• KHI: Partly Cloudy 27.3°C
  • LHR: Partly Cloudy 18.7°C
  • ISB: Rain 17.9°C
  • KHI: Partly Cloudy 27.3°C
  • LHR: Partly Cloudy 18.7°C
  • ISB: Rain 17.9°C

شیعہ قتل عام

شائع July 3, 2013

اسلام آباد میں مطاہرین۔ - اے پی فوٹو
اسلام آباد میں مطاہرین۔ - اے پی فوٹو

قاہرہ سے پشاور تک، ہر جگہ شیعہ برادری، سنی عسکریت پسندوں کے حملوں کا نشانہ بن رہی ہے- شیعہ برادری کے خلاف اس فرقہ وارانہ جنگ میں ہزاروں، لقمہ اجل بن گۓ ہیں- جہاں مسلمان فرقہ وارانہ جنگوں میں خود کو تباہ کر رہے ہیں، باقی پوری دنیا خاموشی سے تماشا دیکھ رہی ہے-

گزشتہ اتوار کو قانون سے لاپروا ہجوم نے قاہرہ (زاویت ابو مسلم)، مصر کے قریب ایک گھر میں پناہ گزین چار شیعہ افراد کو قتل کر دیا- وہ ہجوم ان کی لاشوں کو گھسیٹتا ہوا سڑک پر لے آیا جبکہ سینکڑوں لوگ گھروں کی چھتوں سے یہ منظر دیکھ رہے تھے- عراق میں بم دھماکوں میں مسلسل شیعہ زخمی اور مارے جا رہے ہیں-

پاکستان میں دہشتگردوں نے 21 جون کو ایک مسجد پر حملہ کیا جس میں 15 شیعہ مارے گۓ- بحرین میں سعودی حمایتی حکومت، مستقل شیعہ برادری کو ہراساں کر رہی ہے کیوں کہ وہ اپنے سیاسی حقوق مانگ رہے ہیں-

پوری دنیا میں، شیعہ سنی تفرقے نے انتہائی بری شکل اختیار کر لی ہے- سیریا تنازعہ نے ایران حمایتی الاعلی وائت حکومت کو سنی اکثریت سے لڑایا جا رہا ہے جس کی پشت پناہی سعودی عرب، مصر، اردن اور دیگر خلیجی ریاستیں کر رہی ہیں- سریا کے اندرونی تنازعہ کی شکل میں شروع ہونے والے سلسلے نے فرقہ وارانہ فسادات کی شکل اختیار کر لی ہے، جس کے نتیجے میں کروڑوں مسلمانوں کو خونریز فرقہ وارانہ جنگ میں جھونکے جانے کا خطرہ پیدا ہو گیا ہے-

مصر، زویت ابو مسلم میں ایک ممتاز شیعہ عالم، شیخ حسن شیھاتا پر ان کے گھر میں حملے کر کے تین اور افراد کے ساتھ قتل کر دیا گیا- سینکڑوں افراد پر مشتمل ہجوم نے شیخ کے گھر کو آگ لگا دی-

ابتدائی طبی رپورٹ کے مطابق شیخ کا گلہ، تیز دھار آلے سے کاٹا گیا تھا جبکہ ان کے اور دوسروں کے سروں پر شدید ضربیں لگائی گئی تھیں- انٹرنیٹ پر اس ہجوم کی خوفناک ویڈیو جاری کی گئی ہے، جس میں عورتیں بھی شامل تھیں، اور یہ ظالمانہ کاروائی دیکھ رہی تھیں، لیکن اسکو روکنے کی کوئی کوشش نہیں کی گئی-

مسلم بھائی بندی، دائیں بازو کا گروہ جو مصری صدر، محمد مرسی کا حمایتی ہے، 'سلافیسٹ' کو 'ایجپٹشین نیشنل اپوزیشن' کے خلاف حمایت حاصل کرنے کے لئے بڑھاوا دے رہا ہے- ایجپٹشین نیشنل اپوزیشن نے 30 جون کو بڑے پیمانے پر احتجاج کی دھمکی دی ہے-

مصری حکمران جماعت اور سلافیسٹ کے درمیان خفیہ ڈیلنگ نے شدّت پسندوں کے لئے شیعہ برادری کے خلاف پچھلے کچھ ہفتوں سے دہشت کی مہم چلانا ممکن بنا دیا ہے جس کی انتہا شیخ اور ان کے ساتھیوں کا قتل ہے-

اگر بہادر ایکٹوسٹ 'حزیم برکات' نے وہ ویڈیو ٹویٹ نہ کی ہوتیں اور اس حملے کے اصلی مجرموں کے خلاف شہادت دینے کا ارادہ نہ کیا ہوتا تو دنیا کو ان حملوں کی سفاکی کا کبھی پتا نہ چلتا-

ابھی تک عراق کے غیر حل شدہ تنازعوں کے نتیجے میں مستقل شدت پسند، کار دھماکوں اور خودکش حملوں کے ذریعہ شیعہ برادری کا قتل کیے جا رہے ہیں-

گزشتہ پیر کو، بغداد کے قریب اور اندر بم دھماکوں کے سلسلے میں 42 افراد مارے گۓ- عراق میں اپریل سنہ 2013 سے اب تک 2000 سے زائد افراد فرقہ وارانہ فسادات کا نشانہ بن گۓ ہیں- یہ دھماکے منصوبہ بندی کے تحت شیعہ برادری کے قرب و جوار میں کے گۓ-

پاکستان میں پورے ملک پر عسکریت پسندوں کی اجارہ داری ہے، جو جب چاہیں شیعہ برادری اور دوسری اقلیتوں کو اپنا نشانہ بنا رہے ہیں- اس سے بھی بدتر یہ کہ عسکریت پسند اب ان ججز کو نشانہ بنا رہا یہیں جو ان کے خلاف مقدموں کی سماعت کر رہے ہیں- ہائی کورٹ جج مقبول باقر پر بم سے حملہ اسی سلسلے کی کڑی ہے- اس حملے میں وہ شدید زخمی ہو گۓ جبکہ ان کا ڈرائیور اور حفاظت پر مامور آٹھ افراد ہلاک ہو گۓ- یہ عسکریت پسندوں کی طرف سے ایک کھلا پیغام ہے کہ ریاست اور اس کے اداروں کے احترام میں انہیں کوئی دلچسپی نہیں-

طالبان کے نمائندے نے میڈیا کو بیان دیتے وقت یہ واضح کر دیا کہ انہوں نے جسٹس باقر کو نشانہ، ان کے 'طالبان مخالف اور مجاہدین مخالف فیصلوں' کی وجہ سے بنایا-

پچھلے دنوں، پیرا ملٹری پولیس کی وردیوں میں ملبوس افراد نے پاکستان کے دور دراز پہاڑی علاقوں میں، نو غیرملکیوں کو ایک ہوٹل میں قتل کر دیا- پاکستانی طالبان نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کر لی، جس کے بارے میں انکا دعویٰ تھا کہ یہ اس ڈرون حملے کا جواب ہے جس میں، طالبان کمانڈر ولی الرحمٰن مارا گیا-

گلگت بلتستان میں سیاحوں پر ہونے والے حملے کی تفصیلات، ماضی میں اسی علاقے میں ہونے والے شیعہ افراد پر ہونے والے حملوں سے خوفناک حد تک مماثلت رکھتی ہے- اگست سنہ 2012 میں اسی طرح، پیرا ملٹری پولیس کی وردی میں ملبوس افراد نے مانسہرہ کے قریب تین بسوں کو روک کر ان میں موجود بیس شیعہ کو چن کر باہر نکالا اور قتل کر دیا- یہ چھ مہینوں میں ایسا تیسرا حملہ تھا-

سیریا میں پر تشدد واقعات، حد سے تجاوز کر چکے ہیں- یو این رپورٹ کے مطابق اب تک 93،000 اموات ہو چکی ہیں- کئی مہینوں تک، سیریا میں ہونے والی کشمکش کو لوگوں نے، عربی شورش کا حصّہ تصور کیا جس میں جمہوری قوتیں، دہائیوں سے موجود آمریت کے خلاف اٹھ کھڑی ہوئی ہیں- سیریا میں اب ایسا نہیں ہے-

بشارالاسد حکومت کا احتجاجیوں کے خلاف مارچ سنہ 2011 میں سخت قوانین کے نفاذ نے سیاسی جدوجہد کو خانہ جنگی میں تبدیل کر دیا- جہاں غیر ملکی قوتوں کی مداخلت سے حالات مزید خراب ہو گۓ- اسد حکومت کو ایرانی اور لبنانی حزب اللہ کی حمایت حاصل ہے- الاعلی وائت حکومت کے لئے شیعہ حمایت نے بہت سی عرب ریاستوں کو چراغ پا کر دیا، جنہوں نے سیریا میں بغاوت میں بلین ڈالر لگا دئے-

عراق کی طرح سیریا بھی، فرقہ وارانہ فسادات کا شکار ہو گیا ہے جس کا الزام اس جنگ میں ملوث تمام گروہوں کو جاتا ہے- عراق، سیریا، بحرین اور پاکستان کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ ان تنازعوں نے، مسلم دنیا کو دوبارہ صدیوں پرانی فرقہ وارانہ جنگ میں جھونک دیا ہے-

پوری دنیا میں، سیاسی حقوق کی تحریک، القائدہ، طالبان اور ان کے سینکڑوں مقامی نمائندہ گروہوں نے اپنے ہاتھ میں لے لی ہے-

یہ ممکن ہے کہ چند معاہدوں کے بعد القائدہ اور طالبان شاید مغرب کو اپنی متشدد کارروائیوں کا نشانہ بنانا چھوڑے دیں- تاہم اس کے بات کے قوی امکانات ہیں کہ پوری دنیا میں کئی دہائیوں تک شیعہ برادری کا قتل عام، شدت پسندوں کے ہاتھوں جاری رہے-


مرتضیٰ حیدر، پی ایچ ڈی، ریرسن یونیورسٹی، ٹورنٹو، میں ٹیڈ راجر اسکول آف مینجمنٹ کے ریسرچ اینڈ گریجویٹ پروگرامز کے ایسوسیٹ ڈین ہیں -

ترجمہ: ناہید اسرار

مرتضیٰ حیدر

مرتضیٰ حیدر ٹورنٹو میں تدریس کے شعبے سے وابستہ ہیں، اور regionomics.com کے ڈائریکٹر ہیں۔

انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں: regionomics@

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

کارٹون

کارٹون : 20 دسمبر 2025
کارٹون : 18 دسمبر 2025