• KHI: Partly Cloudy 20.5°C
  • LHR: Partly Cloudy 15.1°C
  • ISB: Partly Cloudy 11.7°C
  • KHI: Partly Cloudy 20.5°C
  • LHR: Partly Cloudy 15.1°C
  • ISB: Partly Cloudy 11.7°C

وہ دہشت گردوں، مجرموں اور نفرت سے لڑ رہی ہیں

شائع October 21, 2013

21-10-13-Pakistans women police fight criminals, militants and scorn 670
ایبٹ آباد پولیس اسٹیشن میں انسپکٹر شہزادی گیلانی اپنے اسٹاف کے ایک اہلکار سے بات کررہی ہیں۔ —. فوٹو رائٹرز

ایبٹ آباد: پاکستان کے سب سے زیادہ قدامت پسند صوبے کی اعلیٰ درجے کی خاتون پولیس افسر شہزادی گیلانی کو پولیس فورس میں شامل ہونے کے لیے اپنے والد کے حکم کی نافرمانی کرنی پڑی، ان کی شادی نہیں ہوسکی اور بنیادی تربیت کے اخراجات انہیں خود اُٹھانے پڑے۔

اگلے انیس سالوں کے دوران انسپکٹر شہزادی گیلانی اور ان کی وفادار قریبی ساتھی رضوانہ ظفر ڈاکوؤں سے ، زلزلوں اور دہشت گردوں کا مقابلہ کرتی رہیں۔ رضوانہ کے والد آٹھ بیٹیوں کی پیدائش پر دل برداشتہ تھے، چنانچہ انہوں نے رضوانہ کو ایک لڑکے کی طرز پر تربیت کی۔

شہزادی گیلانی کے صوبے خیبر پختونخوا کے شمالی علاقوں میں طالبان کا اثر اس قدر پھیل گیا ہے کہ جب وہ ان علاقو٘ں کا سفر کرتی ہیں تو انہیں بھی ایسا بُرقعہ پہننا پڑتا ہے، جس میں سر سے پیر تک پورا جسم چھپا ہوتا ہے اور آنکھوں کے لیے باریک باریک سوراخ بنے ہوتے ہیں۔ رضوانہ نقلی مونچھیں لگا کر ان کی سرپرست کی طرح ہمراہ ہوتی ہیں۔

لیکن یہ بھی ایک دلچسپ حقیقت ہے کہ خواتین کے لیے یہ بڑا چیلنج ہی پولیس میں خواتین کی نئی بھرتیوں میں مدد بھی کررہا ہے۔

صوبے میں پولیس فورس کے ساٹھ ہزار سپاہیوں میں خواتین کی تعداد ابھی محض 560 تک محدود ہے۔ پولیس کے سربراہ کو امید ہے کہ ایک سال کے اندر اندر یہ تعداد دُگنی ہوجائے گی، لیکن کام کی دشوار صورتحال نے بھرتیوں کو بھی سخت بنادیا ہے۔

محدود نوعیت کی کچھ کامیابیاں بھی حاصل ہوئی ہیں، جیسے کہ جرمنی نے تین تربیتی کالجوں میں خواتین کے ہاسٹلوں کے لیے امداد فراہم کی ہے۔

اب پولیس میں بھرتی ہونے والی خواتین کو بنیادی تربیت کے لیے سالوں کا انتظار نہیں کرنا پڑے گا۔ اس سال گرمیوں میں صوبے میں 60 تھانوں میں جہاں مرد تعینات ہیں، خواتین کی شکایتی ڈیسک شروع کی گئی ہیں۔

بہت سی پاکستانی خواتین کو تشدد کی پریشان کن صورتحال کا سامنا کرنا پڑتا ہے، اور حکام کو امید ہے کہ زیادہ تر متاثرہ خواتین اس سہولت سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے اپنے اوپر ہونے والے حملوں کی رپورٹ کریں گی۔ مروجہ رسم و رواج انہیں مرد افسروں سے بات کرنے سے روک دیتے تھے۔

صوبے میں 1994ء کے دوران خواتین کے دو پولیس اسٹیشن کھولے گئے تھے، لیکن وہ وسائل اور ذمہ داری کی کمی کی وجہ سے زیادہ عرصے تک نہیں چل سکے۔

رضوانہ ظفر جو اس وقت کراٹے کی اسپورٹس یونیفارم پہنے ہوئی تھیں، کہنے لگیں کہ ”ہم اپنے کام کے دوران ایک جنگ لڑ رہے ہیں۔ہم اپنے جونیئر ساتھیوں کی مدد کررہے ہیں، لیکن ہماری مدد کرنے کے لیے کوئی بھی نہیں تھا۔“

اسکول کی طالبعلم سے ایک پولیس اہلکار تک:

جب شہزادی گیلانی اسکول کی طالبعلم تھیں، تو وہ اپنے والد کی طرح فوج میں شامل ہونا چاہتی تھیں۔ لیکن انہوں نے فوج میں بھرتی ہونے نہیں دیا، لہٰذا شہزادی نے فوج کے بجائے پولیس میں بھرتی ہونے کی تجویز اُن کے سامنے رکھی، ان کے والد اور ان کے سات بھائیوں کو  ان کی اس تجویز پر حیرت کا شدید جھٹکا لگا تھا۔

شہزادی گیلانی جن کی کیپ سے ان کے بال باہر جھانک رہے تھے، نے بتایا ”انہوں نے کہا کہ پولیس خواتین کی عزت نہیں کرتی۔ میری بہت زیادہ مخالفت کی گئی۔“

ایک ہفتے کی بھوک ہڑتال کے بعد اور ان کی والدہ جو کالج میں لیکچرار ہیں، کے سمجھانے پر شہزادی کے والد نے راضی ہوگئے، لیکن انہوں نے تین شرائط ان کے سامنے رکھیں، اوّل بہادر بنوگی، دوم تمہاری ملازمت ہی تمہاری شادی ہوگی، اور سوم اپنے ساتھ اپنی کوئی دوست بھی لے جاؤ گی۔ چنانچہ شہزادی گیلانی نے اپنی دوست رضوانہ ظفر کو بھی اپنے ساتھ بھرتی کروالیا۔

رضوانہ ظفر نے اپنے بال چھوٹے کر رکھے ہیں اور وہ لڑکوں کی طرز کے کپڑے پہنتی ہیں۔ انہوں نے موٹر سائیکل چلانا، کمپیوٹر استعمال کرنا، اور انجن فٹ کرنا بھی سیکھ رکھا ہے۔ وہ شہزادی کی باڈی گارڈ، معاون اور دوست ہیں۔

رضوانہ ظفر نے کہا ”میں کھانا نہیں پکاتی، مجھے لڑکیوں کی طرح کپڑوں کا شوق نہیں ہے۔ میں کسی سے نہیں ڈرتی سوائے خدا کے۔ ہم ایک دوسرے کی حفاظت کرتی ہیں، اور ایک دوسرے کی نگہبانی بھی۔ جب ہم میں سے ایک سورہی ہوتی ہے تو دوسری جاگتی ہے۔“

جب زلزلے سے ان کا قصبہ بالکل تباہ ہوگیا تھا تو ان کے خیمے میں ان کے ایک ساتھی نے داخل ہونے کی کوشش کی تو رضوانہ اور شہزادی نے مل کر اس کا مقابلہ کیا تھا۔

جب شہزادی نے پولیس کے محکمے میں شمولیت اختیار کی تو اس وقت خواتین پولیس کی عزت نہیں کی جاتی تھی، لیکن خواتین فوجیوں کی عزت ہوتی تھی۔

21-10-13-Pakistans women police fight criminals, militants and scorn1 670
پولیس انسپکٹر شہزادی گیلانی کہتی ہیں کہ تبدیلی معاشرے کے ہر فرد کے لیےایک چیلنج ہوتی ہے۔ —. فوٹو رائٹرز

شہزادی گیلانی کی تربیت کے اخراجات تقریباً سوا دو لاکھ پاکستانی روپے کے لگ بھگ تھے، یہ رقم آٹھ سالوں کے بعد واپس ملنی تھی۔

ہر ایک کے والد کی مالی استطاعت مضبوط نہیں ہوتی، روزیہ الطاف نے سولہ سال پہلے پولیس کا محکمہ جوائن کیا تھا۔ انہوں نے اپنی بنیادی تربیت کے لیے پچاس سے زیادہ درخواستیں دی تھیں، اور چھ سال تک انتظار کیا تھا۔

اس وقت وہ صوبائی دارالحکومت پشاور میں خواتین پولیس اسٹیشن کی سربراہ ہیں،ان کا کہنا ہے کہ معمولی ہی سہی لیکن چیزیں تبدیل ہوئی ہیں۔

انہوں نے انکاریہ انداز میں ہاتھ لہراتے ہوئے کہا کہ ہمیں نظرانداز کردیا گیا تھا، لیکن اب میں اس بات کو یقینی بنارہی ہوں کہ میری جونیئر آفیسرز وقت پر تربیت اور ترقی حاصل کرسکیں۔

پشاور کے خواتین پولیس اسٹیشن پر ایک سال میں تقریباً پچاس شکایتیں درج کرائی جاتی ہیں، جو مردوں کے پولیس اسٹیشن کے مقابلے میں کہیں کم ہے۔

ایبٹ آباد کے خواتین پولیس اسٹیشن پر 2005ء میں آخری رپورٹ درج کرائی گئی تھی۔ اس اسٹیشن کی سربراہ ثمینہ ظفر جس میز کے ساتھ بیٹھی تھیں، وہ بالکل خالی تھی اور ان کے کمرے میں ایک واحد بلب روشن تھا۔

انہوں نے کہا کہ ہمیں بہتر سہولیات نہیں دی جاتی ہیں۔ میں اس جگہ کو مردوں کے پولیس اسٹیشن کی طرح دیکھنا چاہتی ہیں۔

حملہ آوروں پر شاذونادر ہی مقدمہ چلایا جاتا ہے:

پروفیسر منگائے نٹاراجن جو خواتین کے پولیس اسٹیشنوں پر ریسرچ کررہی ہیں، کہتی ہیں کہ خواتین، خواتین افسروں پر ہی بھروسہ کرتی ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ ہندوستان کی تامل ناڈو ریاست کے خواتین پولیس اسٹیشنوں میں گھریلو تشدد کے دو تہائی کیس ہی رپورٹ کیے جاتے ہیں۔ پولیس کی ثالثی سے نصف شکایتیں کم ہوجاتی ہیں، لیکن پاکستان میں ایسے اعدادوشمار دستیاب نہیں ہیں ۔

خیبر پختونخوا میں خواتین ڈیسک کو چند دنوں میں ایک شکایت موصول ہوتی ہے، ان میں سے زیادہ تر گھریلو تشدد سے متعلق ہوتی ہیں۔

عام طور پر خواتین پر تشدد کرنے والے فرد کے ساتھ  محض ڈانٹ ڈپٹ ہی کی جاتی ہے۔ یوں متاثرہ خواتین کے لیے تشدد کے مزید خطرات بڑھ جاتے ہیں۔ لیکن اب بھی بہت سے مرد پولیس اہلکاروں کا کہنا ہے کہ پولیس کے محکمے میں شامل ہونے کے لیے تیار کوئی بھی خاتون اس کی اہلیت نہیں رکھتی۔

ایک سینیئر آفیسر نے کہا کہ پولیس فورس میں شامل ہونے والی خواتین اپنی عزت کا خیال نہیں رکھتیں، یا پھر وہ ہر جگہ نہیں جاسکتی ہیں۔

شہزادی گیلانی اور رضوانہ ظفر اس طرح کی باتوں سے سخت ناراض ہوتی ہیں۔

شہزادی گیلانی نے کہا کہ اگر لوگ خواتین پولیس اہلکاروں کو اپنی ذمہ داریاں اچھی طرح ادا کرتے ہوئے دیکھیں گے تو ان کے ذہن تبدیل ہوجائیں گے۔

جب انہوں نے اپنے گھر کے سربراہ کےاس حکم پر برقعہ پہننے سے انکار کیا تو وہ آج پولیس اسٹیشن میں ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ جب ہم ایک مرد کی طرح اپنا کام کررہے ہیں تو ہم اپنا چہرہ کیوں نہ دکھائیں۔ تبدیلی معاشرے کے ہر فرد کے لیےایک چیلنج ہوتی ہے،  صرف پولیس کے لیے نہیں۔

تبصرے (1) بند ہیں

عثمان Oct 21, 2013 09:33pm
آفرین ہے خاتون کی جدوجہد پر۔

کارٹون

کارٹون : 24 دسمبر 2025
کارٹون : 23 دسمبر 2025