کیا نوکریوں کے لیے حکومت کا انتظار کرتے رہنا چاہیے؟

اپ ڈیٹ 19 دسمبر 2015
پاکستان میں پہلے تو نوکری ملنا بہت مشکل عمل ہے اور جن کو نوکری مل جاتی ہے ان کی اکثریت اپنی جاب سے مطمئن نظر نہیں آتی۔ — اے ایف پی/فائل
پاکستان میں پہلے تو نوکری ملنا بہت مشکل عمل ہے اور جن کو نوکری مل جاتی ہے ان کی اکثریت اپنی جاب سے مطمئن نظر نہیں آتی۔ — اے ایف پی/فائل

پاکستان میں بے روزگاری کی کیا وجوہات ہیں، یہ ایک الگ موضوع ہے اور اس پر تفصیل سے گفتگو ہوسکتی ہے، لمبے چوڑے آرٹیکلز تحریر ہوسکتے ہیں۔ لیکن کیا اس سے بے روزگاری کی شرح میں کوئی کمی ہوگی؟ میرے خیال میں صرف گفتگو یا بلاگ تحریر کرنے سے بے روزگاری کی شرح میں کوئی کمی واقع نہیں ہوگی کیونکہ حکومت کے پالیسی ساز اشخاص ان بلاگز کو اہمیت دینا تو دور کی بات، پڑھتے تک نہیں ہیں۔

تو اب سوال یہ ہے کہ اس صورت حال میں بہتری کیسے آسکتی ہے۔ جب میں نے اس موضوع پر کچھ مطالعہ کیا تو مجھے معلوم ہوا کہ دنیا بھر کے ماہرین کی نگاہ میں بے روزگاری کی شرح کو کم کرنے کے لیے بہترین حل "انٹرپرینیورشپ" یعنی اپنا کام شروع کرنا ہے۔

ہمیں روزگار کے نئے مواقع پیدا کرنے کے لیے حکومت کا انتظار کرنے کے بجائے اپنے پاکستانی نوجوانوں کے ذہنی رجحان کو تبدیل کرنے کی اشد ضرورت ہے کہ وہ اپنی توجہ ’’جاب‘‘ کے بجائے ’’کاروبار‘‘ کی طرف کریں، یعنی نوکری تلاش کرنے کے بجائے نوکری دینے والا بننے کی کوشش کریں۔

میں اس بات کو اچھی طرح سمجھتا ہوں کہ یہ مضمون پڑھنے والے ہر شخص کے لیے ’’انٹرپرینیورشپ‘‘ کرنا ممکن نہیں لیکن میرا یقین ہے کہ اگر ہزاروں قارئین میں سے دو چار نے بھی اس سوچ سے کامیابی حاصل کرلی تو یہ میری بہت بڑی کامیابی ہے، اور دیگر سینکڑوں لوگوں کے روزگار کے مواقع پیدا کر سکتی ہے۔

پاکستانی جاب مارکیٹ کی صورت حال:

ہمارے ملک میں نوجوانوں کی اکثریت تعلیم حاصل کرنے کے بعد نوکری کی تلاش شروع کرتی ہے۔ جب وہ جاب مارکیٹ میں جاتے ہیں تو ان کو اندازہ ہوتا ہے کہ نوکری تلاش کرنا کافی مشکل کام ہے کیونکہ پاکستان کے کمزور معاشی حالات (اور بے شمار دیگر وجوہات) کی وجہ سے یہاں بے روزگاری کی شرح بہت بلند ہے۔

میڈیا میں اکثر اس طرح کے واقعات رپورٹ ہوتے ہیں کہ فلاں سرکاری نوکری کے لیے جس میں صرف دس/بارہ سیٹیں تھی، 30 ہزار سے زائد افراد نے اپلائی کردیا۔ وفاقی حکومت کے مقابلہ کے امتحان (سی ایس ایس) میں تقریباً بیس ہزار سے زائد طلبہ وطالبات شرکت کرتے ہیں، جبکہ اس میں 200 کے قریب سیٹیں ہوتی ہیں۔ اب آپ خود ہی اندازہ لگائیے کہ تقریباً 100 افراد کا ایک سیٹ کے لیے مقابلہ ہے۔ اس لیے اس میں جو کامیاب ہوتا ہے وہ واقعی خوش قسمت ہوتا ہے۔

میں نے خود دیکھا ہے کہ 80 کی دہائی کے اختتام تک بھی ’’بی کام‘‘ کرنے والوں کو فوری نوکری مل جاتی تھی۔ پھر ہم نے دیکھا کہ جو لڑکے لڑکیاں، کمپیوٹر سائنس میں ’’بی سی ایس‘‘ کرتے تھے، ان کو فوری نوکری مل جاتی تھی، لیکن آج ایسا نہیں ہے۔ آج مارکیٹ میں ہزاروں، ماسٹر ڈگری یافتہ، ایم بی اے، ایم سی ایس کرنے والے بے روزگارموجود ہیں، جن کو ان کی تعلیمی قابلیت کے مطابق جاب میسر نہیں، جس سے ہمارے نوجوانوں میں پریشانی بڑھ رہی ہے۔

جس کو جاب مل جاتی ہے وہ بھی پریشان:

نوکری ملنا بہت مشکل عمل ہے۔ اچھا جن کو نوکری مل جاتی ہے کیا وہ مطمئن ہیں؟ تو میرا مشاہدہ ہے کہ نوکری کرنے والوں کی اکثریت اپنی جاب سے مطمئن نظر نہیں آتی ہے۔ بے روزگاری کی بلند شرح کی وجہ سے اکثریت کو ان کی تعلیم/تجربے سے کم درجے کی نوکری ملتی ہے۔ میں ذاتی طور پر بہت سے اسے افراد کو جانتا ہوں جنہوں نے کمپیوٹر سائنس میں بیچلرز اور ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی ہوئی ہے، لیکن ان کو نوکری کمپیوٹر آپریٹر کی ملی ہے، جسے وہ اپنے کمزور معاشی حالات اور دیگر عوامل کی وجہ سے کرنے پر مجبور ہیں۔

اس کے علاوہ پاکستان میں اکثر نوکری کرنے والوں کو ’’ذاتی نوکر‘‘ تصور کیا جاتا ہے، جس میں آپ کو بلاوجہ بہت باتیں سنائی جاتی ہیں۔ کانٹریکٹ میں درج کام کے علاوہ بھی دیگر بہت سارے کام لیے جاتے ہیں جو انسان صرف اس لیے کرنے پر مجبور ہوتا ہے کہ کہیں یہ نوکری بھی ہاتھ سے نہ چلی جائے۔ اور جو تنخواہ مہینے کے بعد ملتی ہے، وہ اتنی قلیل ہوتی ہے کہ ایک ہی دن میں خرچ ہو جاتی ہے۔

اکثر نوکری کرنے والوں کو یہ شکایت ہوتی ہے کہ آفس میں آپ جتنا مرضی اچھا کام کرلیں، لیکن آپ کو اس کا کوئی اجر نہیں ملنا، کیونکہ ان کی تنخواہ فکس ہے، جس کا ان کی کارکردگی سے کوئی تعلق نہیں۔ بہت کم دفاتر میں یہ اصول ہے کہ اگر آپ زیادہ اچھا کام کریں تو آپ کی تنخواہ زیادہ ہوسکتی ہے۔ اس طرح کی وجوہات سے نوکری کرنے والوں کی اکثریت بددلی اور شدید فرسٹریشن کا شکار نظر آتی ہے۔ وہ نوکری کر بھی رہے ہوتے ہیں اور شکوے شکایت بھی۔

کیا نوکری سے امیر ہوا جا سکتا ہے؟

پاکستان جیسے ملک میں آپ اگر امیر ہونا چاہتے ہیں یا معاشی طور پر خوشحال ہونا چاہتے ہیں تو انتہائی معذرت کے ساتھ، نوکری اور حلال تنخواہ کے ساتھ آپ کے لیے یہ کرنا اگر بالکل ناممکن نہیں، تو اتنا مشکل ضرور ہے کہ اسے چند لوگوں کے علاوہ کوئی نہیں کر پاتا۔ مثلاً مکان ہر خاندان کی بنیادی ضرورت ہے۔ بڑے شہروں میں پانچ مرلے کے مکانات کی قیمت 40 سے 50 لاکھ روپے ہے۔ اب ذرا تصور کریں ایک خاندان کا جس میں ایک آدمی نوکری کرتا ہے۔ وہ اپنی تنخواہ میں سے ہر سال کتنی بچت کریں کہ اپنا ذاتی مکان خرید سکیں؟ جبکہ پراپرٹی کی قیمت بھی چند سالوں میں دوگنی ہوجاتی ہے۔ اس لیے پاکستان میں نوکری کرنے والوں کی اکثریت اپنی تنخواہ کے ذریعے اپنا ذاتی مکان تعمیر نہیں کر سکتی۔

انٹرپرینیور شپ کی اہمیت:

انٹرپرینیور کا اصل اردو ترجمہ ’’کاروباری شخص‘‘ ہے۔ ویسے تو انٹرپرینیور شپ کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ’’انٹرپرینیور شپ ‘‘ کو پاکستان کی تمام نجی و سرکاری یونیورسٹیز میں ایک کورس کا درجہ حاصل ہے اور انٹرپرینیور شپ کا مضمون بطور خاص ڈگری پروگرامز میں پڑھایا جا رہا ہے، جبکہ بعض یونیورسٹیز میں ’’ایم بی اے‘‘ میں اس مضمون کو خاص اہمیت دی جاتی ہے، جس سے بڑے مثبت نتائج برآمد ہو رہے ہیں۔

انٹرپرینیور شپ ایک اثاثہ ہے:

انٹرپرینیور شپ ایک اثاثہ ہے جبکہ ’’نوکری‘‘ آپ کی ذات خاص تک محدود ہے۔ جو لوگ نوکری کرتے ہیں، ان کی آمدنی کے لیے ان کا خود حاضر ہونا لازمی شرط ہے۔ یعنی یہ نہیں ہوسکتا کہ آپ اپنی جگہ کسی اور شخص کو نوکری پر بھیج دیں۔ یہ نوکری آپ نے خود ہی کرنی ہے۔ اگر کسی وجہ سے نوکری کرنے والا شخص اس دنیا سے رخصت ہوجائے تو اس کے خاندان کو نوکری سے ملنے والی مراعات ختم ہو جاتی ہیں، یا انتہائی کم یعنی نہ ہونے کے برابر ملتی ہیں۔

اس کے مقابلے میں انٹرپرینیور شپ آپ کا اور آپ کے خاندان کا ایک اثاثہ ہے، ایسا اثاثہ جس کو فروخت بھی کیا جاسکتا ہے۔ انٹرپرینیور شپ کی ایک بہت بڑی خوبی یہ ہے کہ چونکہ اس میں نوکریاں پیدا ہوتی ہیں، اس لیے آپ کو اپنی اولاد یا رشتے داروں کے لیے پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہوتی، نہ آپ کو اپنے بیٹے یا بھائی وغیرہ کی نوکری کے لیے کسی کی منت سماجت کرنی پڑتی ہے۔ آپ اپنی اولاد یا رشتہ داروں کو اپنے ساتھ کام پر لگا سکتے ہیں، نیز کامیاب انٹرپرینیور کے اہل خانہ کو زندگی کی بنیادی ضروریات بہت آسانی سے میسر آجاتی ہیں۔

مہنگائی کا کوئی خوف نہیں:

نوکری کرنے والوں کی آمدنی چونکہ فکس ہوتی ہے، اس لیے جب بھی حکومت بجٹ کا اعلان کرتی ہے، یا غیر اعلانیہ مہنگائی کرتی ہے، تو ان کی مشکلات میں اضافہ ہوجاتا ہے، خاص طور پر درمیانے طبقہ کو، چونکہ ان کی تنخواہ میں اضافہ تو سال کے بعد ہونا ہے۔ (یاد رہے کہ ہمارے ہاں کئی اداروں میں تنخواہوں میں اضافہ سالانہ کے بجائے تین چار سال کے بعد ہوتا ہے) جبکہ انٹرپرینیور طبقے کو مہنگائی اس طرح متاثر نہیں کرتی۔ اس کے علاوہ انٹرپرینیور کے پاس اپنی آمدنی بڑھنے کے بے شمار مواقع موجود ہوتے ہیں۔

ترقی کی کوئی حد نہیں:

انٹرپرینیور شپ میں میں ترقی کی کوئی حد نہیں۔ آپ اپنی سوچ اور محنت سے بہت آگے تک جاسکتے ہیں، لیکن نوکری میں ہر جگہ حدود و قیود ہیں۔ مثلاً آپ کی ترقی اور تنخواہ میں اضافہ ایک طے شدہ طریقہ کار کے مطابق ہوتا ہے۔ یہ نہیں ہوسکتا کہ ایک شخص کسی کالج/یونیورسٹی میں لیکچرر بھرتی ہو اور اگلے سال اس کالج میں پروفیسر، اس سے اگلے سال ہیڈ آف ڈیپارٹمنٹ اور اگلے سال پرنسپل/ ڈین وغیرہ بن جائے، بلکہ اگلی پوسٹ تک جانے کے لیے اسکو کافی سال انتظار کرنا ہوگا۔

انٹرپرینیور شپ کی ضرورت:

پاکستانی معاشرہ میں بے روزگاری کی شرح کو کم کرنے کے لیے ہمیں انٹرپرینیور افراد کی ضرورت ہے۔ ہمیں سوچنا ہوگا اور فیصلہ کرنا ہوگا کہ اگرہم صرف بزنس، مینیجمنٹ، انجینئرنگ، کامرس یا کمپیوٹر سائنس کے ماہرین تیار کرتے جائیں گے، تو جناب ان سب کو نوکری کہاں سے ملے گی؟

اگر ہماری یونیورسٹیاں صرف انجینئر پیدا کرنے کے بجائے ایک انٹرپرینیور انجینئرز تیار کریں تو اس سے ملک میں بے روزگاری کی شرح کمی ہوگی۔ کیونکہ وہ نوکریاں پیدا کریں گے۔

ہمیں نوجوان میں بزنس کی خواہش پیدا کرنا ہوگی:

ہمارا نوجوان طبقہ بہت زیادہ ذہین ہے اور اس کے اندر بے پناہ صلاحیتیں ہیں۔ دنیا کے بہت سے ممالک پاکستانی یوتھ کی تعریف کرتے ہیں، لیکن جس وجہ سے ہماری یوتھ مار کھا رہی ہے وہ اس کا درست سمت کی جانب سفر نہ کرنا ہے۔

میرا ذاتی مشاہدہ ہے کہ ہمارے نوجوانوں کو جو کام سمجھا دیا جائے وہ اس کام کو بہت اچھے طریقے سے مکمل کرتے ہیں۔ محنت، جانفشانی اور ذہانت میں پاکستانی یوتھ دنیا کے دوسرے ممالک کے نوجوانوں سے کسی بھی طرح کم نہیں ہے۔

اب ہمارے نوجوانوں کو سوچنا اور فیصلہ کرنا ہوگا کہ ’’میں نے اپنا ذاتی کاروبار شروع کرنا ہے، میں نے کسی دوسرے کی غلامی نہیں کرنی، مجھے ہر صورت آگے بڑھنا ہے، مجھے اپنی کمزوریاں کو کم کرنا ہے تاکہ میرے کام کرنے کی صلاحیت اور طاقت میں اضافہ ہو، میں نے اس دنیا میں کوئی بڑا کام کرنا ہے، میں نے اپنے معاشرے کے کمزور طبقے کے لیے روزگار کے مواقع پیدا کرنے ہیں اور ان کی خوشی میں اضافہ کرنا ہے۔"

اگلے ہفتے ہم دنیا اور پاکستان کے کچھ مشہور انٹرپرینیورز کی کہانیوں کا جائزہ لیں گے اور دیکھیں گے کہ عام طور پر ہمارے ذہنوں میں پائی جانے والی سوچ کہ "کاروبار شروع کرنے کے لیے پیسہ کہاں سے آئے گا" کو کیوں تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔

تبصرے (26) بند ہیں

HK Cheema Dec 18, 2015 03:26pm
100% True
نجیب احمد سنگھیڑہ Dec 18, 2015 03:41pm
بزنس یا کاروبار اختیار کرنا اور اس میں کامیابی حاصل کرنا کا براہ راست تعلق بزنس کرنے والوں کی ذات پات پر ہے۔ زمیندار لوگ بزنس میں ہمیشہ خسارہ کھاتے ہیں کیونکہ یہ لوگ گاہکوں کو قابو کرنے کے لیے چرب زبانی نہیں کر سکتے، خوشامد نہیں کر سکتے اور نہ ہی زیادہ بحث کرسکتے ہیں۔ بزنس کے لیے چرب زبان، ٹھنڈا ٹھار رہنا، کسٹمرز کو عارضی دیوتا سمجھنا، کسٹمرز کی تلخ و ترش باتوں اور درشت لہجہ کے جواب میں شیرینی بھری زبان استعمال کرنا جاٹ نسل میں نہیں ہے۔ اسی طرح دھوکہ دہی، ایک چیز کی قیمت پانچ سو گنا کسٹمرز کو بتانا اور اینٹھنا بھی یہ گوارا نہیں کرتے کیونکہ اللہ لوک ہوتے ہیں۔ بزنس کلاس میں کراچی کے لوگ زیادہ کامیاب ہیں کیونکہ وہ منہ کے میٹھے ہوتے ہیں قطع تعلق کہ دل میں کیا ہے۔ نوکری میں اگرچہ ککھ نہیں رکھا اور نری غلامی ہوتی ہے، مگر اس کا بڑا فائدہ جاب تحفظ کا ہے۔ سرکاری نوکری میں کوئی باہر کڈھنے والے نہیں ہوتا اگر کوئی نکالتا ہے تو معزز عدالتیں بحال کر دیتی ہیں چاہے دیر سے ہی سہی۔ نیز نوکری میں دنیا داری چلانے کے لیے چھٹیاں بھی مل جاتی ہیں۔ واضح رہے نوکری کا معنی پرائیویٹ نوکریاں نہیں ہیں۔
Haider Shah Dec 18, 2015 04:27pm
Glade to see we have people's who has 21st century vision. entrepreneurship have broaden your analytical skill and also keep you out of the box thinker. There are certain characteristics that can significantly improve the odds of succeeding as an entrepreneur. Without these characteristics, though, it’s hard to do well even with the best of business ideas. 1.Discipline 2.Calm 3.Attention to Detail 4.Risk Tolerance 5.Balance The characteristics I’ve listed above are not characteristics that a person is born with. Some people do seem to have an aptitude for those qualities that make up the entrepreneurial spirit — but they can be learned. They aren’t the easiest things to learn, admittedly, but it’s not impossible. You won’t find classes in these subjects, but you can teach yourself, if you truly want to. Good on you:)
ممتاز حسین Dec 18, 2015 04:37pm
محترم جناب حسن امتیاز صاحب آپ نے بہت اچھی اور فائدے مند تحریر کی ہے۔ اللہ جزا دے۔ انٹرپرینیور بہت بہترین ہے لیکن یہاں سرمائے کا بہت مسئلہ آجاتا ہے۔ کاروبار میں بہت پلاننگ کرنی پڑتی ہے۔ کاروبار میں نقصان کا اندیشہ ہوتا ہے۔ جسکی وجہ سے آپ کے پاس کاروبار کے علاوہ بھی پیسہ ہونا چاہئے تاکہ نقصان کی صورت میں گھر چل سکے
ghulam farooq jan Dec 18, 2015 04:52pm
@HK Cheema I would like to read and understand your next weak lesson .
Mohammad Ayaz Dec 18, 2015 04:58pm
Apne Bilkul Theek kaha ha magar hum yeh sab kaise kar saktay hen koi Rasta bhi btayen na
عائشہ بحش Dec 18, 2015 07:28pm
@نجیب احمد سنگھیڑہ :یہ مضمون بہت اچھا ہے ۔ اور نجیب احمد سنگھیڑہ کا اس پر تبصرہ بھی بہت خوب ہے ۔ نجیب صاحب کیا آپ مشہور مصنف نیاز احمد سنگھیڑہ صاحب کے رشتہ دار ہیں۔ ؟ میں نے چوہدری نیاز احمد سنگھیڑہ کی کتاب ’’پاکستان میں قوم سازی کا عمل ‘‘ کا مطالعہ کیا ہے ۔ مجھے آپ کی اور نیاز سنگھیڑہ کے طرز تحریر میں یکسانیت محسوس ہوتی ہے ۔
نجیب احمد سنگھیڑہ Dec 18, 2015 08:06pm
@عائشہ بحش صاحبہ، تبصرہ پسند کرنے کا شکریہ۔ میں نیاز احمد سنگھیڑہ صاحب کا رشتہ دار نہیں بلکہ اُن کا پُت ہوں :)
Arslan Bin Ubaid Dec 18, 2015 08:25pm
bhut umdha..
Shahzad Ahmad Dec 18, 2015 08:25pm
I agreed to your ideas,It is a great help for the youth.Please mention such strategy which help the persons to start the business.Particularly the fear of failure.how i overcome this theory of failure.please help
عادل شیخ Dec 18, 2015 10:14pm
اچھا مضمون ہے۔ شیئر کر رہا ہوں۔ اگلی تحریر کا انتظار رہے گا۔
Syed Yunas Shah Dec 19, 2015 12:39am
wow... es article ne tu mujhy apne bare mai soch krne par majboor kr dia :) gorgeous..
محمد نصیر عباسی Dec 19, 2015 09:57am
حسن امتیاز صاحب کی کاوش قابل تعریف ھے۔ عملی زندگی کا آغاز کرنے والوں نیز ماضی میں روزی روٹی کیلئے ٹکے ٹکے کی نوکریوں کیلئے رلنے والوں کیلئے تیر بہدف نسخہ ھے۔۔۔۔
Waqar Malik Dec 19, 2015 10:38am
your have to give some kind of ideas to youth, that how to start different kind of business.
محمد نصیر عباسی Dec 19, 2015 10:44am
قابل توجہ کالم ھے۔۔۔۔
MUHAMMAD RASHID Dec 19, 2015 12:14pm
zabardast magar start kesy lain baghair paison key?
محمد افتخار Dec 19, 2015 01:12pm
اسلم نے اپنا پولٹری کاروبار شروع کیا۔ 2 ما ہ بعد چوزے تیار ہو جاتے ہیں، اسلم اپنی محنت پر خوش ہے۔ اللہ نے کرم کیا ہے۔ اس نے خیالوں میں اپنے کاروبار کو وسعت بھی دے دی ہےاور وہ گھومنے والی کرسی پر بیٹھا ہے۔ رات کو ڈاکو اس کو آکر جگاتے ہیں، اور مرغیاں زبح کر کے گوشت بنانے کا کہتے ہیں- سر پر گن دیکھ کر اسلم کا سب کچھ گھوم جاتا ہے۔ ڈاکو گوشت لے جاتے ہیں۔ اور جاتے ہوۓاسلم کو کہ جاتے ہیں، وہ تھانہ ہے وہ کچہری ہے جو کرنا ہے کر لینا-اسلم انٹر پرینیور بن گیا
Haider Shah Dec 19, 2015 01:20pm
Reading on trail comment, I think majorities had focus on Finance, where one would be getting from ? Human intellectual is blessing Of Allah for every one regardless if you Muslim or not. Focus on "what you have develop to sell"? we have millions of successful people's track records have not even single penny... so what driven them to be successful than? defiantly no finance what else ? this is the question need to work out !!!
MOHAMMAD HAMZA BANGASH Dec 19, 2015 02:32pm
ASSALAMOALIKUM DEAR BROTHER APNE WAKAYE BOHOT ACHA IDEA NIKALA HAI. RAHI BAT SARMAYE KI TU ITNA THORA BOHOT HAR KOI MANAGE KAR LITA HAI. OR MARKET ME ANE K BAD HAR BANDA NAFA NUQSAN KI PEHCHAN KAR LITA HAI
SOHAIL AHMAD KPK PAKISTAN Dec 19, 2015 03:40pm
brilliant idea i totally agree with you and i think that the 1st step towards the entrepreneurship is that search your hidden talint with out thinking about failure because taking unnecessary risk is import for long success.
اختر رسول Dec 19, 2015 03:50pm
بہت خوب ، آپ سے گزارش کے کہ آپ ہمیں ایسا کچه بتائیں کہ ہم اس کو کرکہ آہستہ آہستہ آگے نکل جائیں ، میں اس وقت سعودی عرب میں ہو اور موبائیل کا کام کرتا ہوں 2 ہزار ریال 57000 پاکستانی میں مہینے کا کرایا دیتا ہوں اور لاکھ سے اوپر مجھے بچت بھی ہوتی ہے پر میں اپنے ملک میں کام کرنا چاہتا ہوں اپنے لوگوں میں ایک دو چیزیں سوچی ہیں میں نے انشاءاللہ جا کر کرنے کی کوشش کروں گا پر سوچتا ہوں عوام کہے گی اووو سعودیہ سے آکر یہ کیسا کام کر ریا
rashid shahzad Dec 19, 2015 06:04pm
ap ki baat bilkul droost hy is main koi shak ni he but problum to peaisy ki he k bisnus suru krne k liay paisy kha se aaian ge agr is cheez ka jwab agr ap k pass he to plz mujy comment zaroor kijeay ga..........thanks
محمد نصیر عباسی Dec 19, 2015 07:21pm
@Waqar Malik Malik sb its up to the people concerned. There is will there is way. If any person decides with confidence and prove himself among family, friends and especially enemies he will arrange basic finance and in short possible time he will be able not only to return the debt but giving amount to needy......
Ali Dec 19, 2015 08:30pm
I like it But i want to write more on it famous person's like Bill gates,Mark Zuckerberg,Christino Ronaldo e.t.c.....................
awais Javiad Dec 29, 2015 12:48am
sir i am a student please tell ma any website.i daily expense are so less but for fee paying i have no money. if you have any online website please tell me about information technology and software engineering.
Muhammad Nadeem Feb 16, 2016 04:28pm
Yes this article is very helpful for those who are waiting for jobs since a long time as well as for those who are doing a "slavery job" with low salary package. Waiting for a job and doing a job with low salary is nothing but time wasting only, So therefore don't wast the time and should start own business immediately even with less amount of money.