• KHI: Partly Cloudy 27.2°C
  • LHR: Cloudy 19.3°C
  • ISB: Rain 14.8°C
  • KHI: Partly Cloudy 27.2°C
  • LHR: Cloudy 19.3°C
  • ISB: Rain 14.8°C

مفتی صاحب، یہ کیا بات ہوئی؟

شائع June 26, 2013

السٹریشن -- خدا بخش ابڑو --.
السٹریشن -- خدا بخش ابڑو --.

یہ اس بلاگ کا پہلا حصّہ ہے


جنرل ایوب کے دور حکومت کے دوران مودودی صاحب نے ایک کتاب لکھی جس میں شامل مضامین، وہ پہلے اپنے مجلے ترجمان القرآن میں چھاپ چکے تھے۔ اس کتاب کا نام ’خلافت و ملوکیت‘ تھا اور اس کتاب میں اسلام کے ابتدائی دور کو خلافت راشدہ اور اس کے بعد کے ادوار میں تقسیم کیا گیا تھا۔

اس بحث سے قطع نظر کہ اس کتاب میں غیر جانبداری سے کام لیا گیا ہے یا نہیں، مودودی صاحب نے تاریخ کا علم کسی مکتب سے حاصل نہیں کیا تھا اور ناقدین کی رائے میں اس کتاب کو حضرت نے اپنے ذہن میں پہلے سے قائم کردہ نظریے (Pre-Conceived Notion) کی بنیاد پر تحریر کیا تھا۔

اس طرز کی علمی بددیانتی، آج کے دور میں مودودی صاحب کے پیروکار اوریا مقبول جان، ہارون رشید، جاوید چوہدری، انصار عباسی وغیرہ گاہے بہ گاہے کرتے رہتے ہیں۔ جان کی امان پاؤں تو عرض کروں کہ مذہب اور تاریخ کے مضامین دریا کے ان دو کناروں کی مانند ہیں جن کا ملاپ مشکل ہی نہیں ناممکن بھی ہے۔

جب کبھی اس ملاپ کی کوشش کی جاتی ہے، نقصان ہمیشہ تاریخ کو ہی اٹھانا پڑتا ہے۔ اس حقیقت کو مودودی صاحب جیسے صاحب علم تو نہ سمجھ سکے لیکن قرون اولی کے مسلمان مورخین نے یہ راز پا لیا تھا۔

کیا یہ عجیب بات نہیں کہ مسلمان مورخین نے اپنی کتابوں کے نام ’مسلمانوں کی تاریخ یا اسلام کی تاریخ‘ نہیں رکھے بلکہ علامہ ابن جریر طبری کی کتاب کا نام ’قوموں اور بادشاہوں کی تاریخ‘، بلازری کی کتاب کا نام ’ملکوں کی فتوحات‘، ابن کثیر کی کتاب کا نام ’مکمل تاریخ‘ جبکہ ابن خلدون کی کتاب کا نام ’عرب و عجم و بربر کے حالات‘ ہے۔

تاریخ دان حسن جعفر زیدی اپنے مضمون ’ہماری تاریخ فہمی‘ میں لکھتے ہیں کہ؛ ”اسلامی احیاء پسندوں نے تاریخ نویسی کا ایک نیا ڈھنگ اختیار کیا جو ماضی کے مورخین سے قطعی مختلف تھا۔ انیسویں اور بیسویں صدی میں ملّاؤں نے تاریخ پر ملمع کاری کی اور اسے مذہبی لٹریچر بنا دیا۔‘‘

چند روز قبل اس سلسلے کی ایک تازہ مثال واہ فیکٹری میں مفتی رفیع عثمانی کی گل فشانی ہے جو ایک معروف اردو اخبار میں شائع ہوئی۔ مفتی صاحب فقہ، حدیث اور تفسیر کے ماہر ہیں اور ان علوم میں ان کی مہارت پر ہمیں کسی قسم کا اعتراض نہیں ہو سکتا۔

اہل علم کا شیوہ عام طور پر یہ ہوتا ہے کہ جس کا کام اسی کو ساجھے، اور کرے تو ٹھینگا باجے۔ مفتی صاحب نے اپنی تقریر میں مذہب اور تاریخ کے ملاپ کے ذریعے پاکستانی تاریخ کو جس طور مسخ کرنے کی کوشش کی ہے، وہ قابل مذمت ہے۔

مضمون کے آغاز میں ہی مفتی صاحب نے ’پاکستان کا مطلب کیا‘ والے نعرے کا ذکر کیا اور فرمایا کہ پاکستان کا نظریہ بھی ان نعروں سے اخذ کیا جا سکتا ہے۔

مسلم لیگ کی مرکزی کونسل کے ممبر، ملک غلام نبی کی کتاب ’داغوں کی بارات‘ کے مطابق جناح صاحب نے مرکزی اجلاس کے دوران یہ نعرہ لگانے سے منع کیا تھا اور فرمایا تھا کہ اس قسم کی کوئی بات میں نے، یا میری ورکنگ کمیٹی یا مسلم لیگ کی مرکزی کونسل نے نہیں کہی، تم لوگوں نے چند ووٹ لینے کے لیے یہ نعرہ گھڑ لیا۔ اس دعوے کی تصدیق امریکی پروفیسر کی کتاب (Empire and Islam ) میں بھی کی گئی ہے۔

مفتی صاحب مزید فرماتے ہیں؛

’پاکستان بنتے ہی ہندوستان میں دہلی، بہار اور دیگر شہروں میں مسلمانوں کا قتل عام شروع ہو گیا اور مشرقی پنجاب میں تو مسلمانوں کا قتل عام سب سے زیادہ ہوا۔‘

بظاہر اس بات میں کوئی تاریخی غلطی نہیں اور واقعی بڑی تعداد میں مسلمانوں کو ان کی مذہبی شناخت کے باعث قتل کیا گیا۔

مسئلہ یہ ہے کہ یہ کہانی ہم بچپن سے سنتے آ رہے ہیں اور ہماری نصابی کتب کے علاوہ یہی موقف اردو کالم نویس بھی اختیار کرتے آئے ہیں، لیکن وہ کہاوت کہ ہر سکے کے دو رخ ہوتے ہیں، اس کا کیا کیا جائے؟

کیا تقسیم کے دوران صرف مسلمانوں کو ہی قتل و غارت کا نشانہ بنایا گیا؟

تقسیم سے ایک سال قبل 'ڈائریکٹ ایکشن ڈے' جناح صاحب کے اعلان پر منایا گیا اور اس موقعے پر فسادات مسلم لیگیوں کی جانب سے شروع کیے گئے۔

امریکی ہفت روزہ ٹائم کی 22 اگست 1946ء کی رپورٹ کے مطابق؛

’کلکتہ کی گلیاں لاشوں سے اٹ چکی تھیں۔ نالیاں انسانی لہو اور انسانوں کے کٹے پھٹے اعضا سے بند ہو چکی تھیں۔ دریائے ہگلی میں پھولی ہوئی لاشیں تیر رہی تھیں۔ ہاتھ گاڑی کھینچنے والے غریب گاڑی بانوں کی لاشیں ان کے تانگوں پر آڑی ترچھی پڑی تھیں۔ جن عورتوں کے ساتھ زیادتی کی گئی تھی ان کی ادھ جلی لاشوں سے دھواں اٹھ رہا تھا۔‘

ابتدائی مار دھاڑ کے بعد فسادات کا سلسلہ دوطرفہ ہو گیا۔ اب مرنے والوں میں ہندو مسلم کی تمیز نہ رہی۔

اس واقعے کے دو ماہ بعد نواکھالی کے علاقے میں ہندوؤں کے خون کی ہولی کھیلی گئی- مارچ 1947 میں شمالی پنجاب میں ہزاروں سکھوں اور ہندوؤں کو قتل کیا گیا اور قتل و غارت کے اس جنون میں تقسیم کے بعد اضافہ ہوا جس میں مسلموں اور غیر مسلموں نے برابر حصہ لیا۔

غیر مسلم لڑکیوں نے بھی کنوؤں میں چھلانگیں لگائیں، ان کے بھی بھائیوں، باپوں، بیٹوں اور خاوندوں کو ان کی آنکھوں کے سامنے قتل کیا گیا۔ خطہ پوٹھوہار کے کنوئیں، سکھ بچیوں کی لاشوں سے اٹ گئے۔ صرف کہوٹہ گاؤں میں 2000 سکھ زندہ جلائے گئے۔

کچھ روز قبل پنجاب کے ایک گاؤں میں عیسائی خواتین کو تشدد کے بعد برہنہ حالت میں سارے گاؤں کے سامنے چلنے پر مجبور کیا گیا، تو یہ کوئی انوکھا واقعہ نہیں بلکہ تقسیم کے بعد لاہور میں بیگم شاہ نواز کی زیر نگرانی ایم اے او کالج کے باہر غیر مسلم لڑکیوں کا برہنہ جلوس نکالا گیا تھا۔

ان سب واقعات کا ذکر نہ تو مفتی صاحب کرتے ہیں، نہ ہی ہمارے غیرت مند اردو کالم نگاروں کو یہ ہمت پڑتی ہے۔

مفتی صاحب اپنے مضمون میں مزید لکھتے ہیں کہ؛

’1965 کا جہاد ہماری تاریخ کا بہت اہم حصہ ہے، ایک پڑوسی طاقت یعنی بھارت پاکستان کے اوپر اچانک راتوں رات حملہ آور ہوئی تھی‘۔

یہاں دانستہ یا غیر دانستہ طور پر ایک اور علمی بد دیانتی کا ارتکاب کیا گیا ہے۔

پہلی بات تو یہ کہ ہندوستان ہمارا اذلی دشمن سہی، لیکن اس بات کا اعتراف ہمیں کرنا پڑے گا کہ آج تک ہندوستانی افواج نے کبھی پاکستان پر حملے میں پہل نہیں کی؛

1948 میں قبائلی لشکر پاکستان کی جانب سے بھیجے گئے،

1965 میں آپریشن جبرالٹر اور رن کچھ میں مداخلت پاکستان کی طرف سے کی گئی،

1971 میں مشرقی پاکستان کی حفاظت کے چکر میں مغربی محاذ کھولا گیا،

1999 میں کارگل کی چوٹیوں پر مجاہدین کے بہروپ میں پاکستانی فوجی بھی ہم نے ہی بھیجے۔

ان تمام جنگوں میں ہمارے جری جوانوں کو شکست کا سامنا کرنا پڑا۔

1948 میں قبائلی شاہینوں کا لشکر لوٹ مار میں مبتلا ہو گیا اور اس دوران ہندوستانی فوج کشمیر میں داخل ہو گئی.

1965 میں ہمارے پاس بارود ختم ہو چکا تھا اور اگر جنگ بندی نہ ہوتی تو ملک کو ناقابل تلافی نقصان پہنچ سکتا تھا-

معرکہء کارگل میں بھی اگر وزیر اعظم کو امریکہ نہ بھیجا جاتا تو حالات مزید خراب ہو سکتے تھے۔

ان حقائق کی موجودگی میں اگر آپ کو ’دشمن نے رات کے اندھیرے میں حملہ کر دیا‘ جیسی بکواس پر یقین کرنا ہے تو ضرور کریں.

جاری ہے...


حوالہ جات:

- پاکستانی فوج کی جنگوں میں کارکردگی کے لیے دیکھیے؛ A History of the Pakistan Army by Brian Cloughley

- پاکستان کے جوہری ہتھیاروں کی کہانی کے لیے دیکھیں؛ Nuclear Deception: The Dangerous Relationship Between the United States and Pakistan by Adrian Levy and Catherine Scott-Clark

- پاکستان میں فرقہ واریت کی تاریخ کے لیے دیکھیں؛ Sectarian War: Pakistan's Sunni-Shia Violence and its links to the Middle East by Khaled Ahmed


majeed abid 80 عبدالمجید کا تعلق سیالکوٹ سے ہے اور انہیں تاریخ، سیاست اور معاشیات کے مضامین میں دلچسپی ہے۔

عبدالمجید عابد

لکھاری میڈیکل کے طالب علم ہیں اس کے ساتھ تاریخ، سیاسی معیشت اور ادب میں دلچسپی رکھتے ہیں۔
ان کے بلاگز یہاں پڑھیں۔

انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں: abdulmajeedabid@

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تبصرے (8) بند ہیں

Khurram Baqa Jun 27, 2013 03:05am
عبدالمجید عابد آپ نے مولانا مودودی کو تو تنقید کا نشانہ بنایا کہ ان کی تحریر پہلے سے قائم شدہ نظریے سے لکھی گئی ہے لیکن آپ کی تحریر پڑھ کے بھی یہی احساس ہوتا ہے کہ آپ نے ایک نظریہ بنایا اور اس کے ارد گرد اپنے دلائل کی دیوار کھڑی کر دی۔ سوال صرف یہ نہیں کہ کیا تقسیم کے دوران مسلمانوں کو نشانہ بنایا گیا، یہ تو ایک ضمنی سوال ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا آپ کو ہندو مسلم فساد کی تاریخ نہیں پتا؟ جن علاقوں میں ہندو اکثریت تھی وہاں تقسیم سے بہت پہلے ہی مسلمانوں کی نسل کشی کی جاتی رہی ہے۔(اور آج بھی یہ سلسلہ جاری ہے)۔ بنگال کا لٹریچر پڑھ لیں اس میں مسلمان کو جارح اور انگریز کو نجات دھندہ دکھایا گیا ہے۔ شدھی تحریک بھی شاید مسلمانوں کے ذہن کی اختراع تھی۔ تقسیم کے وقت تو صرف یہ ہوا کہ جس کا جہاں ذور چلا اس نے قتل و غارت میں برابر کا حصہ لیا۔ چاہے مسلمان ہو، ہندو ہو یا سکھ۔ جناح کے ‘ڈائریکٹ ایکشن ڈے‘ کے ساتھ اگر آپ 1935 کے الیکشن کے بعد کے ہندو راج کا بھی ذکر کر دیتے تو قاری کو ایک متوازن تحریر پڑھنے کو ملتی۔ ہندوستان نے پاکستان کے حصے کا پیسہ اور اسلحہ دبایا یہ بھی غالبآ آپ کی تحریر کے قائم کردہ نظریے کے خلاف تھا اس لیے اس کا ذکر بھی گول کر دیا۔آپ پاکستان کو ہمیشہ جارح قرار دینے کی جلدی میں ریاست حیدر آباد و جوناگڑھ کا ذکر کرنا بھی بھول گئے۔ 1948 میں کشمیر کا ذکر کرتے ہوئے آپ نے یہ بھی نہیں بتایا کہ جتنا کشمیر ہمارے پاس ہے وہ ان قبائلی پٹھانوں کی وجہ سے ہے۔ تصیح کے لیے ایک بات اور کرتا چلوں کہ پٹھانوں کا واسطہ ایک فوج سے تھا کسی بادشاہ کے لشکر سے نہیں کہ غنیم کے بھاگنے کے بعد سب زروجواہرلوٹنے میں لگ گئے۔ اگر آپ قائم شدہ نظریے کے بغیر تحریر لکھتے تو آپ یہ بھی تحریر کرتے کہ محاذ کے دوران کمانڈنگ آفیسر تبدیل کرنا اتنی بڑی غلطی تھی کہ جس کا خمیازہ ہم آج تک کشمیر کی تقسیم کی شکل میں بھگت رہے ہیں۔ (نہ کہ قبائلی پٹھانوں کی لوٹ مار کی وجہ سے) 1965 میں ہمارے پاس گولہ بارود ختم تھا، ہماری جری افواج شکست کھا رہی تھیں(گولہ بارود نہیں تو جنگ کیسے کریں گے ) لیکن اقوام متحدہ میں جنگ بندی کے لیے انڈیا دوڑا جاتا ہے۔ عبدالمجید صاحب، یہ کیا بات ہوئی؟ مجھے بڑی خوشی ہوتی کہ اگر آپ مشرقی پاکستان کا ذکر کرتے ہوئے،بین السطور ہی سہی، سقوط ڈھاکہ میں ہندوستان کا کردارہی بتا دیتے۔ معذرت کے ساتھ، آپ کی یہ دلیل کہ مغربی محاذ پاکستان نے کھولا کچھ بودی لگی کیوں کہ مشرقی پاکستان بھی اس وقت پاکستان کا حصہ تھا، جب وہاں پر جنگ جاری ہے تو پھر کوئی بھی محاذ کھولا جا سکتا ہے۔ مثلآ اگر آج انڈیا کراچی میں بحری حملہ کر دیتا ہے اور اس کے جواب میں پاکستان لاہوز کا محاذ کھولتا ہے تو تو آپ کی شرح کے مطابق پاکستان جارح ہے۔ کارگل کے ساتھ اگر سیاچین کو بھی نتھی کر دیتے تو قاری کو محل وقوع بھی سمجھ آجاتا اور کارگل جنگ کی وجہ بھی۔ رہے میاں صاحب، تو وہ بیچارے تو ہر چیز پر امریکہ دوڑتے تھے۔ چاہے بم دھماکہ ہو یا کارگل۔
ایم اے بھٹی Jun 28, 2013 10:57am
جناب مجھے آپ کے سید مودودی کے گھڑ کر خلافیت و ملوکیت لکھنے پر شدید اعتراض ہے۔ وہ اس لیے کہ میں نے اس کتاب کو کافی مرتبہ پڑھا اور پھر تاریخ سے تصدیق کی ہے۔ ویسے اگر آپ ان تمام تاریخوں کو اسلام سے نکال دیں تو فرقوں کی بنیادیں دھڑام سے آ گریں گی اور باقی صرف قران رہ جائے گا۔ اور اس کی تشریحات جیسے جیسے ہوں گی اور ہور ہی ہیں اس سے اللہ کی پناہ۔
ایم اے بھٹی Jun 28, 2013 11:00am
ویسے معرکہ کارگل کے بارے میں بھی یہ مفروضہ ہے۔ گارڈین میں جھپنے والی ایک رپورٹ کے مطابق، ایک انڈین جرنیل کا کہتا تھا کہ ہماری جنگ پاکستان سے نہیں بلکہ ہم موسم سے دوڑ لگا رہے ہیں اور جولائی کا مہینہ گزر گیا توہم یہ چوٹیاں کبھی بھی خالی نہیں کرواسکتے ۔ ویسے یہ حقیقت بھی ہے۔
Muhammad Murad Jun 30, 2013 05:08am
Excellent Response Khurram Baqa sahab
Shahid Abdullah Jul 01, 2013 12:11pm
Raise your argument, not your voice but i think you got it the other way. I may or may not agree but you could have chosen your words carefully. After all he is a prominent figure but that does't make him untouchable.
مفتی صاحب، یہ کیا بات ہوئی؟ – 2 | Dawn Urdu Jul 03, 2013 05:02am
[…] یہ اس بلاگ کا دوسرا حصّہ ہے، پہلے حصّے کے لیۓ یہاں کلک کریں  […]
Salman Ahmed Jul 03, 2013 09:01am
Religion has always been distorted by the clergy. look at Christianity now West have to bury it in St. Peters-burg. Same is true when Islam is used for one's own vested interests and for the purpose to maintain hegemony we have seen the end result. It is no point sticking on policies on the basis of faith rather than civic values based on ethics. Our children must be taught true history not only Islamic history. Islamic history is just a branch of world history which in fact create rational thinking. If we stick with Islamic history with the idea of making good Muslims we are surely making a blunder. True history has a mirror effect that shows direction in future from the past.
Khurram Baqa Jul 03, 2013 11:09am
I am agreed with your point that the Religion has always been distorted by the clergy, however, you can not compare Islam with Christianity on this ground. Islamic civilization (or so called Islamic civilization) had opened the mind of the people and we have seen marvelous advancement in the Muslim society. I Came across an interesting term, "True History", and I wonder, if anything exists in this world.All the histories written (by any civilization) is biased with certain objectives to support a particular point of view. So, unfortunately, we have no True History in this world. Your point is amusing that we should teach our children World history inspite of Islamic history. It is very much like I tell my children about the forefathers of my neighbors, instead of teaching them about mine. Sir, history always left you with some questions and I wonder if it can be used to make good Muslims or is it?

کارٹون

کارٹون : 21 دسمبر 2025
کارٹون : 20 دسمبر 2025