روزہ داری کا جذبہ

آج کی دنیا میں، کم و بیش کسی بھی چیز کی قدروقیمت کی پیمائش منطقی خیال سے نہیں بلکہ روزمرہ زندگی میں پڑنے والے اس کے مثبت اثر سے کی جاتی ہے۔
قبولیت اسلام میں یہ تشخیص خاص طور پر اہم ہے۔ اگر اسلام کی صحیح روح موجود ہوتی تو ایمان کی چاہت ثابت کرنے کی ضرورت کم ہی محسوس ہوتی۔ لوگوں کو اس کی جانب راغب کرنے کے لئے اسلامی شعائر کے واضح فائدے ہی کافی ہوتے۔ یہی وجہ ہے کہ مذہبی جذبہ کی بحالی وقت کی ضرورت ہے۔
اس مقصد کے لئے روزہ داری خصوصاً منفرد ہے۔ اسلام کے دیگر ستونوں کے برخلاف اس کے اندر کسی قسم کی جسمانی حرکت کی ضرورت نہیں ہوتی۔ بظاہر، ایک روزہ دار کسی طور بھی دوسرے شخص سے مختلف دکھائی نہیں دیتا اس کے باوجود، یہ روزہ داری کا جذبہ اور اس کا ارادہ ہی ہے جو اسکو اتنا اہم بناتا ہے کہ ظہور اسلام سے پہلے کی قوموں پر بھی لازمی قرار دیا گیا اور اس پر عمل پیرا ہونے کے لئے پورا ایک مہینہ وقف کر دیا گیا۔ واضح طور پہ، اگر ہم روزے داری کا جوہر کھودیں تو اسکے اثرات بھی ختم ہوجائیں گے اور یہ محض بھوک میں کی جانے والی ورزش بن جائے گی۔
بدقسمتی سے پاکستان میں یہی رحجان مقبول ہے اور اس کو تبدیل کرنے کے لئے ہمیں روزہ داری کی روح اور اسکی بنیادوں کو سمجھنا ہوگا اور ان پر ہی توجہ مرکوز کرنی ہوگی۔
روزہ داری کی روح، ضبط میں پنہاں ہے۔ شاید اسلام کی تمام تعلیمات میں ضبط سے ذیادہ اہم کوئی بھی نہیں۔ جب ایک شخص اپنا کھانا پینا اپنی اندرونی خواہشات محض اللہ کے حکم پر قربان کرتا ہے، تو یہ عمل اسے اپنی رضا کے آگے اپنے خالق کی رضا رکھنے کا فن سکھا دیتا ہے۔ حاصل بحث یہ ہے، اگر انسان اپنی خواہشات پہ قابو پانا سیکھہ سکتے ہیں تو انکا کاملیت اور زندگی کے حتمی مقصد کے حصول کی جانب سفر آسان ہوجاتا ہے۔
حلانکہ آج کی عام مشغولیات، ضبط کے حقیقی پیغام کے بالکل برعکس پیغام پہنچاتی ہیں۔ آج ہماری تمام تر توجہ، ذائقہ اور آرام، اپنی مادی خواہشات کی تسکین کے لئے، رمضان کو ایک موقع بنا کر استعمال کرنے پر مرکوز ہے، جس نے روزہ داری کے ذریعے ضبط بڑھانے کے تصور کو تباہ کر دیا ہے۔
کسی کا جسم نظرانداز کرنے کا عمل، اس کو روح پر توجہ دینے کا موقع فراہم کرتا ہے۔ جب ہم مادی زندگی کے معمولات سے آزاد ہوجاتے ہیں تب ہم ایک مہم جوئی کی ابتداء کرتے ہیں، مادے اور مادی دنیا سے ذیادہ بڑے حقائق پر غور کرنا شروع کرتے ہیں، حقائق جیسے کہ خدا، روحانیت اور عظیم تر فلاح۔
یہ روحانی رابطوں کی نایاب ضرورت ہم سب کے اندر ہے، ہر مذہب میں، چاہے عیسائیت اور یہودیت میں تلاش روح کا تصور ہو یا بدھمت میں گہرے مراقبے کے ذریعے نروانہ(دنیاوی چیزوں سے روح کی آزادی) کی تلاش اور یا پھر غیر مذہبی لوگوں میں روحانی اطمینان حاصل کرنے کے لئے فن اور موسیقی کا استعمال۔
روزہ داری ایک ایسا عمل ہے جو فرد کو مراقبہ، توجہ مرکوز اور دریافت کرنے کی اجازت دیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ رمضان کے مہینے میں عبادت کی اہمیت پہ، مخصوص نمازوں اور مناجات کی شکل میں، خاصہ زور دیا گیا ہے۔ یہ ذندگی کے عظیم تر مقاصد کے حصول پر توجہ دینے اور منصوبہ بندی کرنے کے لئے بہترین وقت ہوتا ہے۔ شاید اعتکاف کے عمل کے پیچھے یہ بھی ایک حکمت ہو، اعتکاف میں اہل ایمان خود کو دنیا سے الگ کرکے نماز اور عبادات کے لئے وقف کر دیتے ہیں۔
رمضان صرف فرد واحد کی نشوونما تک محدود نہیں ہے؛ یہ پورے معاشرے کی ترقی اور بہتری میں ایک اہم کردار ادا کرتا ہے۔ کسی بھی معاشرے کی ترقی کی چابی، جذبات کا باہمی تعلق اور معاشرے کے ہر فرد کے درمیان موجود احساسات ہیں۔ روزہ داری تمام معاشرے کو باندھ کر رکھنے میں بھی اہم کردار ادا کرتی ہے۔ یہ دولت مند اور مالداروں کو یہ سمجھنے میں مدد دیتی ہے کہ ان پر کیا گذرتی ہے جن کے پاس یہ سب کچھ نہیں ہوتا۔
مزید برآں، جب پورا معاشرہ مشترکہ طور پر سب سے بنیادی ضرورت ترک کردیتا ہے، تو یہ عمل بھائی چارے کے اس منفرد احساس کو جنم دیتا ہے کہ ہم سب بہرحال ایک ہی جنگ لڑ رہے ہیں، ایک ہی خدا کی عبادت کر رہے ہیں۔ بہرحال ہم ایک جیسے اور ایک ہیں۔ یہی ایک وجہ ہے کہ رمضان میں خیراتی عمل اس قدر کثرت سے کئے جاتے ہیں۔ لوگ جب یہ جان لیتے ہیں کہ معاشرے کی کیا پریشانیاں ہیں تو وہ دوسروں کی مدد کرنا چاہتے ہیں۔
البتہ آج مسئلہ، روزہ داری کے ساتھہ کئے جانے والے برے برتاوُ میں مضمر ہے۔ جسکی وجہ سے اصل روح ناپید ہوتی جا رہی ہے۔ ایسا لگتا ہے جیسے رمضان بھی بڑے پیمانے پہ کی جانے والی صارفینیت کا ایک نشانہ بن گیا ہے۔
کیا یہ عالیشان، چمک دمک اور نمودونمائش سے بھر پور افطار اور سحر تقریبات رمضان کے اصل جز کو بالائے طاق نہیں رکھہ رہیں اور اس کے تقدس اور تبریک و تحریم کو فرسودہ اور مردہ بنا کر نہیں پیش کر رہیں؟ اطاعت اللہ اور روحانیت کے تصور اور ضبط کی غیر موجودگی کی وجہ سے رمضان المبارک کا مہینہ اپنا تقدس آہستہ آہستہ کھوتا جا رہا ہے اور محض ایک ثقافتی تہوار بنتا جا رہا ہے۔
صورتحال اسقدر قابو سے باہر نکل چکی ہے کہ شاپنگ مالوں کے باہر مصنوعات کی تشہیر کرتے بینرز پہ "رمضان کا اصل جذبہ" لکھا دیکھا جانا عام بات بن چکی ہے۔
اب یہ بہت ضروری ہے کہ ہم اس ثقافتی تنزلی اور تباہی کے طرز عمل کو توڑ ڈالیں۔ ہمیں رمضان کے حقیقی جذبے کو بحال کرنا ہے جو ضبط اور روحانیت کے ذریعے ہی ممکن ہے۔
روزے داری کی حکمت کے پیچھے موجود تصوراتی وضاحت اسلامی اقدار کی بحالی کی جانب پہلا قدم ہوسکتی ہے۔ آئیے اس رمضان میں غیر ضروری عیاشیوں میں پڑنے کے بجائے اپنے تمام خیالات اور کوششیں ضبط، روحانیت اور اطاعت خداوندی کی جانب مرکوز رکھیں، تا کہ یہ مقدس مہینہ ہم پر اپنی حقیقی نعمتیں اور مقدم فضیلتیں نچھاور کرسکے۔
مصنف ایک مذہبی اسکالر ہیں










لائیو ٹی وی