• KHI: Clear 26.1°C
  • LHR: Clear 18.1°C
  • ISB: Partly Cloudy 13.5°C
  • KHI: Clear 26.1°C
  • LHR: Clear 18.1°C
  • ISB: Partly Cloudy 13.5°C

بشار کیمیائی حملوں کے ذمہ دار ہیں، یورپی یونین

شائع September 8, 2013

اے پی فوٹو --.
اے پی فوٹو --.

ولنئوس: یورپی یونین نے ہفتے کے روز شام میں 21 اگست کو ہونے والے کیمیائی حملے کا ذمہ دار شامی حکومت کو قرار دیا تاہم اس کے جواب میں امریکہ کے زیر قیادت حملے کی حمایت کرنے سے اجتناب برتا۔

یورپی یونین کی حکومتوں کے وزرائے خارجہ کی طرف سے احتیاط سے چنے گئے الفاظ پر مبنی پیغام میں کوئی فیصلہ کرنے سے پہلے اقوام متحدہ کے ہتھیاروں کے انسپکٹرز کی طرف سے رپورٹ کا انتظار کرنے کی اہمیت پر زور دیا گیا جس کے بارے میں فرانس کے صدر کا کہنا ہے کہ وہ اس  ہفتے کے اختتام تک آ سکتی ہے۔

گو کہ مذکورہ بیان سے فرانس کے اس موقف کی تائید ہوتی ہے کہ وہ یورپی یونین کو یہ باور کرانے میں کامیاب ہو گیا ہے کہ چودہ سو سے زائد افراد کی ہلاکت کا سبب بننے والے حملے کی ذمہ دار بشار الاسد کی حکومت ہے تاہم اس سے یہ بھی واضح ہو گیا کہ ایک بلاک اس حوالے سے اقوام متحدہ کے  مزید موثر کردار کا حامی ہے۔

یورپی یونین کی بہت سی حکومتوں نے اسد کو سزا دینے کے حوالے سے فوجی طاقت کے استعمال پر تحفظات کا اظہار کیا ہے جو کہ پہلے ہی پچھلے ڈھائی برس سے باغیوں سے جنگ میں مصروف ہیں جس میں ایک لاکھ سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔

اقوام متحدہ کے انسپکٹروں کی رپورٹ آنے سے پہلے، بہت سے ممالک نے امریکہ کی جانب سے شام پر بمباری کی مخالفت کی ہے جن میں جرمنی بھی شامل ہے جہاں پچھلے جعمرات کو ہونے والے رائے عامہ کے ایک جائزے میں ستر فیصد سے زائد شہریوں نے شام پر حملے کی مخالفت کی تھی۔

صدر اوبامہ کی جانب سے یہ کہے جانے کے بعد کہ واشنگٹن کو اسد اور دیگر کو کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال سے روکنے کے لئے فضائی حملے شروع کر دینے چاہئیں اور وہ کانگریس سے اس بات کی منظوری کے بعد ہی ایسا کریں گے، امریکہ اور یورپ میں اس حوالے سے بحث میں شدت آ گئی ہے۔

صدر اوبامہ نے یہ فیصلہ اس وقت لیا جب برطانوی پارلیمان نے برطانیہ کے حملے میں حصہ لینے کے خلاف ووٹ دیا جبکہ امریکہ میں رائے عامہ کے جائزوں سے بھی اس کی مخالفت میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے جس سے یہ بھی اشارہ ملتا ہے کہ فوجی حملہ کرنے کا حکم دے کر اوبامہ کسی حد تک اکیلے رہ جائیں گے۔

امریکی حکام نے یورپی یونین کے بیان کا خیر مقدم کرتے ہوئے اسے امریکہ کی زیر قیادت حملے کی حمایت میں اضافے کی علامت قرار دیا تاہم اس موقف سے ایک اور بات بھی عیاں ہوئی ہے کہ بہت سے ملکوں کو اس حوالے سے خدشات ہیں اور اگر یہ خدشات دور کئے جا بھی سکتے ہیں تو ان میں کتنا وقت لگ سکتا ہے۔

یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کی سربراہ کیتھرین اشٹن نے اٹھائیس ملکوں کے موقف کو دنیا کے سانے لانے کے لئے تیار کے گئے بیان کو پڑھتے ہوئے کہا کہ "ایسے جرائم ناقابل قبول اور کسی رعایت یا چھوٹ کے مستحق نہیں اور یہ اس کے لئے ایک واضح اور مضبوط ردعمل ضروری ہے۔

یورپی یونین نے اس موقع پر شامی بحران کے خاتمے کے حوالے سے اقوام متحدہ کے طریقہ کار کے تحت آگے بڑھنے کی ضرورت پر بھی زور دیا اور اس حوالے سے فرانسیسی صدر کی جانب سے اقوام متحدہ کی رپورٹ کا انتظار کرنے کے غیر متوقع فیصلے کا خیر مقدم کیا۔

ہتھیاروں کی رپورٹ اگلے ہفتے؟

فرانس کے صدر فرانکوئی ہولاندے کا کہنا ہے کہ مذکورہ رپورٹ اگلے ہفتے کے اختتام تک عوام کے سامنے پیش ہو سکتی ہے اور تجویز کیا کہ فرانس شاید اس معاملے کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں لے جائے جس کا مطلب ہو گا کہ معاملہ مزید طول پکڑ سکتا ہے۔

فرانس کے جنوب مشرقی شہر نیس میں اپنے لبنانی ہم منصب کے ساتھ ملاقات کے بعد، فرانسیسی صدر کا کہنا تھا کہ جب تک یعنی جعمرات یا جمعہ تک امریکی کانگریس بھی اس حوالے سے ووٹنگ کر چکی ہو گی اور انسپکٹروں کی رپورٹ بھی آ چکی ہو گی تب ہم اس حوالے سے کوئی فیصلہ کریں گے جس میں معاملہ اقوام متحدہ (سلامتی کونسل) بھی بھیجا جا سکتا ہے۔

امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے کہا کہ وہ یورپی یونین کی جانب سے اقوام متحدہ کی رپورٹ کا انتظار کرنے کی خواہش صدر اوبامہ تک پہنچا دیں گے تاہم انہوں نے واضح کیا کہ امریکی صدر کے لئے آپشنز کھلے ہیں۔

اشٹن کا کہنا تھا کہ لتھوینیا کے دارلحکومت میں وزراء کے اجلاس میں اس بات پر اتفاق کیا گیا کہ مختلف ذرائع سے حاصل شدہ معلومات سے اس بات کے مظبوط شواہد کی نشادہی ہوتی ہے کہ حملہ کی ذمہ دار شامی حکومت ہے۔

تاہم یورپی یونین کے وزراء کے بیان میں امریکہ اور فرانس کی جانب سے مجوزہ فوجی کارروائی کا کوئی باقاعدہ تذکرہ نہیں۔

اب تک یہ واضح نہیں ہو سکا ہے کہ اس حوالے سے کانگریس میں ووٹنگ کب ہو گی اور یہ کہ آیا کانگریس اس حوالے سے اوبامہ کو گرین سگنل دے گی بھی یا نہیں۔

گرمیوں کی چھٹیوں کے بعد، واشنگٹن لوٹنے والے بہت سے قانون سازوں کا کہنا ہے کہ بہت سے شہری امریکہ کی جانب سے فوجی جواب کے حق میں نہیں۔

کارٹون

کارٹون : 23 دسمبر 2025
کارٹون : 22 دسمبر 2025