ٹرمپ نے ہم سب کو غلط ثابت کر دیا۔ ہم تجزیہ نگار، بلاگر، قلم کار، سیاسی پنڈت باتیں کرتے رہ گئے اور بڑھکیں مارنے والا، گالیاں دینے والا منڈا بازی لے گیا۔

سیاست بہت سے لوگوں کے لیے ایک رومانیت پسند خواب ہے۔ بلند بانگ خیالات، مسجع مقفی گفتگو، نپے تلے انداز ، سفید کاغذ پر سمٹے پیچیدہ نظریات کا تقابل ۔ حقیقت ایک گورکھ دھندہ ہے، ایک مستقل پھیلتا بدلتا الجھاؤ، انسانی ذہن کی طرح پراگندہ اور منتشر۔

سیاست زیادہ تر شفاف ڈرائنگ رومز کا کھیل ہے۔ کارپوریٹ میٹنگ رومز میں چمکتے اعداد و شمار کا جادو ہے، مگر سیاست کبھی کبھی موٹر سائیکل پر بیٹھ کر کمیٹی چوک پہنچ جانا بھی ہے۔ نکڑ پر بیٹھے کم پڑھے لکھے ٹائر والے سے سٹ پنجا بھی ہے۔ عوامی رائے اور سوچ کسی فلسفی کی فکر یا کسی شاعر کی ندرتِ خیال کے تابع نہیں۔ ٹرمپ کی جیت دراصل ایک طمانچہ ہے خام خیالوں کے لیے، لٹمس ٹیسٹ ہم جیسے نام نہاد فلسفیوں کا۔

ہم سب کیوں غلط تھے؟ کیوں وہ نوشتہءِ دیوار نہ پڑھ سکے جو شاید بہت ساروں کو نظر آ گیا تھا؟ ٹرمپ کے جیتنے کی بہت ساری وجوہات ہیں۔ کچھ تو حبِ علی سے زیادہ بغض معاویہ والی بات ہے اور کچھ زمینی حقائق کا طوفان۔ سب سے اہم وجہ وہ بددلی ہے جو ایک عام امریکی کو اس پھیلتے سماج میں محسوس ہو رہی ہے۔

پڑھیے: ’امریکی شہریوں کا ڈونلڈ ٹرمپ کو صدر تسلیم کرنے سے انکار‘

ٹرمپ کا پہلا سپورٹر وہ روایتی ووٹر تھا جو یہ سمجھ رہا تھا کہ امریکی معاشرہ تیزی سے تبدیل ہو رہا ہے اور اس تبدیلی میں اس کی معاشرتی اور سماجی اقدار کو نقصان پہنچے گا۔

یہ بات شاید ہمارے یہاں کے ان بہت سے لوگوں کے لیے حیران کن دھچکا ثابت ہوگی جو پورے امریکا کو ایک مادر پدر آزاد اور بے راہ روی کا شکار معاشرہ تصور کرتے ہیں، حالانکہ ایسا نہیں ہے۔

امریکا اپنے شہریوں کو مذہب پر عمل کرنے یا نہ کرنے کی آزادی ضرور دیتا ہے، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہاں مذہبیت موجود نہیں ہے۔ امریکا میں اب بھی ایسے مذہبی لوگ اکثریت میں ہیں جن کے نزدیک قدامت پسندی ہی فرقہءِ ناجیہ ہے۔

ان لوگوں کے مطابق ہم جنس پرستی، میروانا (بھنگ) اور اسقاط حمل کو قانونی قرار دینا، اسلحے کے حصول کو مشکل بنانا، اسٹیم سیل پر تحقیق، نظریہءِ ارتقاء کا اسکولوں میں پڑھایا جانا وغیرہ جیسے ڈیموکریٹک پارٹی کے اہم اقدامات امریکا کو تباہی کی طرف لے جائیں گے۔

ان امور پر ریپبلیکن پارٹی کا شروع سے اختلاف رہا ہے اور ٹرمپ کے حامیوں کی ایک بڑی تعداد ابھی بھی ان امور پر مخصوص رائے رکھتی ہے۔ اس دال میں مسلمانوں کے انتہا پسند، اور میکسیکن و سیاہ فام امریکیوں کے جرائم پسند ہونے کے الزامات کا تڑکا بھی لگ گیا ہے، سو کریلا اور بھی نیم چڑھا ہو گیا ہے۔

ٹرمپ کا دوسرا حامی وہ عام آدمی ہے جو امریکی نظام سے مایوس ہے۔ 38 فیصد امریکی ایسے شخص کو لانا چاہتے تھے جو تبدیلی لائے۔ 53 فیصد شہری، 43 فیصد نواحی اور 71 فیصد دیہی علاقوں کے لوگوں کو شکایت تھی کہ معیشت غلط سمت میں جا رہی ہے۔

امریکی عوام کی ایک بڑی تعداد یہ سمجھتی ہے کہ طاقتور طبقے ملک کے امور کے نگران ہیں اور عوام کو اپنے مفادات کے لیے کچل رہے ہیں۔ ان کے مطابق میڈیا ان مفادات کا تحفظ کرتا ہے اور سیاست دان ان مفادات کی نگرانی کرتے ہیں۔ ٹرمپ کی کامیابی اور برنی سینڈرز کی مقبولیت کی وجہ یہی ہے کہ وہ ایک فرسودہ نظام سیاست کے خلاف بولے اور اپنے آپ کو ایک ایسے سیاستدان کی صورت میں ظاہر کیا جو اقتصادی، معاشی و سماجی ڈھانچے میں تبدیلی چاہتے ہیں۔

مزید پڑھیے: ٹرمپ پاکستان کیلئے اچھے ثابت ہوں گے یا برے؟

امریکیوں کی ایک بڑی تعداد نے تبدیلی کو پسند کیا۔ اوہایو، مشی گن اور دوسری ریاستوں میں بہت سارے لوگوں نے اوباما کو تبدیلی کے پیغام سے متاثر ہو کر ووٹ دیا اور اب ٹرمپ کو دل دے چکے ہیں۔

ٹرمپ کے جیتنے کی ایک وجہ ہیلری کلنٹن کی شخصیت بھی ہے۔ ان پر الزام ہے کہ ان کو امیر طبقے کی حمایت حاصل ہے، اور وہ بھی امیر طبقے، بینکوں اور کارپوریشنز کے مفادات کی محافظ ہیں۔ اس کے ثبوت وہ تقاریر ہیں جو انہوں نے پیسے لے کر مختلف کارپوریشنز کے لیے کیں۔ ان پر دوسرا الزام جھوٹ بولنے کا ہے۔ اس معاملے میں بن غازی کا واقعہ اور ان کی ای میلز کا واقعہ سرِ فہرست ہے۔

ہیلری کلنٹن کے کچھ مخالف اس طبقے کے لوگ بھی ہیں جو ان کے عورت ہونے کی وجہ سے یا عورتوں کی تنظیموں کے سخت گیر مؤقف کی وجہ سے ناراض ہوئے۔

ہلیری کلنٹن کو امریکی اسٹیبلشمنٹ کا حصہ بھی سمجھا جاتا ہے۔ لوگوں کے نزدیک یہ وہ طبقہ ہے جو اپنے مفادات کے لیے دنیا میں جنگیں کرواتا ہے اور اس کے نتیجے میں عام امریکی متاثر ہوتا ہے۔

سعودی عرب اور دوسرے ممالک سے ہیلری کلنٹن کی قربت ان کے خلاف گئی۔ ڈیموکریٹک پارٹی کے پکے ووٹر بھی اس دفعہ الکیشن سے غائب رہے کیوں کہ ان کے نزدیک ہیلری کی شخصیت قابل اعتبار نہ تھی۔

امریکا کے غریب اور متوسط طبقے نے بہتر معاشی حالات اور طاقتور بینکوں اور کارپوریشنز کے ہاتھوں عوام کے استحصال کے خاتمے کی امید میں ڈونلڈ ٹرمپ کو ووٹ دیا ہے، مگر یہ بیانیہ درحقیقت سینیٹر برنی سینڈرز کا تھا، جنہوں نے اپنی انتخابی مہم میں بار بار اس بات کا اعادہ کیا کہ وہ طاقت اور دولت کو وال اسٹریٹ سے نکال کر عوام تک لائیں گے، معیارِ زندگی بلند کریں گے، یونیورسٹی کی تعلیم غریبوں کی پہنچ میں لائیں گے اور نوکریاں پیدا کریں گے۔

برنی سینڈرز انتخاب لڑنے کے لیے ڈیموکریٹک پارٹی کی جانب سے نامزدگی چاہتے تھے، مگر ڈیموکریٹک پارٹی کے نمائندگان نے سینڈرز کو اسٹیبلشمنٹ کے خلاف خطرہ سمجھتے ہوئے ہیلری کلنٹن کا ساتھ دیا، جو نچلے طبقے کے ملازمت پیشہ عوام کو متاثر کرنے میں ناکام رہیں۔

یوں ڈونلڈ ٹرمپ اپنی مکمل طور پر متنازع شخصیت، چوبیس گھنٹے پورا سال اپنے خلاف رپورٹنگ، اور خود پر لگنے والے الزامات کے باوجود جیت گئے۔ اگر ٹرمپ کے مقابلے میں ہیلری کلنٹن کی جگہ برنی سینڈرز ہوتے تو صورتحال مختلف ہوتی۔

ڈونلڈ ٹرمپ کی کامیابی کی ایک اور وجہ امریکی سیاست میں ایک اہم کردار کے اضافے کا بھی ہے۔ پچھلے وقتوں میں سیاسی رائے سازی کارپوریٹ میڈیا کا کام سمجھا جاتا تھا۔ سی این این، فاکس نیوز اور دوسرے ادارے عوام کے ڈرائنگ روموں میں رائے لے کر آتے تھے اور ان کا ذہن بدلتے تھے۔

پڑھیے: پاکستان سے محبت ہے، ڈونلڈ ٹرمپ

سوشل میڈیا اور انٹرنیٹ نے اس چیز کو تبدیل کیا ہے۔ ایک عام امریکی اب فیس بک، ٹوئٹر، انسٹا گرام، ریڈ اٹ، امیجر اور دوسری جگہوں پر ٹی وی کے مقابلے میں زیادہ وقت گزارتا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ اس خاموش اکثریت کی نمایندگی بن گیے جو رائے عامہ کے شماریوں میں تو چپ رہی مگر ووٹ دے کر بول پڑی۔ اس دفعہ ڈونلڈ ٹرمپ کی کارپوریٹ میڈیا نے مخالفت کی مگر وہ جیت گئے، کیوں کہ سوشل میڈیا پر ہیلری کلنٹن زیادہ غیر مقبول تھیں۔

ٹرمپ نے ثابت کر دیا ہے کہ ایک جمہوری نظام میں زبردست کا انگوٹھا نہیں بلکہ چار انگلیاں جیتتی ہیں۔ ٹرمپ وہ شاہد آفریدی ہے جس سے کسی کو امید نہ تھی، لیکن جس نے آخری بال پر چھکا مار دیا۔

لیکن امریکی جس طرح کریڈٹ کارڈ لیتے ہوئے باریک حروف سے لکھی پیچیدہ شرائط نہیں پڑھتے، اسی طرح اس الیکشن میں بھی ڈونلڈ ٹرمپ کے نعرے سن کر اسے ووٹ دے بیٹھے ہیں۔ ہمارے چینی دوست ایسے موقع پر کہا کرتے ہیں کہ دعا مانگنے سے پہلے سوچ لو، کہیں قبول ہی نہ ہو جائے۔

پاکستانی افراد تو ان سیاستدانوں کے عادی ہیں جن کے نزدیک وعدے کوئی مقدس چیز نہیں ہوتے، مگر دیکھنا یہ ہے کہ کیا امریکیوں کو بھی ان کا ٹرمپ کے وعدوں پر اعتبار لے ڈوبے گا؟

اور اب امریکیوں کے ساتھ تو جو ہوگا سو ہوگا، باقی دنیا کے ممالک کو فکر لاحق ہوگئی ہے کہ کہیں وار آن ٹیرر کے نئے راؤنڈ میں امریکا کو ان کے ملک میں بھی جمہوریت کی ضرورت نہ نظر آ جائے۔

تبصرے (1) بند ہیں

مثالی Nov 10, 2016 09:39pm
لکھائ میں کمال آتا جا رہا ہے جناب ، سب سے عمدہ ہمیں آخر میں آپ کا تعارف لگا ، منجانب آپ کا مددہ دبئ سے