ڈرتے ہیں بندوقوں والے
وہ پہاڑوں کی سرزمین کی باسی تھی۔ اس کے وطن پر غاصبوں نے قبضہ کر رکھا تھا۔ وہ چاہتی تو روایات کا پاس رکھتے ہوئے عروسی لباس زیب تن کر کے گھر بیٹھ جاتی اور اپنے پیا کی واپسی کا انتظار کرتی پر اس نے روایات کو پس پشت ڈالتے ہوئے وطن اور اسکی حفاظت کو گھریلو زندگی پر ترجیح دی اور میدان جنگ میں نکل پڑی۔
وطن کی دلیر بیٹی نے آخری سانس تک علم بلند رکھا اور اپنے ہم وطنوں کا حوصلہ بڑھاتی رہی اور بلآخر اپنی جان وطن پر وار کر سرخرو ہو گئی۔ اس کو شہیدوں کے سنگ دفن کیا گیا۔ اس کا نام 'ملالائی' تھا.
طالبان طرز کی پہلی حکومت دیوبندی انتہا پسندوں (جن کی سرپرستی رائے بریلی کے سید احمد کر رہے تھے) نے موجودہ خیبر پختو تخواہ میں قائم کی۔
اس حکومت اور اسکے کارناموں کی روداد تاریخ دان عائشہ جلال نے اپنی کتاب میں خوب بیان کی ہے۔ مقامی پٹھانوں پر وہابی نظریات مسلط کرنے کا پہلا تجربہ اسی دور میں ہوا۔
عشر کی ادائیگی اور ’مجاہدین‘ کی شادیوں کے مسئلے پر اختلاف ہوا تو یوسف زئی قبیلے نے ’مجاہدین‘ کے ریوڑ کو بھاگنے پر مجبور کیا اور بلآخر بالا کوٹ کے مقام پر یہ کہانی اختتام پذیر ہوئی۔
اب جو ملالائی بھی ہو، اور یوسف زئی بھی ہو، اسکی زندگی تو منفرد ہی ہوگی۔ پندرہ سال کی عمر میں طالبان کی گولیوں کا نشانہ بننے والی ملالہ یوسف زئی نے اقوام متحدہ سے خطاب کیا کر لیا، ایک طوفان بد تمیزی برپا ہو گیا۔
لڑکیوں کا تعلیم حاصل کرنا صرف طالبان کو ہی نہیں، بہت سے اور لوگوں کو بھی بہت چبھتا ہے۔ یہ لوگ ہمارے درمیان ہی پائے جاتے ہیں اور انکا تدارک بہت ضروری ہے۔
ان لوگوں سے یہ بات ہضم نہیں ہوتی کہ ایک سولہ سالہ لڑکی اپنے جیسی دوسری لڑکیوں کے تعلیم کے حق کے لیے دنیا کے سامنے بات کرتی ہے۔
یہ لوگ اپنی اس دقیانوسی سوچ کو سازشی نظریات کے ذریعے واضح کرتے ہیں۔ ملالہ غدار وطن ہے، دشمن کی ایجنٹ ہے، جاسوس ہے، جاسوسوں کی سربراہ ہے، وغیرہ وغیرہ۔
وہ بدگمان لوگ جو ملالہ کو ڈرامہ کہنے پر مصر ہیں، انکی ماؤں بہنوں اور بیٹیوں کو کبھی خونی چوک سے گزر کر سکول نہیں جانا پڑا، نہ ہی کبھی انہیں ایک طالب کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر تعلیم حاصل کرنے کے حق کے لیے لڑنا پڑا ہے، نہ انہیں مختلف نام استعمال کر کے اپنی کہانی بیان کرنی پڑی ہے اور نہ ہی کبھی ان کو انکے نظریات کی بنا پر ماتھے پر گولی کھانی پڑی ہے۔
ملالہ نے 2008 میں پہلی دفعہ پشاور پریس کلب کے سامنے تقریر کی اور للکارا؛
’طالبان کو یہ حق کس نے دیا ہے کہ وہ میرا تعلیم حاصل کرنے کا حق چھین لیں؟‘
اس وقت ملالہ کو ڈرامہ کہنے والے کہاں تھے؟ جب 2009 میں اس نے ’گل مکئی‘ کے نام سے بی بی سی اردو کے لیے لکھنا شروع کیا تو یہ سازشی نظریات کے علم بردار کہاں تھے؟
جب فضل اللہ اور اسکے درندوں نے سوات کے باسیوں کی زندگی اجیرن بنا رکھی تھی، کیا وہ بھی امریکی ڈرامہ تھا؟
جب ان درندوں نے لڑکیوں کے درجنوں سکول بارود سے اڑائے تھے، کیا وہ ہندوستان کی سازش تھی؟ کیا وہ دھمکیاں جو اسکے والد اور اسکو کئی سال سے مل رہی تھیں، وہ بھی اک فریب تھا؟
ملالہ پر بزدلانہ حملے نے یہ ثابت کر دیا تھا کہ طالبان کو اصل خوف فوج سے نہیں بلکہ تعلیم یافتہ خواتین سے ہے۔ ہم یقیناً دنیا کا واحد ملک ہیں جہاں ایک نوجوان لڑکی تعلیم کی بات کرے تو اسے بھی ایک عالمی سازش سمجھا جاتا ہے۔
ساری دنیا میں ملالہ کی بہادری کی تعریف کی جا رہی ہے لیکن اسکے ہم وطن اسے ڈرامہ کہنے اور ثابت کرنے میں مصروف ہیں. اردو اخبارات کے کالم نویسوں اور پاکستانی اینکروں سے تو خیر کی توقع ہی نہیں اور وہ تو سازشی بکواس کرتے ہی رہیں گے، پڑھے لکھے لوگوں کے خیالات سن کر دل خون کے آنسو روتا ہے۔
ملالہ کا ذکر آتے ہی ایسے لوگ دماغی ہیضے میں مبتلا ہو جاتے ہیں اور کبھی ڈرون تو کبھی کوئی اور دکھڑا کھول کر بیٹھ جاتے ہیں۔ ارے ایسے پڑھے لکھوں سے تو جاہل ہزار گنا بہتر ہیں! یہ ہے پاکستان کا روشن مستقبل! ایک نہتی لڑکی نے ہزاروں نظریاتی منافقوں کا پول کھول دیا۔
شاباش ملالہ! جگ جگ جیو! بھول کر بھی کبھی واپسی کا نہ سوچنا کہ ہم لوگ ابھی اس قابل نہیں ہوئے اور شائد کبھی ہوں گے بھی نہیں۔
عبدالمجید کا تعلق سیالکوٹ سے ہے اور انہیں تاریخ، سیاست اور معاشیات کے مضامین میں دلچسپی ہے۔












لائیو ٹی وی
تبصرے (1) بند ہیں