ضرورت نہیں رہے گی کہ گھرانہ دو بچوں پر مشتمل ہے- سوال یہ ہے کہ جب زندگی اور موت کا کوئی پتہ نہیں تو پھر ان دو بچوں کی اچھی تعلیم، تربیت، روزگار وغیرہ کی کیا گارنٹی ہے؟ یہ تو اتنے وثوق سے کہا جاتا ہے کہ جیسے دو بچے لازمی طور پر جوانی یا آگے کا زمانہ دیکھیں گے، جیسے ان کی موت کی تاریخ کا فیملی پلاننگ والوں کو پہلے ہی سے علم ہے، معاذاللہ- مزید برآں، جب مذہب، فرقہ، گھریلو معاملات ذاتی قسم کے ہوتے ہیں تو یہ پلاننگ والے کون ہوتے ہیں ‘بچے دو ہی اچھے‘ پر عوام کو ‘ہپناٹائزڈ‘ کرنے والے؟ یہ ہر کسی کا اپنا ذاتی مسئلہ اور ذاتی معاملہ ہے کہ وہ چاہے دو بچے پیدا کرے یا زیادہ- یہ جو کہتے ہیں کہ زیادہ بچوں سے والدین کو معاشی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے، درست نہیں- کیونکہ یہ بات مشاہدہ کی جا سکتی ہے کہ جوں جوں بچے پیدا ہوتے جاتے ہیں ویسے ویسے قدرتی طور پر اللہ تعالی والدین میں بھی ہمت و طاقت پیدا کرتا چلا جاتا ہے کہ وہ ان کی پرورش کر سکیں.
نجیب احمد سنگھیڑہ Oct 19, 2015 07:41pm
اگر ہم غور کریں تو معلوم ہوگا کہ مناسب طریقوں اور ٹیکنالوجی کے درست استعمال اور نیک نیتی کے استعمال سے پاکستان موجودہ آبادی سے کئی گنا زیادہ آبادی کو بھی سہار سکتا ہے، پیداواری کارکنوں کی بڑی تعداد دوررس اثر کے طور پر شرح آمدنی کو تیزی سے بڑھا بھی سکتی ہے- ویسے بھی اگر بہت سی بنجر، بےآباد اور افتادہ زمین کا نقطہ نظر سامنے رکھا جائے تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ ‘آبادی بڑھانے کی حوصلہ افزائی ہونی چاہیئے‘- المختصر، ‘فیملی پلاننگ‘ سرمایہ دار کی اپنی ذاتی فلاح و بہبود و ترقی و بقا و پرورش کی ایک چال ہے اور ایسا کرنا ‘نسل کشی‘ کے مترادف ہے جو کہ انسانیت کے خلاف جرم ہے اور اس نسل کشی میں بالواسطہ شرکت اور کسی کو ایسی حرکت پر اکسانا یا سازش کرنا بھی جرم ہے- صرف دو باتیں ہی یاد رکھنے کے قابل ہیں ایک یہ کہ ‘اللہ پالنہار ہے‘ اور دوسری یہ کہ: ‘اللہ توں والی توں، دتا ای تے پالی توں‘
Hanif Oct 20, 2015 12:58pm
100% disagreed. We have resources a lot but we are not enough capable to use them efficiently, that's the only problem. Don't ask to reduce population , ask to reduce Parasites sitting on public wealth and resources just of their only benefits.

کارٹون

کارٹون : 21 دسمبر 2025
کارٹون : 20 دسمبر 2025