ٹوٹ بٹوٹ ان ترکی
گئے دنوں کی بات ہے، صوفی غلام مصطفی کا کردار ٹوٹ بٹوٹ گاؤں سے شہر پہنچا تو بہت مایوس ہوا۔ شہر کا کھمبا اتنا ہی لمبا تھا جیسے وہ گاؤں میں چھوڑ آیا تھا، شہر کی بلی بھی ویسی ہی کالی نکلی۔
کچھ ایسا ہی اتفاق ہمیں گزشتہ دنوں ترکی کے دورے کے دوران ہوا۔ استنبول کے ہوائی اڈے سے نکلتے ہی عالی شان سڑکوں اور رنگ برنگ شاپنگ پلازوں نے ہمارا استقبال کیا۔
کھانا کھانے کا وقت آیا تو وہی کوفتے اور پلاؤ اور سبزی اور شوربہ جو ہم اپنے مطابق وطن میں ہی چھوڑ آئے تھے، ہمارے سامنے آکھڑے ہوئے(یعنی ترکی زبان میں ان اشیاء کو تقریباَ انہی ناموں سے پکارا جاتا ہے)۔
میٹرو بس بھی موجود تھی اور ٹریفک بھی اسی طور افراتفری کا شکار تھا جیسے شہر لاہور کی روایت ہے۔ فرق پڑا تو صرف اتنا کہ بس کا رنگ ذرا مختلف اور افراتفری کی شرح کچھ کم تھی۔
ترکی کے سرخ جھنڈے ہر سو لہرا رہے تھے اور کمال اتاترک کی تصاویر کچھ زیادہ ہی کثرت سے موجود تھیں۔
ترکی کے عوام البتہ ہم سے کئی گنا زیادہ حسن کے حامل ہیں اور شائد اسی وجہ سے ترکی ڈرامے ہمارے ملک میں بہت مقبول ہیں۔
ہم نے پہلی دفعہ ترکی کا ذکر اپنی مطالعہ پاکستان کی کتابوں میں تحریک خلافت کے ضمن میں سنا اور بعدازاں انہی کتابوں میں پاکستان اور ترکی کے برادرانہ تعلقات کی داستان پڑھی۔
تاریخ کا سبق پڑھنا شروع کیا تو معلوم ہوا کہ ہند کے مسلمان تحریک خلافت کے دوران جہالت کا شکار رہے اور مصطفی کمال کی بجائے مغربی قوتوں کے پٹھو خلیفہ کے حق میں نعرے بلند کرتے رہے، حالانکہ برصغیر کبھی بھی کسی خلافت کا باقاعدہ حصہ نہیں رہا تھا۔
حمزہ علوی صاحب کے مطابق اس تحریک کے دوران پہلی دفعہ مولوی حضرات کو سیاسی میدان میں قدم رکھنے کا موقعہ ملا اور ایک صدی گزرنے کے بعد بھی ہم اس عمل کا خمیازہ بھگت رہے ہیں۔
پاکستان کی ترکی کو بھی جمہوری سفر میں بہت سے پیچیدہ مراحل سے گزرنا پڑا۔ وہاں بھی چار دفعہ فوج نے حکومت پر قبضہ کیا اور سیاسی عمل کو متاثر کیا۔
پچھلی ایک دہائی میں وہاں موجود حکمران جماعت نے فوج کو بتدریج سیاست سے دور کیا اور ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کیا۔ اس وقت ترکی، مشرق وسطی کے تمام ممالک سے معاشی اور سیاسی طور پر بہتر حالت میں ہے اور عالمی سطح پر اسکی حیثیت میں حیرت انگیز اضافہ دیکھنے کو ملا ہے۔
ترکی کی اسلام پسند حکمران جماعت نے کئی سال اقتدار کے بعد کچھ رنگ دکھانے شروع کیے ہیں البتہ ان کوششوں کو شدید مخالفت کا سامنا کرنا پڑا۔
ترکی کی نئی اور پرانی نسلیں مذہب اور سیاست کے امتزاج کو سختی سے ناپسند کرتے ہیں اور اس ضمن میں کئے گئے حکومتی اقدامات کے نتیجے میں ہی تکسیم سکوائر جیسے مظاہرے ہوئے۔
ہمارے مشاہدے کے مطابق ترکی میں مذہب کے معاملے میں کوئی سختی نہیں اور اسے شخصی معاملہ سمجھا جاتا ہے (یعنی وہاں آپ اپنی مسجدوں، اپنے مندروں، اپنے کلیساؤں میں جانے کے لیے آزاد ہیں اور ریاست کا آپ کے مذہبی نظریات سے کوئی واسطہ نہیں)۔
ہمیں پاکستان کے گھٹن زدہ ماحول سے چند روز نجات پا کر مسرت تو ہوئی لیکن اپنے وطن کی بگڑتی ہوئی حالت کے بارے میں سوچ کر تکلیف بھی پہنچی۔
ہم ایک کانفرنس میں شرکت کے لیے ترکی گئے تھے اور وہاں پوری دنیا سے سفیر اور بین الاقوامی امور کے طلباء موجود تھے۔ اپنے ہم عصروں کی صحبت میں بہت کچھ سیکھنے کو ملا۔ استنبول میں چند پاکستانی بھائیوں سے ملاقات ہوئی اور یہ دیکھ کر افسوس ہوا کہ اتنے شاندار ملک میں کئی سال گزارنے کے بعد بھی ان حضرات کی سوچ ابھی تک تنگ نظری اور تعصب کا شکار ہے۔
ایک صاحب نے تکسیم کے مظاہرین کو ’مسلمانوں‘ کے خلاف مظاہرہ قرار دیا اور ایک صاحب نے اتاترک کے مزار پر تصاویر دیکھ کر حیرت کا مظاہرہ کیا۔
ترکی، اور خصوصی طور پر استنبول شہر قدیم اور جدید کے خوبصورت امتزاج کا ایک شاندار نمونہ ہے۔ استنبول میں قدیم نوادرات بہت احسن طریقے سے سنبھالے گئے ہیں۔ تاریخ کے طالب علم کی حیثیت سے ہمیں پاکستان کے علاوہ دنیا کے ہر ملک میں تاریخ کی حفاظت کیے جانے کا سوچ کر ہی شرمندگی کا احساس ہوتا ہے۔
ایک زمانہ تھا کہ پاکستانیوں کو ترکی جانے کے لیے ویزہ کی بھی ضرورت نہیں ہوتی تھی لیکن ہم نے اس نرمی کا ناجائز فائدہ اٹھایا اور غیر قانونی طور پر یورپ میں داخل ہونے کے لیے ترکی کا راستہ اختیار کیا۔
ہمارے ناقص خیال میں حکومت پاکستان کو ترکی سے صرف میٹرو بس اور ڈرامے ہی نہیں بلکہ کچھ سیاسی اسباق بھی درآمد کرنے چاہئیں۔ چند کنٹینر مذہبی رواداری اور برداشت کے بھی منگوا لیے جائیں تو کچھ مضائقہ نہیں۔
عبدالمجید کا تعلق سیالکوٹ سے ہے اور انہیں تاریخ، سیاست اور معاشیات کے مضامین میں دلچسپی ہے۔












لائیو ٹی وی
تبصرے (2) بند ہیں