کراچی: پاناما کے بعد اب بہاماس لیکس منظر عام پر آگئے جن میں مزید 150 پاکستانی شہریوں کے نام شامل ہیں جن کی بہاماس میں آفشور کمپنیاں ہیں۔

اس سے قبل مئی میں پاناما پیپرز کی جانب سے International Consortium of Investigative Journalists (آئی سی آئی جے) کی ویب سائٹ پر جاری ہونے والے ڈیٹا میں ایک کروڑ 15 لاکھ دستاویزات شامل تھے اور اس میں درجنوں سابق اور موجودہ سربراہان مملکت، کاروباری شخصیات، مجرموں، مشہور شخصیات اور کھلاڑیوں کی 'آف شور' کمپنیوں کا ریکارڈ موجود تھا۔

اب بہاماس لیکس میں آف شور کمپنیوں کے حوالے سے ڈیٹا آئی سی آئی جے نے اپنے میڈیا پارٹنرز کے ساتھ شیئر کیا ہے جو بنیادی طور پر جرمن اخبار زیتوشے زائتونگ سے حاصل کیے گئے ہیں جو پہلی بار پاناما دستاویز بھی منظر عام پر لایا تھا۔

یہ بھی پڑھیں:شریف خاندان کی 'آف شور' کمپنیوں کا انکشاف

اپنے بیان میں آئی سی آئی جے نے بتایا کہ نئے انکشافات میں زیتوشے زائتونگ اور یورپ، جنوبی امریکا، ایشیا اور افریقا میں نیوز آرگنائزیشنز نے بہاماس میں موجود آفشور کمپنیوں کی تفصیلات جاری کی ہیں۔

بیان میں مزید کہا گیا کہ تفصیلی رپورٹنگ کے علاوہ آئی سی آئی جے، زیتوشے زائتونگ اور دیگر میڈیا پارٹنرز بہاماس کی کارپوریٹ رجسٹری سے معلومات اکھٹی کررہے ہیں جو ہر کسی کے لیے دستیاب ہیں اور اس سے پہلی بار مفت، آئن لائن اور آسانی سے تلاش کیا جانے والا آفشور کمپنیوں کا ڈیٹا بیس تشکیل پایا ہے جو مغرب کے سوئٹزرلینڈ کہلانے والے بہاماس میں قائم ہیں۔

آئی سی آئی جے کے ڈائریکٹر گیرارڈ رائل کا کہنا ہے کہ ’وہ ان معلومات کو منظر عام پر لانا عوام کی خدمت کے مترادف سمجھتے ہیں‘۔

مزید پڑھیں:پاناما لیکس: ایف بی آر کا تحقیقات کا فیصلہ

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’اس بات کے کافی شواہد موجود ہیں کہ آفشور ورلڈ میں راز داری کی وجہ سے لوگوں کو بدعنوانی کا حوصلہ ملتا ہے اور ہم اس راز داری کو ختم کرنا چاہتے ہیں‘۔

بہاماس آف شور کمپنیوں کے حوالے سے مختلف میڈیا ذرائع کے ساتھ شیئر کی جانے والی تفصیلات کے مطابق بہاماس میں 1959 سے 2016 کے درمیان ایک لاکھ 75 ہزار کمپنیاں قائم کی گئیں۔

بہاماس لیکس میں 150 پاکستانی شہریوں کے نام 70 آف شور کمپنیوں کے ڈائریکٹرز کے طور پر سامنے آئے ہیں جن میں سابق وفاقی وزیر محمد ناصر خان کے صاحبزادے جبران خان، جماعت اسلامی کے سابق سینیٹر پروفیسر خورشید احمد کے نام بھی شامل ہیں۔

سینیٹر خورشید احمد کا نام میامی میں رجسٹرڈ ایک بینک میں بطور ڈائریکٹر سامنے آیا ہے۔

عبید الطاف خانانی، ثمینہ درانی اور کراچی سے تعلق رکھنے والے بلڈر محسن شیخانی کی آفشور کمپنیوں کا بھی انکشاف ہوا ہے۔

یہ خبر 22 ستمبر 2016 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی


ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں