کالعدم ٹی ٹی پی کا وادی تیراہ میں شہریوں کو انسانی ڈھال کے طور پر استعمال نہ کرنے پر اتفاق
کالعدم تنظیم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے رہنماؤں نے اتفاق کیا ہے کہ وہ سیکیورٹی فورسز کے خلاف کارروائی میں عام شہریوں کو انسانی ڈھال کے طور پر استعمال نہیں کریں گے، اور نہ ہی خیبر کے قبائلی ضلع کی پرآشوب وادی تیراہ میں زکوٰۃ اور عشر کے نام پر کسی سے رقم وصول کریں گے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق کالعدم ٹی ٹی پی کے لیٹر ہیڈ پر پشتو زبان میں تحریر کردہ اور اس کی ’سپریم کونسل‘ (رہبر شوریٰ) کی مہر کے ساتھ 5 نکاتی معاہدہ بار قمبرخیل کے ایک بزرگ نے مقامی قبائلیوں کے ایک اجتماع میں پڑھ کر سنایا۔
یہ معاہدہ مقامی قبائلیوں کے اس مطالبے کے جواب میں پیش کیا گیا کہ وہ عام قبائلیوں کے خلاف دشمنی ختم کریں اور امن کی بحالی کے لیے تیراہ سے نکل جائیں۔
تاہم معاہدے میں تیراہ سے انخلا کا کوئی ذکر نہیں کیا گیا۔ کالعدم ٹی ٹی پی کے رہنماؤں نے سیکیورٹی فورسز کے خلاف اپنی مسلح جدوجہد جاری رکھنے کے عزم کا اظہار کیا اور کہا کہ وہ ان افراد کو سزا دیں گے جو سیکیورٹی فورسز کے حامی ہوں یا ان کے خلاف جاسوسی کے مرتکب ہوں۔
معاہدے میں کہا گیا کہ ہمارا واحد مقصد اسلام دشمن قوتوں اور ان کے حامیوں کے خلاف مسلح جدوجہد (جہاد) ہے، جس کے لیے ہمیں مسلمانوں کی ہمدردی اور مدد کی اشد ضرورت ہے، ہم مقامی لوگوں کے اندرونی و ذاتی معاملات میں مداخلت کو نامناسب سمجھتے ہیں اور اپنے رضاکاروں کو اس سے سختی سے باز رہنے کی ہدایت کی ہے۔
مقامی جرگے اور کالعدم تنظیم کے مابین معاہدہ
معاہدے میں یہ واضح کیا گیا کہ کالعدم ٹی ٹی پی کے ارکان کسی ذاتی مکان کو سیکیورٹی فورسز کے خلاف پناہ گاہ یا مورچے کے طور پر استعمال نہیں کریں گے، تاہم اگر فورسز انہیں ایسے کسی گھر میں پکڑنے یا ختم کرنے کی کوشش کریں گی تو وہ مزاحمت کریں گے۔
معاہدے میں دعویٰ کیا گیا کہ کوئی بھی کالعدم ٹی ٹی پی کا رکن مقامی لوگوں سے عشر یا زکوٰۃ کے نام پر پیسے لینے کا مجاز نہیں، اور اگر کسی کے خلاف شکایت درج کی گئی تو سخت کارروائی کی جائے گی۔
کالعدم ٹی ٹی پی رہنماؤں نے معاہدے کے ذریعے اس بات پر بھی اتفاق کیا کہ وہ کسی کو اغوا یا تشدد کا نشانہ نہیں بنائیں گے، کیونکہ وہ اسے اپنی ’مقدس مسلح جدوجہد‘ کے لیے نقصان دہ اور غیر ذمہ دارانہ فعل سمجھتے ہیں۔
یہ بھی طے پایا کہ مقامی افراد کے قتل یا اغوا و تشدد جیسے الزامات کی شریعت کے مطابق تحقیقات کی جائیں گی، اور اس کے لیے مقامی بزرگوں کو ثبوت فراہم کرنا ہوں گے۔
یہ معاہدہ منگل کو بار باغ کے علاقے میں کالعدم ٹی ٹی پی اور بار قمبرخیل قبیلے کے نمائندہ جرگے کے درمیان طے پایا، ان کے درمیان مذاکرات کا پہلا دور 28 جولائی کو ہوا تھا، جس میں ٹی ٹی پی کے مقامی کمانڈروں نے کہا تھا کہ وہ جرگے کے مطالبات اپنی قیادت کو افغانستان میں پہنچائیں گے اور 5 اگست تک جواب دیں گے۔
ویڈیو فوٹیجز میں قمبرخیل کے بزرگوں کو یہ مطالبہ کرتے ہوئے دکھایا گیا کہ وہ بے گناہ مقامی افراد کے خلاف ہر قسم کی دشمنی ختم کریں اور تمام جنگجو گروہوں کا تیراہ سے مکمل انخلا عمل میں لائیں، یہ مطالبہ ایک کمسن بچی کی ہلاکت اور 2 معذور بھائیوں کے زخمی ہونے کے واقعات کے بعد سامنے آیا، جب ان کے والدین نے عشر دینے سے انکار کیا تھا۔
ان واقعات کے بعد مقامی قبائل کی جانب سے بڑے پیمانے پر احتجاج کیا گیا اور سیکڑوں قمبرخیل قبائلیوں نے قرآن پاک ہاتھوں میں اٹھا کر ٹی ٹی پی کے مرکز کا گھیراؤ کیا اور ان سے علاقہ چھوڑنے کا مطالبہ کیا۔
اس کے بعد قمبرخیل جرگے نے اعلان کیا کہ جو بھی کالعدم ٹی ٹی پی کو غیرقانونی پیسے دے گا اس پر 50 لاکھ روپے جرمانہ عائد کیا جائے گا، اور جو شخص جرگے کا ساتھ نہیں دے گا اس پر 5 لاکھ روپے کا جرمانہ ہوگا۔
سوشل میڈیا پر ردعمل میں تیراہ اور باڑہ کے متعدد رہائشیوں نے اس معاہدے کو ’آنکھوں میں دھول جھونکنے‘ کے مترادف قرار دیا، کیونکہ اس میں ٹی ٹی پی کے انخلا کا کوئی ذکر نہیں تھا۔
کچھ لوگوں نے یہ سوال بھی اٹھایا کہ جب قمبرخیل جرگہ دو بار ٹی ٹی پی رہنماؤں سے ملاقات کر چکا تو سیکیورٹی فورسز انہیں تیراہ میں کیوں تلاش نہیں کرتیں اور ان کے خلاف کارروائی کیوں نہیں کرتیں۔
تاہم، تیراہ کے بیشتر رہائشیوں نے اس معاہدے کا خیرمقدم کیا اور امید ظاہر کی کہ مسلح گروہ ان کے ساتھ کیے گئے وعدوں کی خلاف ورزی نہیں کریں گے اور انہیں مزید نقصان نہیں پہنچائیں گے۔











لائیو ٹی وی