مولانا کا خواب یا دوربینی؟

شائع September 16, 2013

اکوڑہ خٹک:  دارالعلوم حقانیہ میں طالب علموں کے لیے کھانا تیار کیا جا رہا ہے۔— رائٹرز
اکوڑہ خٹک: دارالعلوم حقانیہ میں طالب علموں کو پڑھایا جا رہا ہے۔— رائٹرز

اکوڑہ خٹک: جہاد کی یونیورسٹی کے طور پر جانے جانے والے مدرسہ کے سربراہ اور 'بابائے طالبان' کہلائے جانے والے مولانا سمیع الحق آج بھی ملا عمر کو 'فرشتہ' سمجھتے ہیں۔ 

بظاہر دھیمے لہجہ میں گفتگو کرنے والے سمیع الحق پاکستان اور افغانستان میں موجود طالبان میں انتہائی قدر کی نظر سے دیکھے اور بااثر سمجھے جاتے جاتے ہیں اگرچہ حال ہی میں سامنے آنے والی چند رپورٹس میں اس سلسلے میں شک کا اظہار بھی کیا گیا ہے۔۔

مولانا کی قایم کی ہویی دارالعلوم حقانیہ یونیورسٹی افغان سرحد جانے والی شاہراہ سے ہٹ کر ایک دھول اڑاتے چھوٹے سے علاقے اکوڑہ خٹک میں واقع ہے جسے نوے کی دہائی میں طالبان تحریک کا مرکز سمجھا جاتا ہے۔

یہ مولانا کا آبایی علاقہ ہے۔ مدرسہ کے وسیع و عریض کیمپس میں نیوز ایجنسی رائٹرز سے گفتگو کے دوران مولانا سمیع نے طالبان کے ساتھ اپنی ہمدردیوں کا کھل کر اظہار کیا تاہم مولانا سیکورٹی فورسز کے معاملے پر کھل کر بات نہیں کرتے جن کے ساتھ ان کے انتہایی قریبی روابط کے بارے میں بہت کچھ لکھا جاتا رہا ہے۔

طالبان جلد اقتدار حاصل کر لیں گے

مولانا کا اصرار ہے کہ طالبان جلد ہی افغانستان میں اقتدار حاصل کر لیں گے۔ 'آپ انہیں صرف ایک سال دے کر دیکھیں، وہ پورے افغانستان کو خوش کردیں گے، پورا افغانستان ان کے ساتھ ہو گا۔ بس ایک بار امریکیوں کے نکلنے کی دیر ہے، وہاں سے نکل گئے، یہ سب کچھ ایک سال کے اندر اندر ہو جائے گا'۔

طالبان کے ساتھ روابط اور ان کی حمایت میں اپنے خیالات کے کھلے عام اظہار کے باوجود ان کے مدرسہ کو پاکستان میں باقاعدہ طور پر تسلیم کیا جاتا ہے۔ اس طرح کے اشاروں کی وجہ سے مغربی قوتیں طالبان کے معاملہ پر اسلام آباد پر بھروسہ کرنے میں پس وپیش کا شکار رہتی ہیں اور اس موضوع پر دوہرے پاکستانی معیار کے متعلق دنیا بھر کے میڈیا میں قیاس آراییاں شایع ہوتی رہتی ہیں۔

اسلام آباد بظاہر تو ان الزامات کو سختی سے مسترد کرتا ہے لیکن دبے لفظوں میں افغانستان سے امریکی افواج کے انخلا کے بعد بڑھتے ہویے بھارتی اور پاکستان مخالف گروہوں کے اثر و رسوخ اور اپنے مفادات کے حوالے سے خدشات کا اظہار بھی کرتا آیا ہے۔ یاد رہے کہ صدیوں سے ان علاقوں میں رہنے والے پشتون قبایل پاکستان اور افغانستان کے درمیان قایم کردہ سرحد کے ذریعے منقسم ہیں۔

دوسری طرف افغانستان پاکستان پر اپنی سر زمین پر جنگجوؤں کو پناہ دینے اور دوہرا معیار اپنانے کے الزامات لگاتا آیا ہے۔ تاہم بظاہر تقسیم کیے گیے پشتون قبایل تاریخی اعتبار سے ہمیشہ مل کر جنگیں لرتے رہے ہیں۔

وہ غاصب نہیں بلکہ فرشتہ ہے

اسی کی دہائی میں دارالعلوم حقانیہ کے طالب علموں نے کتابوں کو ایک طرف رکھتے ہوئے بندوقیں تھامیں اور مدرسہ کے آہنی دروازے سے نکل کر سرحد پار افغانستان میں داخل ہو گئے۔ یہاں انہوں نے روس کے ساتھ لڑنے والے مجاہدین گروہوں میں شمولیت اختیار کی۔

انہی میں سے ایک ملا عمر تھے، جہنوں نے انیس سو نواسی میں سویت انخلاء کے بعد ملک بھر میں پھیلی افراتفری سے فائدہ اٹھاتے ہوئے طالبان تحریک شروع کی۔

اب دو ہزار چودہ میں افغانستان پر قابض امریکی قیادت میں لڑنے والی غیر ملکی فوجوں کے انخلاء کے بعد ایسی ہی صورتحال کے حوالے سے خوف پایا جاتا ہے۔

اپنے بہترین طالب علموں میں شامل ملا عمر کے ذکر پر مولانا کا چہرہ کھل جاتا ہے، لیکن وہ ملا عمر کے ٹھکانے کے بارے میں پوچھے گئے سوال کے جواب میں صرف مسکرا دیتے ہیں۔ ملا عمر کے بارے میں سمجھا جاتا ہے کہ وہ افغان سرحد سے ملحقہ پاکستان کی پشتون قبائلی علاقے میں کہیں روپوش ہیں۔

اردو اور پشتو زبان میں لیے جانے والے اس انٹرویو کے دوران انہوں نے ملا عمر کی تعریف کی: وہ نہ صرف متقی اور نیک مسلمان ہیں بلکہ مہمان نواز، سادہ لوح اور ذہین ہیں۔ وہ سیاست جانتے ہیں اور انہیں غیروں کی چالاکیوں کا بھی معلوم ہے۔ وہ غاصب نہیں بلکہ وہ تو فرشتہ نما انسان ہے'۔

استاد کا درجہ باپ کے برابر ہے

دارالعلوم حقانیہ سن انیس سو سینتالیس میں قائم کیا گیا یہ مدرسہ جنوبی ایشیا کے سب سے بڑے اور معتبر اسلامی اداروں میں سے ایک مانا جاتا ہے۔

اونچی دیواروں اور خاک دار تاروں کے ذریعے بیرونی دنیا سے کٹ کر رہنے والے اس کئی منزلہ مدرسہ میں چار ہزار طالب علم زیر تعلیم ہیں۔

مولانا کہتے ہیں کہ وہ اور ان کے مدرسہ کا دہشت گردی سے کوئی تعلق نہیں۔ بلکہ یہ کہ انہوں نے تو افغانستان میں امن قائم کرنے کے لیے امریکا اور عسکریت پسندوں کے درمیان مذاکرات تک کی پیشکش کر رکھی ہے۔ تاہم حال ہی میں کچھ تجزیہ کاروں نے اس بات کا اظہار بھی کیا ہے کہ مولانا اب طالبان میں اس قدر بااثر نہیں رہے جیسے کہ چند برس قبل تک ہوا کرتے تھے۔

مولانا سمیع الحق کو عربی زبان پر بھی اتنی ہی دسترس حاصل ہے جتنی کہ پشتو پر۔ ان کا کہنا ہے کہ پاکستان میں امریکی سفیر نے علاقے کی صورتحال پر جولائی میں ان سے ملاقات بھی کی تاہم انہوں نے سفیر کو واضح طور پر آگاہ کر دیا تھا کہ افغانستان سے غیر ملکی فوجوں کے انخلاء تک اس خطے میں امن ممکن نہیں۔

حقانی کہتے ہیں: جب تک امریکی یہاں ہیں، افغانوں کو اپنی آزادی کی جنگ لڑنی ہو گی۔ یہ آزدی کی جنگ ہے اور اس وقت تک ختم نہیں ہو گی جب تک غاصب چلے نہیں جاتے'۔

'افغانوں کی اپنی آزادی کی جنگ لڑنے دی جائے۔ غیر ملکی طاقتیں یہاں سے نکل جائیں اور پھر انہیں اپنی مرضی کرنے دیں'۔

جب حقانی سے پوچھا گیا کہ آیا طالبان ان کی بات سنیں گے؟ تو ان کا کہنا تھا: وہ میرے طالب علم ہیں، ہماری روایات میں استاد کا درجہ باپ اور روحانی رہنما کا ہوتا ہے۔

تبصرے (1) بند ہیں

Muhammad Shakeel Khan Sep 16, 2013 06:17am
Dear Sir, Let me draw your kind attention towards the following points: 1. Darul Uloom Haqqania, Akora Khattak has been established by Maulana Abdul Haq (The father of Maulana Samiul Haq). Please make correction as you wrongly mentioned in the start of second paragraph. 2.اونچی دیواروں اور خاک دار تاروں کے ذریعے بیرونی دنیا سے کٹ کر رہنے والے اس کئی منزلہ مدرسہ There are no tall boundary walls and barbed wires at all. Please visit Darul Uloom Haqqania and you would not see Tall boundary walls and barbed wires which cut off this place from the rest of the World. 3. The news report is biased lacks facts and figures.

کارٹون

کارٹون : 23 دسمبر 2025
کارٹون : 22 دسمبر 2025