دہشت گردی کے امریکی الزام پر پاکستانی مدرسہ برہم
پشاور: امریکا کی جانب سے 'دہشت گردی کی تربیت گاہ' قرار دیے جانے اور معاشی پابندیوں کا شکار بننے والے پاکستان کے ایک مذہبی اسکول نے اپنے خلاف الزامات کو شدید الفاظ میں رد کر دیا ہے۔ امریکا نے منگل کو پشاور کے گنج مدرسہ پر معاشی پابندیاں عائد کر دی تھیں، جن میں مدرسہ سے منسلک افراد یا اثاثوں کے ساتھ کسی بھی لین دین رکھنے والے امریکی شہریوں پر پابندی بھی شامل ہے۔
امریکا کا کہنا ہے کہ یہ مدرسہ القاعدہ، طالبان اور لشکر طیبہ کو تربیت، بھرتیاں کرنے اور فنڈز اکھٹے کرنے کی سہولیات فراہم کرتا ہے۔
مدرسہ کے اساتذہ اور طالب علموں نے جواباً شدید ردعمل میں کہا کہ انہیں اپنے خلاف عائد الزمات کے دفاع کا موقع نہیں دیا گیا۔
پاکستان کی وزارت داخلہ اور فوج نے معاملہ پر تبصرے سے انکار کیا ہے۔
امریکا کے مطابق، فضیلت الشیخ ابو محمد امین الپشاوری عرف شیخ امین اللہ اس مدرسہ کو کنٹرول کرتے ہیں اور 2009ء میں امریکا اور اقوام متحدہ نے ان پر القاعدہ اور طالبان کو وسائل کی فراہمی کا الزام لگایا تھا۔
لیکن دو دہائیوں پہلے مدرسہ میں تبدیلی سے قبل اس مسجد کے بانی تراسی سالہ حاجی عالم شیر ان الزمات کی تدرید کرتے ہیں۔
انہوں نے رائٹز سے گفتگو میں بتایا کہ شیخ امین اللہ محض اس مدرسہ کے امام ہیں اور آٹھ مہینے قبل وہ یہاں سے جا چکے ہیں جس کے بعد ان کے بارے میں کوئی اطلاع نہیں ملی۔
انہوں نے کہا کہ "میں دہشت گردی کرنے والوں کی مذمت کرتا ہوں اور کبھی بھی خود کش بمباروں کی حمایت نہیں کروں گا۔"
امریکا نے اس مدرسہ پر اپنے طالب علموں کو شدت پسندی کی تعلیم دینے، دہشت گردی پر اکسانے اور انہیں بم تیار کرنے کی تربیت اور خود کش بمبار بنانے کا الزام عائد کیا ہے۔
امریکا کے مطابق، مدرسہ کے لیے جمع ہونے والے عطیات کی رقم طالبان جیسے شدت پسندوں کے کام آتی ہیں۔ جو اُسے افغانستان میں اپنی پُرتشدد کارروائیوں میں استعمال کرتے ہیں۔
تاہم مدرسہ کے پرنسپل مولانا محمد ابراہیم کہتے ہیں کہ ان کے اساتذہ کی توجہ کا مرکز مذہبی تعلیم ہے نہ کہ عسکریت پسندی۔
انہوں نے بتایا "یہ ایک مذہبی درسگاہ ہے جہاں طالبعلموں کو خالصتاً دینی تعلیم ہی دی جاتی ہے۔"
یہ مدرسہ شدت پسندی کے شکار قبائلی علاقوں کے قریب صوبائی دارالحکومت پشاور کے عین مرکز میں واقع ہے۔
مدرسہ پر معاشی پابندی کے اعلان کے بعد سے اطراف کے کچھ رہائشیوں کے دلوں میں مدرسہ پر امریکی حملے کا خوف پیدا ہوگیا ہے۔
خیال رہے کہ امریکا 2004ء سے افغان سرحد سے ملحقہ پاکستان کے قبائلی علاقوں میں شدت پسندوں کو ڈرون حملوں کا نشانہ بناتا آیا ہے۔
مدرسہ کے قریب ایک رہائشی سبز علی نے بتایا کہ بعض لوگ مدرسہ پر امریکی ڈرون حملوں کی باتیں کر رہے ہیں جس پر ہم سب کو بہت تشویش ہے۔












لائیو ٹی وی