وہی پرانی دستاویز
ایک ایسی جماعت جو ملک گیر سطح پر قومی انتخابات میں شکست سےدوچار ہوئی تاہم اس کا سندھ بجٹ، پارٹی کی علامت سے دھوکا نہیں ہے۔
نہ ہی اس میں یہ اشارے ہیں کہ حکمراں پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) صوبے میں بہتر کارکردگی کی بنیاد پر اپنی کھوئی ہوئی طاقت واپس لینے کی لڑائی پر پُرعزم ہے۔
پارٹی کا پیش کردہ بجٹ چھ سو سترہ ارب روپے پر مشتمل ہے اور یہ وہی معمول کی دستاویز ہے جو جتنا ظاہر کرتی ہے، اس سے کہیں زیادہ، اس میں موجود لاکھوں اعداد و شمار میں پوشیدہ ہوتا ہے۔
صوبے کی ٹیکس آمدنی بڑھانے، ترقیات کے لیے وفاق کی مالی منتقلی پر انحصار میں کمی اور دیگر اخراجات بالخصوص اختیارات کی صوبوں تک منتقلی پر آنے والے مصارف کے تناظر میں، بجٹ میں جراتمندانہ اقدامات ضروری تھے مگر ان کا فقدان نظر آتا ہے۔
اگرچہ بجٹ میں وعدہ کیا گیا ہے کہ خدمات پر عائد صوبائی سیلز ٹیکس کی بنیاد پر اس کا دائرہ، اگلے سال زیادہ آمدنی حاصل کرنے کے واسطے بڑھایا جائے گا مگر یہ بھی نیم دلی سے اٹھایا گیا قدم نظر آتا ہے۔
اس ضمن میں بعض خدمات کو تو سِرے سے ہی چھوڑ دیا گیا ور جو باقی بچی ہیں، اُن پر بھی معیاری سولہ فیصد سے بھی کافی کم ٹیکس عائد کیا گیا۔ ایک بار پھر زرعی اصلاحات کو چھوے بِنا ہی چھوڑدیا گیا ہے۔
آمدنی بڑھانے کے لیے بعض دیگر اقدامات، جیسا کہ جائیداد ٹیکس میں اضافے بھی تجویز کیے گئے ہیں مگر اس مد میں واضح طور پر اضافہ کرنا حکومت کے لیے ایک بڑا چیلنج ہوگا۔ ٹیکس آمدنی میں اضافے کے حوالے سے، سندھ کے مقابلے میں پنجاب نے زیادہ مضبوط عزم کا اظہار کیا ہے۔
صوبائی ترقیاتی اخراجات کی مد میں ایک سو پچاسی ملین روپے مختص کیے گئے ہیں، جو حقیقت سے زیادہ خواہش نظر آتی ہے۔
صوبے کی قلیل آمدنی اور وفاق کی طرف سے فنڈز کی فراہمی میں کمی کے سبب پچھلے بجٹ میں مختص کردہ ایک سو اکیاسی ارب روپے کے ہدف کا، رواں ماہ اختتام پذیر مالی سال کے دوران بمشکل نصف سےذرا کچھ زیادہ ہی خرچ ہوسکا ہے۔
صوبائی ٹیکسوں میں بہتری لانے اور ترقیاتی فنڈز کا حقیقت پسندانہ استعمال کرنے کے بجائے، بجٹ زیادہ تر شہری سندھ بالخصوص کراچی میں امن و امان کے قیام سے قلابے ملاتا نظر آتا ہے۔
یہ وہ پہلوہیں کہ جن کی طرف وزیراعلیٰ سید قائم علی شاہ کو توجہ مرکوزکرنے کی ضرورت ہے۔ صوبے کے مالی معاملات کو کُل وقتی وزیرِ خزانہ پر چھوڑ دینا چاہیے۔












لائیو ٹی وی