انڈونیشیا میں سزائے موت کے منتظر پاکستانی کو بچانے کی کوششیں
لاہور / اسلام آباد: حکومت نے انڈونیشیا میں منشیات سے متعلق الزامات پر سزائے موت کے منتظر پاکستانی شہری ذوالفقار علی کو بچانے کیلئے سفارتی کوششیں تیز کردی ہیں۔
ایک سفارتکار نے بتایا کہ وزیر اعظم کے مشیر برائے امور خارجہ سرتاج عزیز ایسوسی ایشن آف سائوتھ ایسٹ ایشین نیشنز(آسایان) کے ریجنل فورم اجلاس میں شرکت کیلئے لائوس میں موجود ہیں.
انہوں نے مزید بتایا کہ وہ پاکستانی شہری کی سزائے موت کے حوالے سے اپنے انڈونیشین ہم منصب رینٹو مارسوڈی سے ملاقات کرنا چاہتے ہیں۔
اس کے علاوہ پاکستان میں تعینات انڈونیشین سفیر ایوان سویودھی امری کو بھی اس حوالے سے دفتر خارجہ میں طلب کیا جاچکا ہے۔
دفتر خارجہ کے ترجمان نفیس ذکریا نے بتایا کہ اسلام آباد میں موجود انڈونیشین سفیر کو وزارت خارجہ نے طلب کیا تھا اور انہیں کہا تھا کہ وہ موت کے منتظر پاکستانی شہری کے حوالے سے پاکستانی حکومت کے خدشات اپنی حکومت کو پہنچائیں۔
ذوالفقار علی گزشتہ 12 برس سے انڈونیشیا کی جیل میں تھا اور اب انڈونیشین حکام اس کی سزائے موت پر عمل کرنے والے ہیں۔
انسانی حقوق کیلئے سرگرم قانونی فرم دی جسٹس پروجیکٹ پاکستان (جے پی پی) نے صدر پاکستان سے اپیل کی ہے کہ وہ انڈونیشیا میں پاکستانی شہری کی سزائے موت کا معاملہ انڈونیشین حکومت کے سامنے اٹھائیں اور اس کی جان بچانے میں کردار ادا کریں۔
52 سالہ ذوالفقار کو نومبر 2004 میں 300 گرام ہیرون کی اسمگلنگ کے کیس میں جکارتہ سے گرفتار کیا گیا تھا۔
اس کیس میں شریک ملزم گردیپ سنگھ ابتداء میں ذوالفقار علی کے خلاف دیے گئے بیان سے مکر چکا ہے اور اس کا کہنا ہے کہ یہ بیان اس سے زبردستی لیا گیا تھا۔
جے پی پی کا کہنا ہے کہ انڈونیشین پولیس ذوالفقار پر عائد الزامات کو ثابت کرنے کیلئے کوئی مادی شواہد پیش نہیں کرسکی ہے لیکن اس کے باوجود جکارتہ میں پاکستانی سفارتخانے کو نوٹی فیکیشن بھیجا گیا ہے کہ ذوالفقار علی کو جلد سزائے موت دے دی جائے کہ اور اس کی فیملی کو 72 گھنٹے قبل آگاہ کردیا جائے گا۔
ذوالفقار علی کو مغربی صوبے جاوا میں واقع ان کے گھر سے بغیر وارنٹ کے گرفتار کیا گیا تھا، تین دن تک سوئیکارنو ہٹا ایئرپورٹ ڈسٹرکٹ کی پولیس نے انہیں تشدد کا نشانہ بنایا اور جان سے مارنے کی دھمکیاں دیتے رہے اور پھر اس سے اعترافی بیان پر دستخط کرالیے گئے۔
جے پی پی کا کہنا ہے کہ ایک موقع پر ذوالفقار کو پولیس اسٹیشن سے باہر لے جایا گیا اور دھمکی دی گئی کہ اسے کار سے باندھ کر گھسیٹا جائے گا۔
قانونی فرم جے پی پی نے مزید بتایا کہ ذوالفقار پر ہونے والے جسمانی تشدد کی وجہ سے اسے معدے اور گردوں کی ہنگامی سرجری بھی کرانی پڑی اور وہ ہسپتال میں 17 روز زیر علاج رہا۔
ہسپتال میں آنے والے تمام اخراجات بھی علی کے اہل خانہ کو ہی برداشت کرنے پڑے اور اب بھی علی کو تشدد کی وجہ سے صحت کے متعدد مسائل کا سامنا ہے۔
جے پی پی کا کہنا ہے کہ چھ بچوں کے والد ذوالفقار کو ایک ماہ تک وکیل فراہم نہیں کیا گیا اور پاکستانی سفارتخانے سے بھی کسی نے اس سے رابطہ کرنے کی کوشش نہیں کی، تین ماہ جیل میں رکھنے کے بعد اسے پہلی بار عدالت میں پیش کیا گیا۔
عدالت میں علی کے بارہا یہ بتانے کے باوجود کے اس سے اعترافی بیان پر زبردستی دستخط کرائے گئے ہیں جج نے اس بیان کو بطور ثبوت استعمال کرنے کی اجازت دے دی۔
جے پی پی کا کہنا ہے کہ علی مقامی زبان نہیں بول سکتا اور دوران حراست اور مقدمے کی کارروائیوں کے دوران اسے مترجم کی محدود معاونت فراہم کی گئی۔
علی نے پروسیکیوٹر کو بتایا کہ اس کے خلاف جو رپورٹ پیش کی گئی ہے وہ جھوٹی ہے اور اسے تشدد کرکے حاصل کیا گیا ہے۔
سماعت کے دوران پروسیکیوٹر نے علی سے کہا کہ جو کچھ پولیس کہہ رہی ہے اسے قبول کرلو ورنہ مزید سخت سزا سنائی جائے گی۔
علی نے عدالت کو بتایا کہ پولیس نے اس پر تشدد کیا ہے اور اس کی تصاویر بھی عدالت کے پاس موجود ہیں۔
جب علی نے اپنے خلاف پیش ہونے والی رپورٹ کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا تو اس کی سزائے موت کو ختم کرکے 10 سے 15 برس قید میں تبدیل کرنے کیلئے اس سے 40 کروڑ انڈونیشین روپے مانگے گئے ، علی نے رشوت دینے سے انکار کردیا اور اپنی بے گناہی پر اصرار کرتا رہا۔
جے پی پی کا کہنا ہے کہ علی کے مقدمے کی کارروائی شفاف انداز سے مکمل نہیں کی گئی اور اب اس کے پاس بچنے کا صرف ایک قانونی راستہ ہے اور وہ ہے انڈونیشین صدر سے رحم کی اپیل کرنا۔
جے پی پی نے اس بات کی بھی نشاندہی کی کہ اسی جرم میں اگر کوئی یورپی شہری کو سزا ہوئی ہوتی تو اسے رعایت مل سکتی تھی اور اگر پاکستانی حکومت نے جلد ہی کوئی اقدام نہیں اٹھایا تو انڈونیشین فائرنگ اسکواڈ کے ذریعے ذوالفقار علی کی سزائے موت پر عمل کردیا جائے گا۔
ذولفقار علی کی اہلیہ سیتی روحانی نے اپنی آخری امید حکومت پاکستان سے لگا رکھی ہے اور وہ کہتی ہیں کہ اگر حکومت پاکستان تعاون کرے تو ان کے شوہر کو بچایا جاسکتا ہے۔
جے پی پی کی لیگل ڈائریکٹر مریم حق کہتی ہیں کہ دوران حراست ذوالفقار علی پربہیمانہ تشدد کیا گیا اور انہیں بنیادی قانونی حقوق سے محروم رکھا گیا۔
انہوں نے کہا کہ علی کو مجرم ثابت کرنے سے زیادہ شواہد اسے بے گناہ ثابت کرنے کے حوالے سے موجود ہیں اور اب ضرورت اس بات کی ہے کہ صدر پاکستان اپنے مسلم اتحادیوں سے اپیل کریں اور بے گناہ شہری کی جان بچائیں۔
مریم نے کہا کہ دوران حراست، سماعت اور سزایابی میں مروجہ قانونی عمل کی خلاف ورزیوں کے باوجود اگر علی کو سزائے موت دے دی گئی تو یہ انتہائی افسوس ناک اور غیر قانونی ہوگا۔
یہ خبر 26 جولائی 2016 کے ڈان اخبار میں شائع ہوئی
تبصرے (2) بند ہیں