• KHI: Fog 17.5°C
  • LHR: Partly Cloudy 11.8°C
  • ISB: Partly Cloudy 13.8°C
  • KHI: Fog 17.5°C
  • LHR: Partly Cloudy 11.8°C
  • ISB: Partly Cloudy 13.8°C

’سیاسی رہنماؤں کو ’سیکیورٹی رسک‘ قرار دینا قومی سلامتی کو کمزور کرتا ہے‘

شائع December 10, 2025

ملک میں سیاسی رہنماؤں کو غدار اور قومی سلامتی کے لیے خطرہ قرار دینا کوئی نئی بات نہیں، یہ عمل ہماری سیاسی قوت کے کھیل کا دیرینہ حصہ ہے۔ شاذ و نادر ہی کوئی بڑا سیاسی رہنما چاہے وہ اعلیٰ ترین ریاستی عہدہ سنبھال چکا ہو ایسی توہین سے محفوظ رہا ہو۔

اس فہرست میں تازہ اضافہ جیل میں قید سابق وزیرِاعظم عمران خان کا ہے، جنہیں آئی ایس پی آر کے سربراہ نے ’سکیورٹی تھریٹ‘ اور ’خیالی دنیا میں رہنے والا شخص‘ قرار دیا ہے۔ یہ لیبل ایسے شخص پر لگایا گیا ہے جو کچھ عرصہ پہلے تک ملک کا سب سے بڑا سیاسی عہدہ سنبھالے ہوئے تھا اور آج بھی سب سے بڑی اپوزیشن جماعت کا سربراہ ہے، یہ بات تشویش ناک ہے۔

یہ تبصرے عمران خان کی جانب سے سوشل میڈیا پر انتہائی اشتعال انگیز بیانات کے بعد سامنے آئے، مگر سلامتی کے اداروں کے لیے مناسب نہیں کہ وہ اس حوالے سے عوامی سطح پر لفظی جنگ میں پڑیں۔

کسی بھی سیاسی رہنما کو ‘سکیورٹی رسک’ یا ‘غدار’ قرار دینا کسی بھی جواز سے درست نہیں ٹھہرایا جاسکتا، مگر بہت سے مسلم لیگ (ن) کے وزرا بھی اپنے سیاسی مخالف کے خلاف اس مہم میں شامل ہوگئے ہیں، بھول کر کہ کچھ سال قبل یہی کچھ ان کے اپنے قائد کے ساتھ بھی ہوا تھا۔

نواز شریف کو 2016 میں ’ڈان لیکس‘ کے معاملے پر بدترین الزامات کا سامنا کرنا پڑا۔ اگرچہ سلامتی کے حلقوں کی جانب سے کوئی عوامی اعلان نہیں کیا گیا تھا، مگر اس وقت ایک منظم مہم ایک بیٹھے ہوئے وزیر اعظم کے خلاف چلائی گئی، جس نے انہیں طاقت کے مراکز کے ساتھ براہِ راست محاذ آرائی میں دھکیل دیا۔ نہ صرف انہیں ایک وزیر اور ایک خصوصی مشیر کو برطرف کرنا پڑا بلکہ یہ اسکینڈل ان کی اپنی برطرفی میں بھی حصہ دار بنا۔

نواز شریف کو اپنی حکومت کے خاتمے کے بعد جب انہوں نے اُس وقت کی سیکیورٹی قیادت پر تنقید کی تو اسی نوعیت کے الزامات کا سامنا کرنا پڑا۔ اس کے برعکس عمران خان کو 2018 میں اسٹیبلشمنٹ کی مدد سے اقتدار میں آنے والا سمجھا جاتا رہا۔

المیہ یہ ہے کہ آج نواز شریف جنہیں دوبارہ سیاسی طور پر قابلِ قبول سمجھا جا رہا ہے، اور ان کی جماعت کے رہنما خود عمران خان کے خلاف یہی الزامات دہرانے لگے اور پی ٹی آئی پر پابندی کے حامی بن گئے۔ انتقام کی یہ سیاست ہمیشہ ماورائے آئین طاقتوں کے لیے فائدہ مند ثابت ہوتی ہے جبکہ اس کی قیمت آئینی جمہوریت کو چکانی پڑتی ہے۔

آصف علی زرداری بھی اپنی پہلی صدارتی مدت میں ’میموگیٹ‘ کے نام پر ایسی ہی مہم کا نشانہ بنے۔ اس وقت بھی مسلم لیگ (ن) پیش پیش تھی، اور اس مہم کے پیچھے پوشیدہ قوتوں کا ہاتھ سمجھا جاتا تھا۔ ’سکیورٹی تھریٹ‘ کا خوف دلا کر ہمیشہ سویلین حکومتوں کو کمزور کیا گیا اور سیاسی قیادت کی ساکھ کو نقصان پہنچایا گیا۔ بدقسمتی سے سیاسی جماعتیں ہمیشہ اس کھیل میں مہرے کا کردار ادا کرتی رہی ہیں۔

شاید اس مہم کی سب سے بڑی شکار بے نظیر بھٹو تھیں جنہیں اقتدار میں ہوں یا نہ ہوں، ہر وقت نشانہ بنایا گیا۔ یہ بات کسی سے پوشیدہ نہیں کہ 1988 کے انتخابات جیتنے کے باوجود انہیں انتہائی ناگواری کے ساتھ اقتدار منتقل کیا گیا، اور جلد ہی ان کی حکومت کو گرانے کی سازش شروع ہوگئی۔ ’سکیورٹی تھریٹ‘ کا لیبل رکھنے والی اس مہم کی قیادت مسلم لیگ (ن) نے ریاستی سرپرستی میں کی۔

بینظیر بھٹو کے اُس وقت کے بھارتی وزیرِاعظم راجیو گاندھی سے سارک سربراہ اجلاس میں ملاقاتیں اور بھارت کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے کے لیے کی گئی کوششوں کو ان کے خلاف شدید پروپیگنڈے کے لیے استعمال کیا گیا۔ جب اسٹیبلشمنٹ کی حمایت یافتہ عدم اعتماد کی تحریک ناکام ہوئی تو اس مہم میں تیزی آگئی۔ مجھے یاد ہے کہ جنرل حمید گل، جو اس وقت ملتان کے کور کمانڈر تھے اور آئی ایس آئی کی سربراہی سے ہٹائے گئے تھے، نے 1990 کے اوائل میں مجھے بتایا کہ کس طرح ملک کی سب سے بڑی فوجی مشقوں میں سے ایک، ضربِ مومن کے ذریعے سکیورٹی قیادت نے بھارت کے ساتھ بہتر تعلقات کی جانب ان کی کوشش کو کمزور کیا۔ ملک اور بیرونِ ملک سے آئے صحافیوں کو یہ مشق دکھائی گئی، جسے پاکستان کا ‘glasnost’ لمحہ قرار دیا گیا۔

چند ماہ بعد ان کی حکومت ایک ’آئینی بغاوت‘ کے ذریعے برطرف کردی گئی۔ بے نظیر بھٹو پر یہ جھوٹا الزام بھی لگایا گیا کہ انہوں نے پاکستان کے جوہری پروگرام کی حساس معلومات امریکا کو فراہم کیں۔ یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ ایسی خبریں کہاں سے آتی ہیں۔ سیاسی رہنماؤں اور منتخب نمائندوں پر ریاست مخالف الزامات لگانا خود قومی سلامتی کو کمزور کرتا ہے، اور افسوس کہ ہماری سیاسی قیادت نے اپنی تاریخ سے کچھ نہیں سیکھا۔ ساتھ ہیماورائے آئین اقدامات پر تنقید کو سلامتی کے اداروں پر حملہ تصور نہیں کیا جانا چاہیے۔

چند سال قبل تک عمران خان کو اسٹیبلشمنٹ نے ’بدعنوان سیاسی قیادت‘ کا متبادل بنا کر پیش کیا تھا۔ وہ خود بھی اپنے سیاسی مخالفین کی حب الوطنی پر سوال اٹھاتے رہے۔ مگر حالات بدلے تو آج وہ خود انہی طاقتور حلقوں کے ہاتھوں ’سکیورٹی تھریٹ‘ قرار پائے جنہوں نے انہیں اقتدار میں لانے میں کردار ادا کیا۔

اگرچہ عمران خان کی موجودہ مہم جو کہ فوجی قیادت کے خلاف ذاتی حملوں پر مبنی ہے، کسی طور درست قرار نہیں دی جاسکتی، مگر ان کے ساتھ اور ان کی پارٹی کے رہنماؤں کے ساتھ روا رکھا جانے والا سلوک بھی کسی طرح جائز نہیں۔ ریاستی عناصر کے بڑھتے ہوئے کردار نے سیاسی تقسیم کو مزید گہرا کردیا ہے۔

گزشتہ ہفتے کی پریس کانفرنس نے ملک میں سیاسی محاذ آرائی کو اور بھی بھڑکا دیا ہے اور سلامتی کے اداروں کے مبینہ کردار پر سوال اٹھ رہے ہیں۔ اس وقت ملک کو داخلی اور خارجی سیکیورٹی چیلنجز سے نمٹنے کے لیے عوام کی مکمل حمایت کی ضرورت ہے؛ بڑھتی ہوئی کشیدگی پہلے سے ہی نازک صورتحال کو مزید خطرناک بنا سکتی ہے۔

ملک کے اندر انتہائی منقسم سیاست اور عوام و ریاست کے درمیان بڑھتی عدم اعتماد کی خلیج ان دو اسٹریٹجک صوبوں میں دہشت گردی کے وجودی خطرے کے خاتمے کے لیے درکار قومی یکجہتی کو نقصان پہنچا سکتی ہے۔ خیبر پختونخوا میں پی ٹی آئی کی صوبائی حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان بڑھتی کشیدگی بھی تشویش کا باعث ہے، خصوصاً جب صوبے میں دہشت گردی میں اضافہ اور افغانستان کے ساتھ مغربی سرحد پر جنگ جیسے حالات موجود ہیں۔

آج پہلے سے زیادہ ملک کو سیاسی مفاہمت کی ضرورت ہے تاکہ اصل چیلنجز سے نمٹا جاسکے۔ سابق وزیر اعظم کو ’سکیورٹی تھریٹ‘ قرار دینا یا سکیورٹی اداروں کو گالیاں دینا موجودہ بحران کو مزید پیچیدہ کرے گا۔


اس تحریر کو انگریزی میں پڑھیں

زاہد حسین

لکھاری صحافی اور مصنف ہیں. ان کا ای میل ایڈریس [email protected] ہے.

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

کارٹون

کارٹون : 11 دسمبر 2025
کارٹون : 10 دسمبر 2025