ملک کی تاریخ کا سب سے بڑا ریئلٹی شو
دیکھا جائے تو نواز شریف اور عمران خان کے بیچ اس وقت طالبان سے "مجازی محبت" پر مبنی فلم "عاشقی 3" چل رہی ہے یا پھر ان میں "پاکستان آئیڈل" کی طرح کا کانٹے کا مقابلہ چل رہا ہے۔ آپ کسی لمحے ان میں سے ایک کودیکھو گے کہ وہ طالبان کو گود میں اٹھاکرلوریاں دیتا پھر رہا ہوگا تو اگلے لمحے دوسرا اس کا جھولا جھلا رہا ہوگا۔ اگرچہ ان میں سے کوئی بھی فلپینو نہیں ، لیکن اس مقابلے کے ججز کارکردگی کی بنیاد پر فیصلہ کریں گے کہ دونوں میں سے کون اچھا بے بی سٹر ہے۔
اور مہربانو، قدردانو، اس مقابلے کے ججز ہیں اسٹیبلشمنٹ یا ریاست کے اندر ریاست (Deep State) کی نظریاتی بنیادوں اور مفادات کے نئے اور پرانے رکھوالے جن کے گھاگھرے بغداد سے لے کر دلی تک via-agra مشہور ہیں اور دھو دھو کر پہنے گئے ہیں۔ پچاس برس گذرنے کے بعد ان کی ایک نسل ریٹائرڈ ہوئی تو اس سے زیادہ ٹیلنٹیڈ نئی نسل میدان پر آگئی ہے۔ اس نئی نسل کی تیزی اور تگڑم بازی کو دیکھتے ہوئے آپ قدرت اللہ شہاب، روئیداد خان، شریف الدین پیرزادہ، نظامی اور شامی کو بھول جائیں گے۔ انصار عباسی، بوریا مقبول جان، ہارون رشید، لال ٹوپی والا، اکرم شیخ ایڈووکیٹ اور ان گنت دفاعی تجزیہ نگار خواتین و حضرات اس نئی نسل کے اسٹار ہیں۔ دفاعی تجزیہ نگاروں کی لسٹ بہت لمبی ہے اور سب کے نام گنوائے نہیں جاسکتے کیونکہ ہر سال سینکڑوں حاضر سروس حضرات ریٹائرڈ ہوکر دوسری سروس پیش کرنے کے لئے دفاعی تجزیہ نگار بن جاتے ہیں۔ سو اس وقت یہ تمام خواتین و حضرات ملک کے سب سے بڑے ریئلٹی شو کے ریفری اور ججز ہیں۔
یہ کمال کا شو ہے اور اس سے پتہ چلتا ہے کہ اس ملک پر کیا کمال کا وقت آن پڑاہے۔ پنجاب میں پاپولر دو بڑی جماعتیں ایک ہی مسئلے پر ایسی پالیسی پر چل رہی ہیں کہ پتہ نہیں چلتا کہ ان میں سے کونسی پارٹی حکومت میں ہے اور کون اپوزیشن میں ہے۔ یہ ریئلٹی شو درحقیقت آمریکا دشمنی کی راگنی کے ساتھ اس ریاست کے بدترین دشمنوں کے قصیدے گانے کا مقابلہ ہے۔ لیکن مہربانو اور قدردانو، آپ کا کام صرف تالیاں اور سیٹیاں بجانے کا ہے کیونکہ آپ نہ تو اس ریئلٹی شو کے کامپیٹیٹر ہو اور نہ ہی ججز۔ آپ صرف تماشائی بننے کے لائق ہو۔ آپ کی عزت اسی میں ہے کہ بس تماشائی رہ کر ہی گزارہ کرو۔
پچھلے دنوں سب سے بڑا سوال جس پر پوری قوم (یہاں قوم سے مراد "قومی" قوم ہے) بحث کررہی تھی وہ یہ تھا کہ کیا نواز شریف براک حسین اوباما کو ڈرون حملے بند کرنے کے لئے سچ مچ کہیں گے؟ اس کے بعد اگلا سوال یہ تھا کہ اگر نواز میاں نے ڈرون حملے بند کرنے کا مطالبہ (یعنی مدعا) پیش کیا تو کیا اوباما ان کی بات مان لیں گے؟ دورے پر روانہ ہونے سے پہلے نواز شریف کی ٹیم کے لوگ اتنے یقین سے کہہ رہے تھے کہ ایسا لگتا تھا کہ ملاقات میں اوباما نواز کے کاندھے پر ہاتھ رکھ کر کہے گا " یار ہم نے کبھی تمہارے ساتھ کوئی حساب کیا ہے؟ آج سے ڈرون حملے بند۔ جاؤ بھنگڑے پاؤ! کیا یاد کروگے؟"
بڑے مقابلے کے اپنے پریشر ہوتے ہیں۔ نواز شریف مقابلے کے ججز سے اتنے گھبرائے ہوئے تھے کہ وہ کام کی باتیں کچی پنسل سے لکھ کر لائے اور چشمے بدل بدل کر کانپتے ہاتھوں سے کاغذ کو پڑھتے رہے۔بعد میں ججز نے دورے کے بعد دونوں ممالک کی جانب سے جاری ہونے والے مشترکہ اعلامیوں کے کاغذات کا بغور اور بین السطورجائزہ لے کر پہلے تو اس بات پر ہی شک کا اظہار کیا کہ نواز شریف نے اوباما سے ڈرون حملے روکنے والی بات سچ مچ کی بھی تھی۔ کافی دن گذرنے کے بعد طارق فاطمی نے ایک ٹاک شو میں قسمیں کھا کھاکر کہا کہ اس وقت وہ خود اس انڈے نما آفیس (اوول آفیس) میں موجود تھے اور ان کے بے گناہ کانوں نے سنا کہ نواز شریف نے ڈرون حملے روکنے کی بات کہی۔ اگرچہ طارق فاطمی یہ ثابت نہ کرسکے کہ اوباما نے وہ بات سنی بھی تھی ، بہرحال انہوں نے یہ کہہ کر ججز کو قائل کیا کہ اس بات کی کنفرمیشن دنیا میں صرف ایک شخص ہی دے سکتا ہے کہ اوباما نے ڈرون حملوں کے بارے میں نوازمیاں کی بات سنی بھی تھی یا نہیں اور وہ شخص ہے اوباما خود۔ طارق فاطمی کی واقعاتی شہادت کے بعد کہیں جاکر نواز شریف نے پہلے مرحلے کے لئے کوالیفائی کیا کہ کم از کم وہ بات کہہ کر ضرور آئے ہیں۔ لیکن دوسرا مرحلہ ایسا تھا جس پر نواز شریف سمیت کسی کا کنٹرول نہیں تھا اور وہ یہ تھا کہ کیا اب ڈرون حملے رک جائیں گے؟ یہی وہ مرحلہ تھا جس کے انتظار میں نواز شریف کے حریف اسٹار نے اپنے گانے کی پہلے سے تیاری کر رکھی تھی۔
مقابلے سے غیروابستہ وغیر جانبدار لوگ پہلے ہی کہہ چکے تھے کہ ڈرون صرف تب ہی رک سکتے ہیں جب "قومی" قوم خود کوئی ایسا متبادل پیش کرے کہ آپ حملے بند کردیں، ہم خود ہی جاکر پہاڑوں میں روپوش راہزنوں پر چڑھائی کرتے ہیں۔ مگر یہاں حال یہ تھا کہ ہم تو اپنے لاڈلوں کو کچھ نہیں کہیں گے اور اگر آپ نے ان پر ڈرون حملے کئے تو یہ ہماری ریاستی خودمختاری کی خلاف ورزی ہوگی جو ہمیں منظور نہیں۔
ویسے تو نواز کے کامپیٹیٹر نے خود کو سیاست کی دنیا میں "جانو جرمن" ثابت کیا ہے لیکن اس معاملے میں لگتا ہے کہ اسےکچھ سوجھ بوجھ دی گئی تھی۔ ہم پہلے ہی یہ بتاکر آئے ہیں کہ اس نے اپنے ہٹ گانے کی ریہرسل کررکھی تھی۔اور استاد عاطف اسلم خان نے اس کی مدد کی تھی تاکہ گاتے وقت اس کے سر ہلنے نہیں چاہئیں۔
اور پھر 2 نومبر کی شام کو ایک ڈرون اڑتا ہوا آیا اور سنگ مرمر سے بنے ایک بڑے فارم ہاؤس اور اس کے باہر کھڑی ایک گاڑی کی جگہ راکھ اور دھواں چھوڑ گیا۔ اس طرح اساما کے ایک ماما نے اپنے کچھ ساتھیوں سمیت اپنی جان کا نذرانہ پیش کردیا۔ موقعہ پاتے ہی نواز کے کامپیٹیٹر نے اپنا گانا استاد عاطف اسلم خان کے اونچے سروں میں پیش کردیا۔ اس کی ساتھی تنظیم جماعت اسلامی نے حکیم اللہ محسود کو "شہید" قرار دے دیا ۔ ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ ڈرون حملے میں اگر کوئی بلی کا بچہ بھی مر جائے تو وہ بھی شہید ہے۔ یہی موقع تھا جبنواز میاں کے حریف نے نیٹو سپلائی کو روکنے کا اعلان کرکے پاکستان آئیڈل کا مقابلہ جیت لیا۔
اور مہربانو، قدردانو، اس واقعے کے بعد رونے رلانے کا ایک "ردالی شو" بھی منعقد ہوا۔ چوہدری نثار بہت روئے، سچ بولنے کی وزارت کے سربراہ پرویز رشید نے ہر فورم پر دھاڑیں مارمارکر اس ظلم کا ذکر کیا، لیکن عمران خان نے مقابلے کے ججز کو یہ نکتہ پیش کیا کہ "پوائنٹ شڈ بی نوٹیڈ مائی لارڈ! یہ جس طرح رو رہے ہیں وہ مگرمچھ کے آنسو ہیں۔ سچے آنسو آپ صرف ہماری آنکھوں میں ہی دیکھ سکتے ہیں۔" اس کے بعد مقابلہ یک طرفہ ہوگیا۔
اب بھی رونے والے رو رہے ہیں کہ حکیم اللہ محسود بھلے ہی آمریکا اور پاکستان دونوں کا دشمن تھا، دنیا کو مطلوب ایک عالمی دہشتگرد تھا اور ہزاروں انسانوں کے چیتھڑے اڑانے کی ذمہ داری اس پر تھی، لیکن اس کو مارکر امن کے عمل کی پیٹھ میں چھرا گھونپا گیا ہے۔ یہ چھرا ہم بھلے ہی کھینچ کر باہرنکال لیں لیکن کوئی بتائے کہ ہم بات چیت کس سے کریں گے؟ ہم نےتو بڑے پاپڑ بیل کر حکیم اللہ محسود کو زندہ اور پائندہ رکھاہوا تھا کہ ہمیں اس کے ساتھ (دل کی) باتیں کرنی تھیں۔ اب وہ نہیں رہا تو ہم کیا دیواروں سے باتیں کریں گے؟
کسی نے اس مسئلے کا ایک بہتر حل بھی بتادیا۔ اس کا کہنا تھا کہ حکیم اللہ مارا گیا، کچھ عرصہ پہلے اس کے نمبر ٹو کو آمریکی افغانستان میں کسی جگہ سے پکڑ کر اپنے ساتھ لے گئے۔ نمبر تین اور چار بھی حکیم اللہ کے ساتھ اسی گاڑی میں سفر آخرت پر روانہ ہوگئے۔ اس صورتحال میں صرف ایک ہی بندہ میدان پر رہ گیا ہے جس سے بات چیت کی جاسکتی ہے۔ اور وہ ہے طالبان کا پارلیامانی ترجمان جناب عمران اللہ عمران!
ریشماں اور حکیم اللہ محسود ایک ہی دن انتقال کرگئے لیکن پنجاب حکیم اللہ کے لئے رو رہا ہے جس سے "لمبی جدائی" اس کے لئے ناقابل برداشت ہے۔ راجستھان کی بنجارن ریشماں ۔۔۔ پنجابی اور مارواڑی جس کی ماں بولیاں تھیں، جس نے "کیسریا بالما" بھی گایا اور اپنی کہانی اس آلاپ میں چھوڑ گئی:
"اک تو سجن میرے پاس نہیں ہے
دوجے ملن کی کوئی آس نہیں ہے!"
پر ریشماں کا یہاں کیا کام؟ وہ کسی مقابلے میں شامل نہیں تھی۔
پچھلے ہفتے میڈیا ٹرائیل کی عدالت عظمیٰ کے ایک معزز جج صاحب نے مجھ سے پوچھا آخرسندھی قومپرست پروٹیکشن آف پاکستان قانون کے خلاف ہڑتالیں کیوں کررہے ہیں اور کریکر پٹاخے کیوں چھوڑ رہے ہیں۔ جان کی امان ملنے کی شرط پر میں نے اسے بتایا کہ حالانکہ زمانے بدل گئے ہیں ، سندھیوں کو یہ پروٹیکشن والا قانون بھٹو کے ڈی پی آر (ڈفینس آف پاکستان رولز)کی طرح لگتا ہے۔ بھٹو کے زمانے میں شیخ ایاز نے امرتا پریتم کی نظم"اج آکھاں وارث شاہ نوں۔۔۔"کی طرز پر "جاگ بھٹائی گھوٹ" لکھا تھا جس میں استدعا کی گئی تھی کہ قبر سے باہر نکل آؤ اور آکراپنے مظلوم لوگوں کی مدد کرو۔ بعد میں شاعرمجرم لغاری نے جوابی طنزیہ بیت لکھ کرشاہ لطیف کو خبردار کیا تھا "ڈی پی آر سے ڈرو! اور وہیں آرام سے لیٹے رہو ۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ تمہیں مقبرے سمیت اٹھاکر نہ لے جائیں!" نواز شریف جوپروٹیکشن والا ڈی پی آر لائے ہیں اس کے بارے میں سندھی قومپرستوں کا کہنا ہے کہ وہ بلوچوں اور سندھیوں کے خلاف استعمال ہوگا کیونکہ طالبان تو پہلے ہی" پروٹیکشن " میں ہیں۔
ہمارے ایک پختون دوست کے بھائی ، جو کاروباری آدمی ہیں ، اغوا ہوکر وزیرستان لے جائے گئے۔ بھاری تاوان کی ادائیگی کے بعد انہیں مہینوں بعد آزاد کیا گیا۔ وہ وہاں میرام شاہ کے قریب اسلامی امارات آف وزیرستان کے ہیڈکوارٹر دتہ خیل میں اللہ کا نام لینے والوں کی قید میں تھے جہاں سینکڑوں مغوی برسوں سے بند تھے۔وہ رات دن قرآن پاک کی تلاوت کرکے بہ آواز بلند دعائیں کرتے تھے کہ "اے میرے رب ، کہیں سے کوئی ڈرون بھیج جو آکر میزائل داغے۔ چاہے اس حملے میں ہم ہی کیوں نہ مرجائیں، لیکن ان مذہبی ڈاکوؤں سے تو چھٹکارہ ملے۔" بظاہر یہ والا ڈرون تو اوباما نے بھیجا تھا لیکن علماء کرام کو چاہئے کہ اس بات کا مذہبی تعین کرنے کے لئے اجماع کی غرض سے بحث کریں کہ آیا کسی مظلوم کی دعا قبول کرتے ہوئے رب کریم طالبان کے خلاف ڈرون بھیج سکتا ہے یا نہیں۔
نواز شریف واشنگٹن سے واپسی پر لندن میں رک گئے جہاں اسلامی اقتصادی فورم کا اجلاس تھا جس کا موضوع "دنیا میں اسلامی بینکاری کی بڑھتی ہوئی مقبولیت" تھا۔ فورم کے منتظمین کا کہنا تھا کہ چونکہ اسلامی بینکاری یورپ اور بالخصوص برطانیہ میں بہت پاپولر ہوئی ہے چنانچہ فورم کا اجلاس لندن میں منعقد کرنا ایک بابرکت فیصلہ تھا۔ فورم کے ایک سیشن کو دیگر کے علاوہ غیر اسلامی ملک کے وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون نے بھی خطاب کیا۔ اس بینکاری کو مزید فروغ دینے کی تجاویز دینے اور اجلاس کے آخری سلام کے بعد بھی نواز شریف واپس نہیں لوٹے۔ ان کی غیر موجودگی میں چوہدری نثار ملک کے ڈی فیکٹو پرائم منسٹر کی اوور ایکٹنگ کرکرکے بیزار ہو اور کرچکے تھے۔ حتی کہ ڈان اخبار نے 3 نومبر کو "اشتہار برائے گمشدہ" کی طرح کا ایڈیٹوریل لکھ کر استفسار کیا کہ اسلامی سپر پاور کے وزیراعظم اتنے دنوں سے کہاں گم ہیں؟ اس کے اگلے روز وزیر اعظم چپکے سے لاہور میں اترے اور ابھی تک منظر سے گم ہیں۔ظاہر ہے کہ "آئیڈل" نہ بن سکنے کے بعد بندہ ججز کو منہ دکھانے کے قابل کہاں رہتا ہے!











لائیو ٹی وی
تبصرے (2) بند ہیں