• KHI: Partly Cloudy 26.9°C
  • LHR: Partly Cloudy 16.4°C
  • ISB: Cloudy 15.6°C
  • KHI: Partly Cloudy 26.9°C
  • LHR: Partly Cloudy 16.4°C
  • ISB: Cloudy 15.6°C

بڑھتی ہوئی خونی لہر

شائع July 26, 2012

SYRIA-CONFLICT-UNREST
لگتا ہے تشدّد اختلاف رائے کو طے کرنے کا پہلا اور آخری راستہ رہ گیا ہے۔—اے ایف پی فوٹو

امریکا میں حال ہی میں کثیر تعداد میں ہونے والی ہلاکتوں کے بعد اکثر لوگوں نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر اپنے پیغامات میں شکر ادا کیا کہ کولو راڈو کے واقعے کا قاتل مسلمان نہیں تھا۔ بعض لوگوں نے تو بذریعہ ای میل یہ بھی پوچھا ہے کہ جیمز ہولمیز کو آخر دہشت گرد کے بجاۓ محض گن مین کیوں کہا جا رہا ہے۔   اگرچہ لغوی اعتبار سے سانحے میں مقتولوں کے لیے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا لیکن مسلمہ تعریف کے مطابق دہشت گرد سے مراد وہ شخص ہے جو بلا امتیاز سویلین آبادی کو نشانہ بنائے، تخریبی کارروائی کرے اور لوگوں کو خوف و ہراس میں مبتلا کر دے۔ اس کا مقصد اپنے طرز علم سے ایک سیاسی پیغام دینا ہوتا ہے۔

اس کے برعکس ایک گن مین عموما تن تنہا حملہ کرتا ہے، وہ بلا مقصد اور بڑی حد تک بلا وجہ، غیر سیاسی مقاصد کے لیے ہلاکتیں کرتا ہے-

اگر چہ دہشت گردی کوئی نئی بات نہیں ہے۔ بڑھتے ہوئے مخصوص نظریوں کے حامل گروہ یا پھر انفرادی حیثیت میں اس کا ستعمال دنیا بھر میں کیا جا رہا ہے۔ جیسا کہ جرمنی کے نیو- نازی سے لے کر پاکستا ن  کے انتہا پسند اسلام پرستوں اور بہت سی دوسری جگہوں پر۔

حال ہی میں بی بی سی کی ایک خصوصی رپورٹ میں ایک جرمن گروپ 'نیشنل سو شلسٹ انڈر گراونڈ'  کے حوالے سے بتایا گیا کہ اس تنظیم نے دس سال کے دورانئے میں اپنی قاتلانہ مہم میں سات ترکوں، ایک یونانی اور ایک جرمن پولیس افسر کو ہلاک کیا تھا ۔

طریقہ  واردات میں مماثلت ہونے کے باجود پولیس ان ہلاکتوں کے ذمہ داروں تک نہ پہنچ سکی اور حقائق کا انکشاف اسی وقت ممکن ہو سکا جب گزشتہ نومبر میں ایک بینک ڈکیتی کا سراغ لگا لیا گیا۔

بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ پولیس نے ان ہلاکتوں کی تحقیقات میں دلچسپی نہیں دکھائی اور ان ہلاکتوں کا الزام ایک گمنام ترکش مافیا کے سر تھوپا گیا۔ بعد ازاں، جب معاملے پر شور اٹھا تو وفاقی ایجنٹوں نے پتا چلایا کہ بعض متعلقہ دستاویزات کو ضائع کر دیا گیا تھا اور شبھ تھا کہ معاملے کو دبانے کی کوشش میں دائیں بازو کے ہمدرد ملو ث تھے۔

بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق ایک نسل پرست کارکن کا کہنا تھا کہ وہ ان ہلاکتوں کی اصل محرکات سے آگاہ ہے اور اسے ان محرکات سے ہمدردی بھی ہے-

اس کے بعد اس نے اسی لہجے میں نسلی امتیاز کی ضرورت کے بارے میں وہی فضولیات کہیں، جو اکثر دائیں بازو کے انتہا پسند قوم پرستوں کا شیوہ ہے ۔

نازی 'نیشنل سو شلسٹ جرمن ور کرز پارٹی' کا مخفف ہے، ایڈولف ہٹلر نے یہ نام باقاعدہ طور پراپنی پارٹی کو دیا تھا۔

یہاں یہ بتانا بے محل نہ ہوگا کہ  نازی پارٹی کے عروج اس وقت ہوا جب جرمنی پہلی عالمی جنگ میں اپنی شکست کے بعد شدید معاشی بحران سی گزر رہا تھا۔ افراط زر کی شدت کا عالم یہ تھا کہ ایک پیکٹ ڈبل روٹی خریدنے کے لیے صندوق بھر نوٹوں کی ضرورت تھی۔ بےروزگاری اپنی انتہا پر تھی اور متو سط جرمن طبقہ اپنی بقاء کی جنگ لڑ رہا تھا۔

اس معاشی ابتری کی بڑی وجہ فاتح اتحادیوں کی جانب سے  جرمنی پر مسلّط کے گئے وہ معاشی اقدامات تھے جن کی وجہ سے برلن کے سرکاری خزانے سے ار بوں کی رقم لندن، پیرس اور وا شنگٹن کے خزانوں میں منتقل ہو رہی تھی۔

اس کے نتیجے اٹھنے والی غم و غصّے کی لہر کا رخ ہٹلر نے بیرونی اتحادیوں اور ملکی یہودیوں کی جانب موڑ دیا، نتیجتاَ لاکھوں کی تعداد میں جرمن عوام ہٹلر کے پرچم تلے اکھٹےہو گئے اور 1932 کے انتخابات میں نیشنل سو شلسٹوں نے 37٫3 فی صد ووٹ حاصل کئے جس کے بعد ہٹلر جرمنی کے چانسلر بن گئے۔

اگلے برس نازیوں نے پرتشدد اور ڈرانے دھمکانے سے بھرپور مہم کے بعد43٫9 فی صد ووٹ حاصل کیے۔ اس مہم کے دوران متعدد با ئیں بازو کے امیدواروں کو ہلاک کرنے کے علاوہ ہزاروں کمیو نسٹوں کو جیل میں بند کر دیا گیا تھا۔

یہاں یہ بتانا مقصود ہے کہ جب اچانک معاشی بحران پیدا ہو اور 'غیروں' کے خلاف مزاحمتی جذبات پیدا ہو جائیں تو سیاسی اور سماجی رویوں میں بھی تبدیلی رو نما ہونے لگتی ہے۔ تاریخ کا یہ سبق سرمایہ داری کے مو جودہ بحران سے  بھی مطابقت رکھتا ہے۔

جیسے جیسے بہت سےیورپی ممالک میں بےروزگاری میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے اور سماجی، رفاحی منصوبوں میں کٹوتی ہو رہی ہے، دائیں بازو کی قوتیں اس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے عوامی غم و غصّے کا رخ تارکین وطن کی طرف موڑ رہی ہیں۔

فرانس میں 'نیشنل فرنٹ' نے جتنے ووٹ حاصل کئے ( لگ بھگ بیس فی صد ) اتنے ووٹ اسے کبھی نہیں ملے تھے، کسی زمانے میں نسلی منافرت پھیلانے والی غنڈوں کی جماعت قرار دیکر مسترد کی جانے والی اس جماعت کو اب حمایت اور تکریم کی نظروں سے دیکھا جانے لگا ہے

ایسے میں اگر ہالیندے  کی سو شلسٹ پارٹی نے مصارف میں کمی کے غیرمقبول اقدامات اٹھائے تو ردعمل کے حوالے سے یقیناَ لے پن کی نیشنل فرنٹ پارٹی کو سب سے زیادہ فائدہ پہنچےگا۔ یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ لے پن کی پارٹی تارکین وطن پر سخت پابندیوں کی حامی ہے۔

یونان پر یورپین یونین اور آئی ایم ایف کی جانب سے مسلّط کی جانے  والی مالیاتی بندشوں کے نتیجے میں ایک خوش حال یورپی ملک میں غربت کی سطح میں بد ترین اضافہ ہوا ہے۔

دیکھتے ہی دیکھتے لاکھوں یونانی ایک غیر یقینی مستقبل کا شکار ہو گئے ہیں کیونکہ ایک طرف بیروز گاری ہے تو دوسری طرف وظائف اور پنشن ملنے کی امیدیں معدوم ہو رہی ہیں۔

یہاں پر بھی، تارکین وطن پر ہو نے وا لے حملوں میں تیزی  سے اضافہ ہو رہا ہے اور اس کی رہنمائی نیو- نازی  گروپ 'گولڈن ڈان' کر رہا ہے۔

یورپ جب مذہب کے اثرات سے باہر نکلا تو یہاں انتہا پسندی نے غیر سفید فام تارکین وطن کے خلاف تشدّد کا راستہ اختیار کیا- یہاں چونکہ نسل اور رنگ کا امتیاز واضح طور پر نظر آتا تھا لہذاغم و غصّہ کا رخ دیگرنسلی گروہوں کی جانب موڑدیا گیا۔

مسلم ممالک میں چونکہ عموماَ مذہب شناخت کی او لین اور اہم ترین بنیاد ہے وہاں اکثریتی مذہب سے تعلّق نہ رکھنے والے لوگ روز افزوں طور پر نشانہ بنائے جا رہے ہیں-

مثلا ، پاکستان میں احمدی ، عیسائی ،ہندو، بلکہ شیعہ مسلمان بھی روز افزوں حملوں کا نشانہ بن رہے ہیں اور ہلاک کئے جا رہے ہیں-

عراق میں لاکھوں عیسا ئیوں کو اپنے گھروں سے بھاگنا پڑا، مصر میں قبطیوں کے ساتھ کئی دہایوں سے امتیازی سلوک کیا جاتا رہا ہے اور اب شمالی مالی میں انتہا پسند ٹھگ لوگوں پر مظالم ڈھا رہے ہیں ۔

یوں محسوس ہوتا ہے کہ عدم برداشت کی بڑھتی ہوئی لہر، جس کے مختلف اسباب ہیں، تشدّد میں روز افزوں اضافے کا مو جب بن رہی ہے۔ بعض صورتوں میں، جیسے کشمیر اور چیچنیا میں، قوم پرستی تحریک آزادی کا محرک بن رہی ہے۔

بلوچستان میں ریاستی جبرنے نچلی سطح کی علیحد گی پسندی کی تباہ کن جد و جہد کو ہوا دی ہے۔

سوویت یو نین کے ٹوٹنے اور سرد جنگ کے خاتمے کے بعد ہم میں سے بہت سوں نے یہ امید لگا لی تھی کہ دنیا ایک زیادہ محفوظ اور فہم و فراست کی جگه بن جائیگی، لیکن دو دہایوں کے گزرنے کے بعد اب ہم نے سیکھا ہے کہ فی الحقیقت دونوں سپر طاقتوں کے درمیان اسٹینڈ آف کی کیفیت ہی استحکام کا سبب تھی، سوا ئے ان علاقوں کے جہاں دونوں طاقتیں پراکسیز کے سہارے ایک دوسرے سے نبرد آزما تھیں۔

اب ایک ایسی دنیا میں جہاں ہتھیاروں کی بہتات ہے،  یوں لگتا ہے جیسے تشدّد اختلاف رائے کو طے کرنے کا پہلا راستہ ہے نا کہ آخری۔

بھانت بھانت کے نظریہ دان اپنے اپنے نظریات ہم پہ مسلّط کرنا چاہتے ہیں۔ افسوس اس بات کا ہے کہ سیاسی اسلام کا بگڑا ہوا نظریہ بہت سے انتہا پسند گروہوں کو تحریک دینے کا سبب بن رہا ہے، لیکن صرف مذہب ہی تشدّد کا واحد محرک نہیں ہے ۔ جیسا کہ ہم نے اکثرو بیشتر دیکھا ہے کہ نار وے کے قاتل آندرس رویوک جیسے لوگ مذہبی جواز کے بغیر ہی 77 لوگوں کو سفّاکی  سے قتل کر دیتے ہیں۔

یہ ہم سب کے لیے لمحه فکریہ ہے۔ مغرب میں، سیکو ریٹی فورسز اسلامی شدت پسندوں کے خطرے سے نمٹنے میں اس طرح الجھی ہوئی ہیں کہ وہ اس سے کہیں زیادہ مہلک خطروں سے چشم پوشی کر جاتی ہیں جو جمیس ہولمز جیسے سنکیوں کی طرح خود انکے اپنے ہی ملک کی پیدا وار ہیں۔ جنہیں ہتھیاروں تک آسان رسائی حاصل ہے اور جو با قاعد گی سے بہت سی معصوم جانوں کو اپنی  بندوق کا نشانہ بناتے ہیں۔

عرفان حسین

لکھاری کا ای میل ایڈریس [email protected] ہے۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

کارٹون

کارٹون : 21 دسمبر 2025
کارٹون : 20 دسمبر 2025