ہاتھی کی سونڈ، ایّوبی کی تلوار

شائع August 20, 2013

 فائل فوٹو --.
فائل فوٹو --.

ہم نے اس ملک میں اچھے دن بھی دیکھے۔ ایسا نہیں کہ اس وقت سب اچھا تھا، نلکے میں پانی کی جگہ دودھ آتا تھا۔ لوگ دریا کے گھاٹ پر راشن کارڈ دکھا کر مچھلیاں پکڑتے تھے۔ مسجدوں میں بے پڑھے لکھے مولوی نہیں ہوتے تھے یا لڑکے امتحان میں نقل نہیں کرتے تھے۔ مگر دیکھو، جیسے ہمارے ارد گرد والے ایران توران تھے، پارس مارس تھے، ہم بھی ایسے ہی تھے۔

گرتے پڑتے آگے بڑھ رہے تھے۔ ایک آس لگی تھی کہ آزادی ہم نے لے لی، اب دھیرے دھیرے باقی سب بھی ٹھیک کر لیں گے۔ اس برس انگریزی میں نکل گئے تو اگلے سال حساب بھی پاس کر لیں گے۔ مگر بیچ میں سنہ اٹھاون ہو گیا۔

ہمارے ملک کا اور ہمارا معاملہ بہت دیر ایک جیسا چلا ہے۔ ادھر ہم میٹرک کے امتحان میں، خدا ایگزامنر کی قبر تنگ کرے، فیل ہوئے، ادھر ایوب خان نے، خدا اس کی قبر نور سے بھرے اور اسے جنت میں ایک کی جگہ دو بیٹ زمین دے، ملک میں مارشل لأ لگا دیا۔ ہم پھر کسی امتحان میں فیل نہیں ہوا اور ہمارا ملک سنہ اٹھاون والے امتحان میں ایسا فیل ہوا کہ ’پلٹن میدان ڈھاکہ‘ میں وقت کے ہاتھوں پٹائی کرا کے بھی سنبھالا نہیں لیا۔

یارا شیر خان، ایک تو تم سوال بہت کرتا ہے۔ آدھا مزا ساری بات کا تم معنے پوچھ کے خراب کر دیتا ہے۔ دیکھو گل جان لالہ نے ایک دنیا دیکھی ہے۔ یورپ گھوما ہے، افریقہ کے جنگلوں میں سفاری شکار کھیلا ہے مگر یارا، اس ملک کو تم نے کیا بنا دیا ہے کہ حافظ آباد قصبے کا ایک ماکھو چریا، دو بندوقیں ہاتھ میں اٹھا کر دارالخلافے میں آ بیٹھتا ہے اور سارا ملک ہاتھی کی سونڈ سے باندھ لیتا ہے۔

اب ہم تمہیں بتاتے ہیں کہ اس تماشے کا اصل مطلب کیا تھا۔ دیکھو فلمیں تم بہت دیکھتے ہو۔ زیادہ تو تم بمبئی والی فلمیں دیکھتے ہو۔ غیرت تمہارے میں اتنی کم رہ گئی ہے کہ رمضان شریف میں بھی محلے والوں نے تمہیں ہندوستانی فلم دیکھتے پکڑا۔ مگر تم نے ہالی ووڈ کی فلمیں بھی تو دیکھی ہیں۔ کیسا چار سال پر پھیلی امریکی خانہ جنگی کو دو منٹ کم چار گھنٹے کی 'گون ود دی ونڈ' میں نمٹا دیا۔

دوسری عالمی جنگ چھ برس لڑی گئی۔ کتنی بار ایسا ہوا کہ ڈیڑھ گھنٹے کی فلم میں ساری جنگ سمیٹ لی۔ بس دیکھو یہ جو سکندر خان، بھابھی بچوں سمیت اسلام آباد آیا اور ہم سب سینے پر ہاتھ باندھ کر آنکھ جھپکے بغیر ٹیلی ویژن پر سب کچھ دیکھتے رہے، یہ سمجھو پچھلے دس برس کی جنگ کا ایک ڈرامہ بنا کر ہمیں دکھا رہا تھا۔ اس ڈرامے کے کردار پہچانو۔

یاد کرو، اسلام آباد کے بلیو ایریا میں شام کے وقت کتنی بھیڑ ہوتی ہے۔ ہزاروں گاڑیاں ادھر ادھر جاتی نظر آتی ہیں۔ عورتیں، مرد خریداری کرتے ہیں، بچے آئس کریم کھانے آتے ہیں۔ جیسے دنیا کے کسی بھی ایسے شہر میں چہل پہل ہوتی ہے جہاں زندگی معمول پر ہو۔

ایسی ہی ایک شام اسلام آباد کی اس سڑک پر وہ ہونق آدمی دونوں ہاتھوں میں بندوق لیے کھڑا تھا۔ کسی کو خبر نہیں تھی کہ وہ کون ہے اور کیا چاہتا ہے؟ یہ ہے تحریک طالبان اور القاعدہ۔ ایک مسلح دہشت گرد جس نے بندوق اٹھا رکھی ہے۔ جو دلیل نہیں سنتا۔ جو حقیقت جاننے میں دلچسپی نہیں رکھتا۔ جو صرف اپنی بات منوانا چاہتا ہے ۔ مطالبہ یہ ہے کہ فوج ہم سے بات کرے۔ شیر خان کاکا، جس نے بندوق اٹھا ئی ہے، وہ اچھی طرح جانتا ہے کہ اسے جو مانگنا ہے، وہ کس سے مانگنا ہے۔

یہ جو پھول جیسے دو بچے سکندر نے گاڑی میں بٹھا رکھے تھے، یہ اس ملک کے عوام ہیں جو یرغمالی ہیں۔ کوئی بتاتا نہیں اور نہ کوئی مانتا ہے مگر سچ یہ ہے کہ ایک بندوق بردار پاگل شخص معصوم بچوں کے پاس بیٹھا ہے اور شاید اسے خود بھی پوری طرح معلوم نہیں کہ اس کی انگلی کی معمولی سی جنبش سے تباہی پیدا ہو سکتی ہے۔ بابا، اگر اس نے بندوق اٹھائی ہے تو کوئی بٹ مار اس کا ساتھی بھی ہو گا۔ ایسے ہی کوئی اکیلا، بنا کسی سہارے کے، بندوق اٹھا کر سڑک پر نہیں آ جاتا۔

سر سے لے کر پاؤں تک عبا میں لپٹی ایک دبلی پتلی عورت تیز تیز پاؤں اٹھاتی پولیس کے پاس جاتی تھی، پھر خدا جانے کسے فون کرتی تھی، پھر کاغذ پر مطالبے لکھتی تھی، پھر ٹیلی ویژن والوں سے نیک نیک باتیں کرتی تھی، یہ اس ملک کے وہ مذہبی رہنما ہیں جو بظاہر سکندر ملک اور حکومت کے درمیان مذاکرات کرانا چاہتے ہیں مگر سچ پوچھو تو سکندر کے ساتھ ہیں۔

اس عورت نے سارے مطالبات پولیس اور حکومت سے کیے، کیا اس نے ایس پی پولیس کو بتایا کہ سکندر خان صاحب پر کیسے قابو پایا جائے؟ اس کی بندوق کیسے چھینی جا سکتی ہے؟ کیا اس نے سکندر سے التجا کی کہ وہ بندوق رکھ دے؟

یہ جو نہتا پولیس افسر ادب سے بندوق بردار سکندر کے سامنے جاتا تھا اور پھر کانپتے ہوئے پیروں سے واپس آتا تھا، یہ پاکستان کی ریاست کا اہلکار ہے جسے یہ بھی ٹھیک سے معلوم نہیں کہ اسے کس کی بات ماننا ہے اور اگر اس نے سکندر پر قابو پا لیا تو اس سے کون ناراض ہو جائے گا۔

سکندر کی گولی ہم اخبار والوں سمیت کسی کو بھی لگ سکتی ہے۔ اخبار والوں کو اب تک بہت سی گولیاں لگی ہیں مگر ہمیں تماشا دیکھنے اور بریکنگ نیوز دکھانے کا ایسا چسکا ہے کہ ہم سکندر کی بندوق کو صلاح الدین ایوبی کی تلوار بنانے پر تلے ہیں۔

سچ تو یہ ہے کہ ہم صحافی کم اور کہیں اندر سے ملک سکندر ہیں۔ لاہور کا ایک صحافی کتنی بار اعلان کر چکا کہ میرے سینے پر ایٹم بم باندھ کر انڈیا پر گرا دو۔ ایک اور صحافی فریڈم فلوٹیلا پہ بیٹھ کے اسرائیل پہنچ گیا تھا۔

یہ جو زمرد خان ہے، یہ قومی اسمبلی کا سابق ممبر ہے۔ لمبا تڑنگا اور دبنگ جیسے اس ملک میں کھاتے پیتے، زور آور لوگ ہوتے ہیں۔ زمرد خان اندر سے سیاسی آدمی ہے۔ اس نے فیصلہ کیا اور وہاں جا پہنچا۔ اسے کون روکتا؟

کیا وہ پولیس والے اسے روکتے جو بے بسی سے ملک سکندر کی بندوق اور نظر نہ آنے والی حکومت کے بیچ بےبسی کا نقشہ بنے کھڑے تھے؟ جو پانچ گھنٹے تک تماشا دیکھنے والوں کو سڑک سے ہٹا نہیں سکے۔ زمرد خان نے بڑے پنج مکھیا ڈھنگ سے عورت کے سر پر ہاتھ پھیرا، بچوں کو چمکارا اور پھر جو ملک سکندر پہ جھپٹا ہے تو اس کا کھیل ختم ہو گیا۔ گولی تو اسے بعد میں لگی۔

سکندر کا کھیل اسی وقت ختم ہو گیا تھا جب اسے پتا چل گیا کہ سیاست دان نے اس سے دو دو ہاتھ کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ ملک سکندر نے ہاتھ میں بندوق پکڑ رکھی تھی مگر اسے دل میں پتا تھا کہ وہ شہریوں کو یرغمالی بنانے والا ایک اچکا بدمعاش ہی تو ہے۔ شیر خان کاکا، بندوق والے ملک سکندر پر اس کی پردہ پوش بیوی سے مذاکرات کرکے قابو نہیں پایا جا سکتا اور نہ یہ کام پولیس کر سکتی ہے۔ اس کے لیے تو سیاسی آدمی کو ہی آگے آنا پڑے گا۔ یہ کام ٹیلی فون پر نہیں ہو سکتا اور نہ اخبار میں بیان دے کر ملک سکندر کو سمجھایا جا سکتا ہے۔ ملک سکندر کو بتانا چاہیے کہ سیاست دان کے ہاتھ تمہارے گریبان تک پہنچ چکے ہیں۔

شیر خان بابا، چھ گھنٹے تک کسی کو معلوم نہیں تھا کہ حکومت کا کیا فیصلہ ہے؟ وزیر داخلہ کہاں ہے؟ کسی ذمہ دار حکومتی رہنما نے لوگوں کو نہیں بتایا کہ اس کھیل میں ہماری ریاست کیا کرے گی۔ یارا ہم کو بھی دس سال سے معلوم نہیں ہوا کہ پاکستان کی ریاست کیا چاہتی ہے؟ سکندر خان سے لڑنا ہے یا اس کی بات مان لینا چاہتے ہیں مگر سچ پوچھو تو سکندر کے ساتھ ہیں۔

اب جو بتایا تو یہ کہ ملک سکندر چریا ہے، پاگل ہے، جنونی ہے۔ یارا شیر خان، ہم پوچھتا ہے کہ اس ملک میں کتنے لوگ سینے پر ہاتھ رکھ کر یہ کہنے کو تیار ہیں کہ سکندر خان کے مطالبے پاگلوں والی باتیں تھیں؟

سنو، ساٹھ سال پہلے اسلام آباد سے تھوڑی دور راولپنڈی میں سید اکبر نامی ایک شخص نے ہمارے وزیراعظم کو گولی ماری تھی۔ سید اکبر کی بھی دو بیویاں تھیں۔ سینما میں فلم دیکھتا تھا، اپنی معشوق کے لیے لاہور سے گھڑیاں خرید کے لے جاتا تھا، جہاد پر مفت رسالے بانٹتا تھا، وزیراعظم کی پردہ نہ کرنے والی بیوی کو ننگی گالیاں دیتا تھا، اس کے گھر پر بھی ’نوائے وقت‘ اور’ تعمیر ‘کے تراشے رکھے تھے جن میں حمید نظامی جمہوریت کو برا بھلا کہتا تھا اور شریعت نافذ کرنے کا مطالبہ لکھتا تھا۔ جب لیاقت علی خان کے سینے میں گولی اتر چکی تو ہمیں بتایا گیا کہ سید اکبر پاگل تھا۔

ابھی ایک سال نہیں گزرا۔ کینیڈا کا ایک مولوی صاحب بیس ہزار لوگوں کو لے کر اسلام آباد پر چڑھ دوڑا تھا۔ وہ بھی کہتا تھا کوئی وزیراعظم نہیں۔ انگلی لہرا لہرا کر ہنکارتا تھا کہ میں نے صدر اور وزیراعظم، سب کو برطرف کر دیا ہے۔ چار دن وہ شخص اسلام آباد کی سڑک پر ایک قیمتی گاڑی میں بیٹھا رہا، بیس ہزار لوگ سڑک پر سردی میں ٹھٹھرتے رہے اور ہم ٹیلی ویژن پر تماشا دیکھتے رہے۔

باتیں تو کینیڈا والا مولوی بھی ایسی ہی کرتا تھا جیسی حافظ آباد کا ملک سکندر کرتا ہے۔ ایک کو تم پاگل کہتے ہو اور دوسرے کو شیخ الاسلام۔ ملک سکندر پاگل ہے یا نہیں، یارا شیر خان، ہمیں تو لگتا ہے یہ سارا شہر ہی چریا ہو گیا ہے۔


Gul Jan Lala 117 گل جان لالہ ابلاغیات کے استاد اور جمالیات کے طالب علم ہیں۔ انسانی حقوق، تاریخ، قانون، ادب اور فلم ان کی دلچسپی کے خاص موضوعات ہیں۔

گل جان لالہ
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تبصرے (10) بند ہیں

Shahanz Shoro Aug 20, 2013 12:09pm
wonderful lala g...we need the truth....the truth that cannot be written and uttered by lifafa-taker-journalists. Well done lala G!
balouchah Aug 20, 2013 01:24pm
حافظ آباد قصبے کا ایک ماکھو چریا، دو بندوقیں ہاتھ میں اٹھا کر دارالخلافے میں آ بیٹھتا ہے اور سارا ملک ہاتھی کی سونڈ سے باندھ لیتا ہے۔ great blog
Muhammad Anees Aug 20, 2013 02:07pm
very good written
Kamran Choudhri Aug 20, 2013 06:44pm
Educate ,Educate & Educate the People
Azeem Aug 20, 2013 07:34pm
boht khoob ustad g, i think there is some sort of genetic problem in the birth of my dear homeland, punjabi main ye muhawara is tarah nahi hay bahar hal ap nay istamal kar liya hay tu chalain theek hay
شانزے Aug 20, 2013 10:08pm
بہت خوب استاد محترم
hafiz Aug 21, 2013 06:42am
لیکن اس سارے منظر نامے میں لالہ جی اپناجو پارٹ اداء کر رہے ہیں، اسے بتانا بھول ہی گئے ہیں ،جسے پنجابی میں کہتے ہیں" ۔۔۔۔۔۔ دا پارٹ۔" امید ہے سیانے سمجھ گئے ہوں گے۔
Hafeez Aug 22, 2013 03:40am
Great Lala, Assalam o alaikum, What you said is itself so self explanatory that no more further explanation is required. Every body know the reality. But no one in senior authority feels it. ALLAH PAK bless this country with true Leadership that can make proper decision in the changing scenario. . Your today column is great work and keep it up. May Allah shower his blessing at all of us. with warm regards.
Muhammad Bilal Rehman Aug 22, 2013 02:17pm
mujhy samjh nahi aati yeh media zahni bemar hai ya zahni bemar logo ko numaieng ziada daita hai
imran chuhadry Aug 23, 2013 03:26pm
very good news

کارٹون

کارٹون : 22 دسمبر 2025
کارٹون : 21 دسمبر 2025