۔۔۔فائل فوٹو۔
۔۔۔فائل فوٹو۔

کراچی: سندھ رینجرز کے ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) جمعرات کو اپنے اس بیان سے منحرف ہو گئے کہ سابق پورٹس اینڈ شپنگ منسٹر، سینیٹر بابر غوری افغانستان میں امریکی قیادت میں  برسرپیکار نیٹو افواج کے لیے لائے گئے اسلحے اور گولہ بارود سے بھرے انیس ہزار کنٹینرز کی گمشدگی میں ملوث ہیں۔

انہوں نے سپریم کورٹ کو آگاہ کیا کہ وہ خود تفتیش کروانا چاہتے تھے کہ آخر اس وقت پورٹس اینڈ شپنگ کی وزارت میں کون ان معاملات کا ذمہ دار تھا۔"

رینجرز کے سربراہ کے اس سے پہلے دیے گئے بیان پر متحدہ قومی موومنٹ نے معزز عدالت سے اس دعوے کو رد کرنے کی درخواست کی تھی، جبکہ امریکی سفارتخانے نے بھی انٹرنیشنل سیکورٹی اسسٹنس فورس کے انیس ہزار کنٹینرز کی چوری کے دعوے کو مسترد تھا۔

عدالت نے بھی رینجرز کے ڈی جی کے مذکورہ بیان کے بعد، ان الزامات کی تحقیقات کے لیے ایک کمشنر مقرر کیا تھا جس میں میجر جنرل رضوان اختر نے کہا تھا "اس دور میں اسلحے اور گولہ بارود کی بھاری مقدار اس وقت کے شپنگ منسٹر کی ملی بھگت کے نتیجے میں کراچی لائی گئی۔"

مذکورہ ایک رکنی کمیشن، جس کے لیے سابق کسٹمز افسر، رمضان بھٹی کو سپریم کورٹ نے ہدایت کی تھی کہ وہ یہ بھی تجویز کریں کہ ذمہ دار افراد کے خلاف کیا کارروائی عمل میں لائی جائے۔ جمعرات کو مذکورہ کمیشن نے عدلت کے ایک بینچ میں اپنی رپورٹ جمع کرا دی جس کی سربراہی چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کر رہے ہیں۔

یہ بینچ کراچی میں بدامنی کے حوالے سے ازخود نوٹس کیس کے فیصلے پر عملدرآمد کا جائزہ لینے کے لیے تشکیل دیا گیا تھا۔ بینچ کے دیگر ممبران میں جسٹس جواد ایس خواجہ، جسٹس خلجی عارف حسین، جسٹس امیر ہانی مسلم اور جسٹس عظمت سعید شامل ہیں۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ رینجرز کے ڈی جی نے کمیشن کے سوال کے جواب میں عدالت میں اپنے ریکارڈ شدہ بیان کی تردید کی "لہٰذا اس بات کی کوئی ضرورت محسوس نہیں کی گئی کہ اس وقت کے پورٹس اینڈ شپنگ منسٹر کی مبینہ ملی بھگت کے بارے میں مزید تفتیش کی جائے۔"

اس رپورٹ کے مطابق ڈی جی رینجرز نے دعویٰ کیا ہے کہ سپریم کورٹ میں دیے گئے ان کے بیان میں وفاقی حکومت کے کسی منسٹر کا نام نہیں لیا گیا تھا، بلکہ صرف اتنا کہا تھا کہ اس بات کی تحقیقات ہونی چاہئیے کہ اس وقت پورٹس اینڈ شپنگ کی وزارت کے معاملات کون دیکھ رہا تھا۔

کمیشن کی تحقیقات سے اس بات کا بھی انکشاف ہوا ہے کہ شاید ہی کبھی اسلحہ اور گولہ بارود سمندری راستے سے لایا گیا ہو کیونکہ بندرگاہ اور گہرے سمندر میں موجود تمام خفیہ ایجنسیوں نے اس بات کی کلی طور پر تردید کی ہے کہ انہیں کبھی بھی اسلحہ اور گولہ بارود کی سمندری راستے اسمگلنگ کے بارے میں نہ تو کبھی کوئی معلومات ملیں اور نہ اس حوالے سے کسٹمز کو ایسی معلومات فراہم کی گئیں۔

تاہم کمیشن نے اس خیال کا اظہار کیا کہ سیکورٹی اور خفیہ ایجنسیوں کے دعوے کے باوجود یہ ممکن ہے کہ پڑوسی جارح ملکوں سے اسلحہ بارود عام مال بردار بحری جہازوں سے لایا جائے اور جو گہرے سمندر میں رک کر وہ اسلحہ اور بارود چھوٹی کشتیوں میں منتقل کر دیں، جنہیں باآسانی ساحل پر کسی بھی جگہ لنگر انداز کرکے وہ سامان اُتارا جاسکتا ہے۔

رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا کہ کسٹمز کے چیف کلیکٹر ساؤتھ نے کمیشن کو آگاہ کیا تھا کہ ساحل پر ایسے 39 مقامات موجود ہیں جہاں فشنگ بوٹس آسانی سے کارگو اتار اور چڑھا سکتی ہیں اور ان میں سے صرف سات مقامات پر کسٹمز حکام موجود ہیں جبکہ بقیہ مقامات کی نگرانی میری ٹائم سیکورٹی ایجنسی اور پاکستان کوسٹ گارڈز کے ذمے ہے۔

قانون نافذ کرنے والے اداروں نے یہ بھی بتایا کہ کراچی میں پرتشدد کارروائیوں میں زیادہ تر تیس بور اور نائن ایم ایم کا اسلحہ استعمال ہو رہا ہے جو کہ یا تو مقامی سطح پر تیار کیا جاتا ہے یا پھر وہ چین میں بنتا ہے۔

تاہم پشاور کے کسٹمز کلیکٹر نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ روسی ساختہ اے کے-47 (کلاشنکوف) اور امریکی ساختہ دوسرے چھوٹے ہتھیار خیبر پختونخواہ سے ملحقہ قبائلی علاقوں میں فروخت ہو رہے ہیں۔

رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ڈائریکٹر انٹیلی جنس اینڈ انویسٹیگیشن (کسٹمز) نے یوسف گوٹھ اور سہراب گوٹھ میں قائم اسمگلنگ کے اڈوں کا جائزہ لیا ہے اور اسلحہ، گولہ بارود اور دیگر ممنوعہ اشیاء کی دستیابی کے بارے میں اطلاع دی ہے۔

اس سے پہلے سندھ کے ایڈووکیٹ جنرل، خالد جاوید خان نے کراچی میں امن و امان کی صورتحال کی بہتری کے لیے اٹھائے جانے والے اقدامات کے بارے میں ایک رپورٹ جمع کرائی جس میں کہا گیا کہ رینجرز اور پولیس کی جانب سے شروع کیے جانے والے آپریشن کے بعد، کراچی میں صورتحال واضح طور پر بہتر ہوئی ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ شہر میں ہندوستانی، اسرائیلی، امریکی اور روسی ساختہ اسلحہ استعمال ہو رہا ہے۔ انہوں نے زور دیا کہ پولیس اور قانون نافذ کرنے والے ادارے شہر کو ناجائز اسلحے سے پاک کریں اور اس مقصد کے حصول کے لیے انتہائی اقدامات سے بھی گریز نہیں کرنا چاہئے جس میں کرفیو کا نفاز بھی شامل ہے۔

جج صاحبان کا کہنا تھا کہ 1992ء اور 1996ء کے دوران کراچی میں پولیس حکام کو قتل کیا گیا تھا، لیکن ان ہلاکتوں میں ملوث افراد کو پکڑنے میں پولیس ناکام رہی۔

وفاقی اور صوبائی حکومت کی جانب سے کراچی بدامنی از خود نوٹس کیس کے فیصلوں پر عملدرآمد نہ کرنے پر معزز عدالت نے ایک بار پھر اپنی ناراضگی اور برہمی کا بھی اظہار کیا۔

ایک جج کا کہنا تھا کہ مذکورہ کیس کے حوالے سے عدالت نے حکام کو بیس احکامات جاری کیے تھے جن میں سے سوائے مقتول پولیس حکام کے ورثاء کو معاوضہ کی ادائیگی کے علاوہ کسی بھی حکم پر عمل درآمد نہیں ہوسکا۔

اٹارنی جنرل منیر اے ملک نے وفاقی حکومت کی جانب سے ایک مہربند رپورٹ عدالت میں جمع کرائی اور اسے خفیہ رکھنے کی درخواست کی۔

بینچ اپنی کاروائی جمعہ کو جاری رکھے گا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (1) بند ہیں

ilyasansari Sep 20, 2013 06:46am
سپریم کورٹ کو ڈی جی رینجرز کے خلاف سخت ایکشن لینا چاھئے