اسلام آباد: پاکستان کے 3 صوبوں سندھ، بلوچستان اور خیبر پختونخوا نے قدرتی گیس کی تقسیم کے فارمولے میں مجوزہ تبدیلی کی مخالفت کرتے ہوئے الزام عائد کیا ہے کہ نیا فارمولا پنجاب کے گھریلو صارفین کو تو فائدہ پہنچائے گا لیکن اس سے دیگر صوبوں میں صنعتی اور کمرشل صارفین متاثر ہوں گے۔

وفاقی وزیر برائے پیٹرولیم اور قدرتی وسائل شاہد خاقان عباسی کی زیر صدارت ہونے والے اجلاس میں تینوں صوبوں نے موقف اپنایا کہ جو گیس وہ پیدا کرتے ہیں اس پر کنٹرول رکھنا ان کا آئینی حق ہے اور وفاق اس کی خلاف ورزی کررہا ہے۔

وفاقی وزیر نے مشترکہ مفادات کونسل سے مجوزہ تبدیلی کی منظوری لینے سے قبل اس اجلاس کا انعقاد اس لیے کیا تھا تاکہ دیگر صوبوں کو بھی اس پر اعتماد میں لیا جاسکے۔

اجلاس میں وفاقی وزیر برائے بین الصوبائی ہم آہنگی ریاض حسین پیرزادہ، وزیراعلیٰ بلوچستان ثناء اللہ زہری اور سندھ اور خیبر پختونخوا حکومت کے نمائندوں نے شرکت کی۔

وزارت پٹرولیم کے ایک ترجمان سے جب رابطہ کیا گیا تو انہوں نے بتایا کہ انہیں اجلاس کی تصویر کے علاوہ کسی بھی قسم کی معلومات جاری کرنے سے منع کیا گیا ہے۔

باخبر ذرائع کے مطابق وفاق کی خواہش ہے کہ قدرتی گیس کی تقسیم کے حوالے سے تمام صوبوں میں گھریلو صارفین کو ترجیح دی جائے تاکہ سردیوں میں ہونے والی گیس کی قلت پر قابو پایا جاسکے۔

گیس کی تقسیم کا موجودہ نظام آئین کے آرٹیکل 158 پر مبنی ہے جو یہ اختیار دیتا ہے کہ جس صوبے میں گیس پیدا ہورہی ہو وہ ہر شعبے کے صارفین کو گیس فراہم کرسکتا ہے۔

ذرائع کے مطابق شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ پاکستان وفاقی مملکت ہے اور قدرتی گیس اس کے ہر شہری کو فراہم کی جانی چاہیے۔

ذرائع نے بتایا کہ چھوٹے صوبوں نے وفاق پر گیس کے استعمال کے حوالے سے ان کے آئینی حقوق کی خلاف ورزی کا الزام عائد کیا، مثال کے طور پر خیبر پختونخوا وفاق پر تنقید کرتا رہا ہے کہ وفاق یومیہ 10 کروڑ کیوبک فٹ گیس استعمال کرنے سے روکنے کی کوشش کرتا ہے۔

وزارت پٹرولیم نے یہ تجویز بھی پیش کی ہے کہ مقامی سطح پر پیدا ہونے والی گیس سے گھریلو صارفین کی ضروریات پوری ہونے کے بعد اضافی گیس کی تقسیم کا صوابدیدی اختیار صوبوں کو دے دینا چاہیے۔

یہ تجویز بھی پیش کی گئی کہ مائع قدرتی گیس (ایل این جی) جس کی مقدار وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتی جائے گی، اسے بھی صوبوں کے ساتھ بانٹا جاسکتا ہے تاکہ ان کی کمرشل، انڈسٹریل اور سی این جی کی ضروریات پوری ہوسکیں۔

اجلاس میں شریک دیگر 3 صوبوں نے یہی موقف اختیار کیا کہ وہ کسی بھی صورت میں آئین کے آرٹیکل 158 کے تحت حاصل حقوق سے دستبردار نہیں ہوں گے۔

ان صوبوں کا خیال ہے کہ گیس کی تقسیم میں تبدیلی صرف پنجاب کے صارفین کو فائدہ پہنچانے کے لیے کی جارہی ہے۔

ملک میں پیدا ہونے والی مجموعی قدرتی گیس میں سب سے زیادہ 68 فیصد حصہ سندھ کا ہے جبکہ بلوچستان کا 15 فیصد، پنجاب کا 5 فیصد اور خیبر پختونخوا کا 12 فیصد ہے۔

تاہم پنجاب سب سے زیادہ 45 فیصد، سندھ 42 فیصد، خیبر پختونخوا 7 فیصد اور بلوچستان صرف 6 فیصد گیس استعمال کرتا ہے۔

وزارت پٹرولیم کا موقف ہے کہ مشترکہ مفادات کمیٹی کو چاہیے کہ وہ نئے انتظامات کو اپنائے تاکہ تمام گھریلو صارفین کو گیس کی فراہمی یقینی بنائی جاسکے اور ساتھ ہی گیس کی قلت، جو اب ہر صوبے کا مسئلہ بن چکا ہے، کا مستقل حل نکالا جاسکے۔

موجودہ نظام کے تحت صوبائی حکومت گیس کے نئے ذخائر سے نکلنے والی گیس صوبائی حدود کے اندر موجود صنعتی، کمرشل اور سی این جی سیکٹرز کو فراہم کرسکتی ہے چاہے دوسرے صوبے میں گیس کی شدید قلت ہی کیوں نہ ہو۔

واضح رہے کہ وزارت پٹرولیم اور سندھ حکومت کے درمیان سی این جی اسٹیشنز کو گیس کی فراہمی کے حوالے سے اختلافات ہیں، بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں سی این جی صارفین کو لوڈ شیڈںگ کا سامنا بھی نہیں کرنا پڑتا۔

یہ خبر 26 جولائی 2016 کے ڈان اخبار میں شائع ہوئی


تبصرے (1) بند ہیں

Israr Jul 27, 2016 12:38am
گیس و بجلی ودیگر قدرتی وسائل کی تقسیم آئینی طریقے سے طے ھونے چاہئے صوبوں کا جو حق بنتا ھے وفاق اس میں مداخلت نہ کریں پختون خوا کو اگر گیس کی پوری پیداوار اجازت دی جائے تو وہاں گیس کی لوڈشیڈنگ کی ضرورت ہی نہیں ھوگی یہاں پر بجلی کی پیدوار کی بات کرنی چاہئے مثال کے طور پر صوبہ پختون خوا میں کم از کم 6 ہزار میگاواٹ بجلی پیدا ھوتی ھے صوبے کی اپنی ضرورت بمعہ قبائیلی علاقے اس وقت صرف 14 سو سے 15 سو میگاواٹ ھے جسکا سیدھا مطلب یہ ھے کہ صوبے میں ضرورت سے بجلی پیدا ھوتی ھے اسلئے پختون خوا میں بجلی کی لوڈشیڈنگ ناجائز اور غیر آئینی ھے کیونکہ صوبے میں بجلی کی کوئی کمی نہیں لیکن اس کے باوجود یہاں لوڈشیڈنگ کی جاتی ھے وفاق کو آئینی دائرے سے باہر نہیں نکلنا چاہئے بصورت دیگر نفرتیں بڑھینگی اور فیڈریشن کو نقصان ھوگا