مفتی صاحب، یہ کیا بات ہوئی؟
یہ اس بلاگ کا پہلا حصّہ ہے
جنرل ایوب کے دور حکومت کے دوران مودودی صاحب نے ایک کتاب لکھی جس میں شامل مضامین، وہ پہلے اپنے مجلے ترجمان القرآن میں چھاپ چکے تھے۔ اس کتاب کا نام ’خلافت و ملوکیت‘ تھا اور اس کتاب میں اسلام کے ابتدائی دور کو خلافت راشدہ اور اس کے بعد کے ادوار میں تقسیم کیا گیا تھا۔
اس بحث سے قطع نظر کہ اس کتاب میں غیر جانبداری سے کام لیا گیا ہے یا نہیں، مودودی صاحب نے تاریخ کا علم کسی مکتب سے حاصل نہیں کیا تھا اور ناقدین کی رائے میں اس کتاب کو حضرت نے اپنے ذہن میں پہلے سے قائم کردہ نظریے (Pre-Conceived Notion) کی بنیاد پر تحریر کیا تھا۔
اس طرز کی علمی بددیانتی، آج کے دور میں مودودی صاحب کے پیروکار اوریا مقبول جان، ہارون رشید، جاوید چوہدری، انصار عباسی وغیرہ گاہے بہ گاہے کرتے رہتے ہیں۔ جان کی امان پاؤں تو عرض کروں کہ مذہب اور تاریخ کے مضامین دریا کے ان دو کناروں کی مانند ہیں جن کا ملاپ مشکل ہی نہیں ناممکن بھی ہے۔
جب کبھی اس ملاپ کی کوشش کی جاتی ہے، نقصان ہمیشہ تاریخ کو ہی اٹھانا پڑتا ہے۔ اس حقیقت کو مودودی صاحب جیسے صاحب علم تو نہ سمجھ سکے لیکن قرون اولی کے مسلمان مورخین نے یہ راز پا لیا تھا۔
کیا یہ عجیب بات نہیں کہ مسلمان مورخین نے اپنی کتابوں کے نام ’مسلمانوں کی تاریخ یا اسلام کی تاریخ‘ نہیں رکھے بلکہ علامہ ابن جریر طبری کی کتاب کا نام ’قوموں اور بادشاہوں کی تاریخ‘، بلازری کی کتاب کا نام ’ملکوں کی فتوحات‘، ابن کثیر کی کتاب کا نام ’مکمل تاریخ‘ جبکہ ابن خلدون کی کتاب کا نام ’عرب و عجم و بربر کے حالات‘ ہے۔
تاریخ دان حسن جعفر زیدی اپنے مضمون ’ہماری تاریخ فہمی‘ میں لکھتے ہیں کہ؛ ”اسلامی احیاء پسندوں نے تاریخ نویسی کا ایک نیا ڈھنگ اختیار کیا جو ماضی کے مورخین سے قطعی مختلف تھا۔ انیسویں اور بیسویں صدی میں ملّاؤں نے تاریخ پر ملمع کاری کی اور اسے مذہبی لٹریچر بنا دیا۔‘‘
چند روز قبل اس سلسلے کی ایک تازہ مثال واہ فیکٹری میں مفتی رفیع عثمانی کی گل فشانی ہے جو ایک معروف اردو اخبار میں شائع ہوئی۔ مفتی صاحب فقہ، حدیث اور تفسیر کے ماہر ہیں اور ان علوم میں ان کی مہارت پر ہمیں کسی قسم کا اعتراض نہیں ہو سکتا۔
اہل علم کا شیوہ عام طور پر یہ ہوتا ہے کہ جس کا کام اسی کو ساجھے، اور کرے تو ٹھینگا باجے۔ مفتی صاحب نے اپنی تقریر میں مذہب اور تاریخ کے ملاپ کے ذریعے پاکستانی تاریخ کو جس طور مسخ کرنے کی کوشش کی ہے، وہ قابل مذمت ہے۔
مضمون کے آغاز میں ہی مفتی صاحب نے ’پاکستان کا مطلب کیا‘ والے نعرے کا ذکر کیا اور فرمایا کہ پاکستان کا نظریہ بھی ان نعروں سے اخذ کیا جا سکتا ہے۔
مسلم لیگ کی مرکزی کونسل کے ممبر، ملک غلام نبی کی کتاب ’داغوں کی بارات‘ کے مطابق جناح صاحب نے مرکزی اجلاس کے دوران یہ نعرہ لگانے سے منع کیا تھا اور فرمایا تھا کہ اس قسم کی کوئی بات میں نے، یا میری ورکنگ کمیٹی یا مسلم لیگ کی مرکزی کونسل نے نہیں کہی، تم لوگوں نے چند ووٹ لینے کے لیے یہ نعرہ گھڑ لیا۔ اس دعوے کی تصدیق امریکی پروفیسر کی کتاب (Empire and Islam ) میں بھی کی گئی ہے۔
مفتی صاحب مزید فرماتے ہیں؛
’پاکستان بنتے ہی ہندوستان میں دہلی، بہار اور دیگر شہروں میں مسلمانوں کا قتل عام شروع ہو گیا اور مشرقی پنجاب میں تو مسلمانوں کا قتل عام سب سے زیادہ ہوا۔‘
بظاہر اس بات میں کوئی تاریخی غلطی نہیں اور واقعی بڑی تعداد میں مسلمانوں کو ان کی مذہبی شناخت کے باعث قتل کیا گیا۔
مسئلہ یہ ہے کہ یہ کہانی ہم بچپن سے سنتے آ رہے ہیں اور ہماری نصابی کتب کے علاوہ یہی موقف اردو کالم نویس بھی اختیار کرتے آئے ہیں، لیکن وہ کہاوت کہ ہر سکے کے دو رخ ہوتے ہیں، اس کا کیا کیا جائے؟
کیا تقسیم کے دوران صرف مسلمانوں کو ہی قتل و غارت کا نشانہ بنایا گیا؟
تقسیم سے ایک سال قبل 'ڈائریکٹ ایکشن ڈے' جناح صاحب کے اعلان پر منایا گیا اور اس موقعے پر فسادات مسلم لیگیوں کی جانب سے شروع کیے گئے۔
امریکی ہفت روزہ ٹائم کی 22 اگست 1946ء کی رپورٹ کے مطابق؛
’کلکتہ کی گلیاں لاشوں سے اٹ چکی تھیں۔ نالیاں انسانی لہو اور انسانوں کے کٹے پھٹے اعضا سے بند ہو چکی تھیں۔ دریائے ہگلی میں پھولی ہوئی لاشیں تیر رہی تھیں۔ ہاتھ گاڑی کھینچنے والے غریب گاڑی بانوں کی لاشیں ان کے تانگوں پر آڑی ترچھی پڑی تھیں۔ جن عورتوں کے ساتھ زیادتی کی گئی تھی ان کی ادھ جلی لاشوں سے دھواں اٹھ رہا تھا۔‘
ابتدائی مار دھاڑ کے بعد فسادات کا سلسلہ دوطرفہ ہو گیا۔ اب مرنے والوں میں ہندو مسلم کی تمیز نہ رہی۔
اس واقعے کے دو ماہ بعد نواکھالی کے علاقے میں ہندوؤں کے خون کی ہولی کھیلی گئی- مارچ 1947 میں شمالی پنجاب میں ہزاروں سکھوں اور ہندوؤں کو قتل کیا گیا اور قتل و غارت کے اس جنون میں تقسیم کے بعد اضافہ ہوا جس میں مسلموں اور غیر مسلموں نے برابر حصہ لیا۔
غیر مسلم لڑکیوں نے بھی کنوؤں میں چھلانگیں لگائیں، ان کے بھی بھائیوں، باپوں، بیٹوں اور خاوندوں کو ان کی آنکھوں کے سامنے قتل کیا گیا۔ خطہ پوٹھوہار کے کنوئیں، سکھ بچیوں کی لاشوں سے اٹ گئے۔ صرف کہوٹہ گاؤں میں 2000 سکھ زندہ جلائے گئے۔
کچھ روز قبل پنجاب کے ایک گاؤں میں عیسائی خواتین کو تشدد کے بعد برہنہ حالت میں سارے گاؤں کے سامنے چلنے پر مجبور کیا گیا، تو یہ کوئی انوکھا واقعہ نہیں بلکہ تقسیم کے بعد لاہور میں بیگم شاہ نواز کی زیر نگرانی ایم اے او کالج کے باہر غیر مسلم لڑکیوں کا برہنہ جلوس نکالا گیا تھا۔
ان سب واقعات کا ذکر نہ تو مفتی صاحب کرتے ہیں، نہ ہی ہمارے غیرت مند اردو کالم نگاروں کو یہ ہمت پڑتی ہے۔
مفتی صاحب اپنے مضمون میں مزید لکھتے ہیں کہ؛
’1965 کا جہاد ہماری تاریخ کا بہت اہم حصہ ہے، ایک پڑوسی طاقت یعنی بھارت پاکستان کے اوپر اچانک راتوں رات حملہ آور ہوئی تھی‘۔
یہاں دانستہ یا غیر دانستہ طور پر ایک اور علمی بد دیانتی کا ارتکاب کیا گیا ہے۔
پہلی بات تو یہ کہ ہندوستان ہمارا اذلی دشمن سہی، لیکن اس بات کا اعتراف ہمیں کرنا پڑے گا کہ آج تک ہندوستانی افواج نے کبھی پاکستان پر حملے میں پہل نہیں کی؛
1948 میں قبائلی لشکر پاکستان کی جانب سے بھیجے گئے،
1965 میں آپریشن جبرالٹر اور رن کچھ میں مداخلت پاکستان کی طرف سے کی گئی،
1971 میں مشرقی پاکستان کی حفاظت کے چکر میں مغربی محاذ کھولا گیا،
1999 میں کارگل کی چوٹیوں پر مجاہدین کے بہروپ میں پاکستانی فوجی بھی ہم نے ہی بھیجے۔
ان تمام جنگوں میں ہمارے جری جوانوں کو شکست کا سامنا کرنا پڑا۔
1948 میں قبائلی شاہینوں کا لشکر لوٹ مار میں مبتلا ہو گیا اور اس دوران ہندوستانی فوج کشمیر میں داخل ہو گئی.
1965 میں ہمارے پاس بارود ختم ہو چکا تھا اور اگر جنگ بندی نہ ہوتی تو ملک کو ناقابل تلافی نقصان پہنچ سکتا تھا-
معرکہء کارگل میں بھی اگر وزیر اعظم کو امریکہ نہ بھیجا جاتا تو حالات مزید خراب ہو سکتے تھے۔
ان حقائق کی موجودگی میں اگر آپ کو ’دشمن نے رات کے اندھیرے میں حملہ کر دیا‘ جیسی بکواس پر یقین کرنا ہے تو ضرور کریں.
جاری ہے...
حوالہ جات:
- پاکستانی فوج کی جنگوں میں کارکردگی کے لیے دیکھیے؛ A History of the Pakistan Army by Brian Cloughley- پاکستان کے جوہری ہتھیاروں کی کہانی کے لیے دیکھیں؛ Nuclear Deception: The Dangerous Relationship Between the United States and Pakistan by Adrian Levy and Catherine Scott-Clark
- پاکستان میں فرقہ واریت کی تاریخ کے لیے دیکھیں؛ Sectarian War: Pakistan's Sunni-Shia Violence and its links to the Middle East by Khaled Ahmed
عبدالمجید کا تعلق سیالکوٹ سے ہے اور انہیں تاریخ، سیاست اور معاشیات کے مضامین میں دلچسپی ہے۔












لائیو ٹی وی
تبصرے (8) بند ہیں