بڑھاپے کے دن

شائع October 30, 2013

فائل السٹریشن۔۔۔۔

کبھی آپ کسی کمرے میں کسی کام سے گئے ہوں اور پھر سوچنے لگے ہوں کہ آپ وہاں کس لئے گئے تھے- اگر آپ کے ساتھ کبھی ایسا ہوا ہو تو آپ کو اپنے ہم عمروں کے کلب میں خوش آمدید کہونگا- افسوس ناک حقیقت یہ ہے کہ بیس سال کی عمر کے بعد پہلے کے مقابلے میں آپ کے دماغ کے خلیوں کی پیداوار کم ہونے لگتی ہے اور وہ جوانی جو آپ نے بڑی اچھی گزاری ہے وہ بے فائدہ ہوتی ہے: اچھی زندگی کی تگ و دو بھی لاحاصل ہوتی ہے-

اور یہ صرف دماغی کارکردگی نہیں ہے جس پر عمر اثر انداز ہوتی ہے- باقی بہت سارے اعضاء بھی کام کرنا چھوڑ دیتے ہیں جیسے کہ کام کی زیادتی یا کمی پر احتجاج کے طور پر ہڑتال پر چلے گئے ہوں- آہستہ آہستہ دواؤں کی مقدار صبح اور شام دونوں وقت بڑھتی جاتی ہے اور نتیجتاً اپنے آپ کو چلاتے رہنے کیلئے دواؤں کی ایک اچھی خاصی مقدار نگلنا ضروری ہوجاتا ہے-

اور جب کبھی کھانے کی میز پر دوست اکٹھا ہوتے ہیں تو موضوع گفتگو عموماً بیماریاں یا علاج وغیرہ ہوتا ہے- عموماً آپس میں ایک دوسرے کے میڈیکل اسپیشلسٹ اور ان کی کسی خاص میدان میں مہارت کے بارے میں ایک دوسرے سے تبادلہ معلومات کیا جاتا ہے بجائے اس کے کہ سیاست، کتابوں اور فلموں کے بارے میں بات چیت کریں- اس قسم کی باتیں سن کر ایک نوجوان آدمی بوریت کے عالم میں وہاں نہیں ٹہرے گا-

 بڑھاپا، جیسا کہ میری عمر کے لوگوں کو پتہ ہے کہ ایک بے رحم شے ہے اور جب میں بوڑھے لوگوں کو چلنے پھرنے کے لئے مختلف قسم کے سہاروں کو استعمال کرتے ہوئے دیکھتا ہوں تو سوچتا ہوں کہ تھوڑے عرصے کے بعد شاید خود مجھے بھی اسی قسم کے سہاروں کی ضرورت پڑے-

 ابھی تک تو کم از کم، پفن ہمارا جیک رسل ٹیرئر نسل کا کتا روز میرے ساتھ لمبی واک پر جاتا ہے یا شائد وہ مجھے گھر سے باہر کھینچ کر لے جاتا ہے؟ خیر جو کچھ بھی ہو میں روز ایک گھنٹہ واک کر لیتا ہوں-

 ورزش دراصل میری طبیعت میں نہیں ہے- میں تو دراصل ایک قدیم چینی فلسفی کے قول پر عمل پیرا ہوں جس نے کہا تھا کہ اگر تم چل سکتے ہو تو بھاگنے کی ضرورت نہیں، اور اگر تم کھڑے رہ سکتے ہو، تو تمہیں چلنے کی ضرورت نہیں ہے اور اگر تم لیٹے رہ سکتے ہو تو کھڑے ہونے کی ضرورت نہیں ہے-

 اور اگر میری بیوی نے مجھے ورزش وغیرہ کرنے کے لئے کبھی کہا بھی ہے تو میں اس سے کہتا ہوں کہ میں اپنی انرجی بچا رہا ہوں- اس کے سوال کرنے پر کہ کس لئے؟ تو میرا جواب یہ ہوتا ہے کہ کیا پتہ کب ہمیں اس کی ضرورت پڑ جائے اور بہت زیادہ یقین کے ساتھ تو نہیں لیکن میں اسے بتاتا ہوں کہ ہم سب گنتی کی سانسیں اور دھڑکنیں لیکر اس دنیا میں آئے ہیں اور ہم ان ک ورزشوں میں ضائع کرینگے تو زندگی چھوٹی ہو جائیگی- لیکن ظاہر ہے کہ اس قسم کے دلائل میرے روزمرہ کے گھریلو معمولات پر اثرانداز نہیں ہوتے-

جہاں دماغی خلیے عمر کے ساتھ تیزی سے کم ہو رہے ہوتے ہیں وہیں چربی کے خلیوں کی پیداوار بڑھ جاتی ہے جو کہ ایک تلخ حقیقت ہے؛ خصوصاً میرے معاملے میں کہ اچھا کھانا پینا میرا شوق ہے جس کا نتیجہ یہ ہے کہ میں نے چند سال پہلے جوپتلونیں خریدی تھیں اب میں ان کو نہیں پہن سکتا-

اگرچہ کہ میں نے پچھلے چھ مہینوں میں اپنا وزن کچھ کم کیا ہے لیکن اب ایسا لگتا ہے کہ ایک حد سے نیچے آنے کیلئے مشین کی سوئی تیار ہی نہیں ہے-

 مجھے پتہ ہے کہ مزید وزن کم کرنا کافی تکلیف دہ ہوگا: کل رات، ایک دوست بتا رہی تھیں کہ کس طرح انہوں نے تیس پونڈ وزن تین مہینے میں کم کیا لیکن یہ پورا طریقہ کافی مشکلات سے گذرنے کے بعد ہی ممکن ہے-

 مجھے پتہ ہے کہ مجھے گوشت کی مقدار کم کرنی ہوگی اور سبزی زیادہ کھانی ہوگی لیکن ہر بار جب بھی میں اس مفید مشورے پر عمل کرنے کا ارادہ کرتا ہوں مجھے اپنے گوشت والے کی دکان کے بورڈ پر لگا ہوا یہ سائن یاد آجاتا ہے کہ سبزیاں اچھی چیز ہیں لیکن بے مقصد ہیں اگر ان کے ساتھ اسٹیک نہ ہو اور ایک اچھا اٹیلین رسوٹو مکھن کے بغیر بن ہی نہیں سکتا-

 میری بیوی اپنی اس کوشش میں کہ میں زیادہ سے زیادہ دیر تک زندہ رہ سکوں مجھے روز روز نئے نئے ای میل بھیجتی ہے جس میں میڈیکل سائینس کی نئی دریافتوں اور ترقیوں کا ذکر ہوتا ہے، مختلف طریقۂ علاج اور فٹ رہنے کے لئے نئی نئی ورزشیں جو میری خوش قسمتی سے اکثر ایک دوسرے سے مکمل طور پر مختلف ہوتی ہیں-

 مثال کے طور پر انٹرنیٹ اس قسم کی گفتگو سے بھرا ہوا ہے کہ کولسٹرول کو کم کرنے کیلئے ہم جو کچھ کرتے ہیں وہ کتنا زیادہ نقصان دہ ہے لیکن جب میں اپنے کنسلٹنٹ سے اس کے بارے میں پوچھتا ہوں تو وہ کہتا ہے کہ اگر تم زندہ رہنا چاہتے ہو تومیرے مشورہ پر عمل کرتے رہو- مجھے یہ بھی مشورہ ملتا ہے کہ اگر مجھے اپنے ٹائپ 2 کی ذیابیطس سے چھٹکارہ پانا ہے تومجھے چند ہفتے بھوکا رہنا پڑیگا-

 " کوشش تو کرلو" میری بیوی مجھ سے بہ اصرار کہتی ہے- مگر کہنا کرنے سے زیادہ آسان ہے- صرف اچھے کھانے سے چند ہفتوں تک دور رہنے کا خیال ہی دل دہلا دیتا ہے- جو تھوڑی سی سانسیں باقی رہ گئی ہیں ان کو اس طرح سے گنوانا بھی زندگی کے ساتھ زیادتی ہے-

 ہم میں سے زیادہ تر لوگ 50 سال کی عمر کے بعد زندگی کی بے ثباتی کو یاد کرنے لگتے ہیں- پڑھنے کا چشمہ آپ کو یاد دلانے کیلئے کافی ہوتا ہے کہ ہماری صلاحیتیں مسلسل تنزل پزیر ہو رہی ہیں اور اب تو چشمہ کے باوجود بھی میری آنکھیں پڑھتے پڑھتے تھک جاتی ہیں تو پھر میں آنکھوں کو آرام دینے کیلئے ٹی وی پر کوئی بےمقصد پروگرام دیکھنے لگتا ہوں-

 اور میں گوگل کا مشکور ہوں کہ اس کے بغیر میرے مضامین میں ساری تاریخیں اور حقائق گڈ مڈ ہو جائینگی-

بدقسمتی سے پارٹیوں میں یہ سہولت موجود نہیں ہوتی ہے جہاں کبھی کبھی ایسے شخص سے ملاقات ہو جاتی ہے جسے میں جانتا تو ہوں لیکن اس وقت اس کا نام ذہن سے نکل جاتا ہے اور پریشانی اس وقت ہوتی ہے جب کوئی دوست اس سے متعارف ہونے کی خواہش کرتا ہے-

 جب ہم جوان ہوتے ہیں تو ہم اپنی تندرستی کو اپنا حق سمجھتے ہیں اور بڑے بوڑھوں کو جب وہ درد اور دوسری تکلیفوں کی شکایت کرتے ہیں رحم کی نظروں سے دیکھتے ہیں- لیکن اس سے پہلے کہ ہمیں پتہ بھی چلے ہم خود بھی انہیں تکلیفوں میں مبتلا ہوجاتے ہیں اور جلد ہی ہماری سوشل مصروفیات سے زیادہ ہماری بھاگ دوڑ ڈاکٹروں اور چیک اپ وغیرہ کے لئے بڑھ جاتی ہیں-

 ریٹائرڈ حضرات کی مصروفیات اب انٹرنیٹ پر کافی بڑھ گئی ہیں- مختلف گروپس بن گئے ہیں جن میں کافی جانے پہچانے نام نظر آتے ہیں جب وہ لوگ ہر طرح کے موضوع کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار کررہے ہوتے ہیں- اس میں شک نہیں کہ میری جنریشن کے لوگوں کو ایک ایسا فورم مل گیا ہے جس نے انہیں ایک نئی زندگی عطا کردی ہے-


ترجمہ: علی مظفر جعفری

عرفان حسین

لکھاری کا ای میل ایڈریس [email protected] ہے۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

کارٹون

کارٹون : 21 دسمبر 2025
کارٹون : 20 دسمبر 2025