ڈرون حملے اور عمران خان

آج جبکہ ملاله یوسف زئی زندگی اور موت کی جنگ لڑ رہی ہے آیئے عمران خان پر ایک نظر ڈالیں جنکا ٹانک کی جانب موٹروں کا حالیہ جلوس جسکی بڑی تشہیر ہوئی تھی، اس چودہ سالہ لڑکی پر بزدلانہ حملے کے نتیجے میں مکمل طور پر پس پردہ چلا گیا ہے .
پی ٹی آئ کے رہنما جس تشہیر کی امید لگاۓ بیٹھے تھے نہ صرف یہ کہ وہ ضایع ہوگیئ بلکہ وہ امریکی ڈرون مہم کے خلاف جو دلیلیں پیش کررہے تھے وہ بھی اب اذکاررفتہ دکھائی دیتی ہیں. اگرمیں غلط کہہ رہا ہوں تو آپ میری تصحیح کر سکتے ہیں اور مجھے یقیں ہے عمران خان کے بہت سے حمایتی بھی یہی کرینگے، لیکن ان کے دلایل کچھ یوں ہیں؛
ایک مرتبہ جب ڈرون حملے بند ہوجاییں اور پاکستانی فوج بھی قبایلی علاقوں میں اپنی ساری کارروائیاں روک دے تو تشدد پسندی خود بخود دم توڑ دیگی-
مگر کیسے؟
قبایلی تشدد پسندوں کو نکل باہر کرینگے جو عمران خان کے مطابق پاکستانی طالبان اور ان کے حامیوں کا ایک معمولی حصہ ہیں.
لیکن شواہد سے تو یہ ظاھرہوتا ہے کہ ایسے قبایلی رہنماؤں کی تعداد بہت کم ہے جن میں دہشت گردوں کے خلاف کھڑا ہونے کا حوصلہ ہو ،جنہوں نے ان کے گاؤں پر قبضہ کر لیا ہے- جب کبھی انہوں نے تشدد پسندوں کے خلاف لشکر منظم کرنے کی کوشش کی انھیں گولیوں کا نشانۂ بنا دیا گیا، ان پر بم پھینکے گئے یا پھر ان کے سر اڑا دے گئے-
ساؤتھ ایشیا ٹیررازم پورٹل کے مطابق جو جنوبی ایشیا میں دشت گردی کے متعلق ایک ویب سایٹ ہے، گزشتہ سات برسوں میں دہشت گردوں نے ایک سو نو قبایلی رہنماؤں کو موت کی نیند سلا دیا گیا.
دوسری بات جس میں عمران خان واضح طور پر دلچسپی لیتے نظر آتے ہیں وہ یہ کہ ہم ان ٹھگوں سے مذاکرات کریں جنہوں نے ملاله یوسف زئی کواپنا نشانۂ بنایا- وہ یہ بات بھول جاتے ہیں کہ ان قاتلوں سے کئی بارمذاکرات اور معاہدے ہو چکے ہیں اور انہوں نے ہمیشہ ان معاہدوں کو توڑ ڈالا.
دو ہزار آٹھ میں جب صوبآیی حکومت نے سوات کو ملا فضل الله اور انکی ٹولی کے حوالے کردیا تو انہوں نے نہ صرف وہاں کی آبادی کو دہشت زدہ کر دیا بلکہ مالا کنڈ پر بھی قبضہ کرنے کی کوشش کی .
لیکن، جس چیزنے فوج کو کارروائی کرنے پر آمادہ کیا اس کی وجہ ٢٠٠٩ کی وہ ویڈیو فلم تھی جس میں طالبان کو ایک نوجوان عورت کوسب کے سامنے کوڑے لگاتے ہوۓ دکھایا گیا تھا- عوام کے غم وغصہ نے انتظامیہ پر دباؤ ڈالا کہ وہ اس کے خلاف کارروائی کرے - چنانچہ فضل اللہ کے لشکر کو بالاخر وادی سے نکال دیا گیا.
لیکن صاف ظاہر ہے کہ وہ اب بھی دیدہ دلیری سے حملے کرنے کے قابل ہیں- غالبا ملاله کی زندگی کو نشانۂ بنانے کی کوشش بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے اور عوام کا شدید رد عمل حکومت کو مجبور کردیگا کہ وہ ہمیں انتہا درجے کی اس تشدد پسندی سے نجات دلانے کے لئے اپنی مہم تیز کردے.
عمران خان نے اپنے حالیہ موٹروں کے جلوس کو امن مارچ سے تعبیر کیا ہے اور یوں معلوم ہوتا ہے کہ وہ ہمیں تشدد پسندوں کے سامنے جھک جانے کا مشورہ دے رہے ہیں : "امن" کا مطلب ہے دونوں ہی فریقین اپنی معاندانۂ کارروائیوں کو روک دیں.
یہاں، عمران خان ایک طرف تو امریکیوں سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ وہ دہشت گردوں کے خلاف اپنے ڈرون حملے بند کر دے اور دوسری طرف پاکستانی فوج سے انکا مطالبہ ہے کہ وہ علاقے میں اپنی تمام فوجی کارروائیاں بند کر دے-
لیکن، جہاں تک مجھے علم ہے انہوں کبھی تشدد پسندوں سے یہ مطالبہ نہیں کیا کہ ریاست پر یا پاکستان کے اندر شہری علاقوں کو نشانۂ بنانے کی کارروائیاں بند کر دیں- مذہبی دایں بازو کی جانب ان کے جھکاؤ کے باوجود پاکستانی طالبان نے انھیں تنقید کا نشانۂ بنایا اور مغرب زدہ لبرل قرار دیکر انھیں مسترد کردیا .
پرلطف حقیقت یہ ہے کہ خود عمران خان اپنے نقادوں پر یہی الزام لگانے سے کبھی نہیں تھکتے- لیکن طالبان نے انھیں واضح طور پر بتا دیا ہے کہ وہ اپنے حلقے میں انکا خیر مقدم کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں اور یہی وجہ ہے کے عمران خان کا جلوس جنوبی وزیرستان میں داخل ہوئے بغیر ٹانک سے ہی واپس پلٹ گیا -
چنانچہ اگر طالبان نے یہ فیصلہ کر لیا ہے کہ ان کی عملداری میں کون داخل ہو سکتا ہے تو اس کا مطلب صریحا یہ ہے کہ اس علاقے میں ریاست کا کوئی کنٹرول نہیں ہے- یہ بات بڑی اہم ہے کیونکہ امریکی ڈرون حملوں کے خلاف احتجاج میں سب سے اہم نکتہ یہ ہے کہ یہ ہماری خودمختاری کے خلاف ہے- کیا ہم یہی دعویٰ اس صورت میں کر سکتے ہیں جب کسی علاقه پر ہمارا کنٹرول ہی نہ ہو؟
دوسرا مسئله، یقینی طور پر، دو طرفہ نقصانات کا ہے- اس بارے میں بہت سی تحقیقات اور رپورٹیں سامنے آئ ہیں جن میں ڈرون حملوں کے بارے میں متنازعہ اعداد و شمار پیش کئے گئے ہیں.
حال ہی میں انسانی حقوق کی تنظیم ریپریو اور اسٹینفورڈ اور نیویارک یونیورسٹیوں نے منتخب مقامی لوگوں کے ایک چھوٹے سے گروپ سے گفتگو پر مبنی ایک رپورٹ پیش کی ہے-
اس رپورٹ میں واضح طور پر یہ بتایا گیا ہے کہ ڈرون حملوں سے نہ صرف یہ کہ شہری ہلاکتیں ہوتی ہیں جو کسی طرح بھی قابل قبول نہیں ہیں بلکہ ان سے نفسیاتی نقصانات بھی پہنچتے ہیں اور دوسری طرف ان سے مسایل کو حل کرنے میں بھی کوئی خاص مدد نہیں ملتی -
تاہم، اور بھی رپورٹیں شایع ہوئی ہیں جو اتنی تنقیدی نہیں ہیں- سی این این کی ایک رپورٹ جس کا حوالہ پیٹر برگن نے نیو امریکن فاونڈیشن کی ایک تجزیاتی رپورٹ کی بنیاد پر دیا ہے، یہ کہا گیا ہے کہ اوباما انتظامیہ کے تحت ڈرون حملوں کے نتیجے میں جو شہری ہلاکتیں ہوئیں وہ جملہ ہلاکتوں کا گیارہ فی صد ہیں جبکہ دو ہزار بارہ میں ان ہلاکتوں کا تناسب دو فی صد ہے- اس کے برعکس ان حملوں کے نتیجے میں جو ہلاکتیں ہوئیں ان میں تشدد پسندوں کی تعداد نواسی فی صد تھی-
اگرچہ ایک ہلاکت کا ہونا بھی قابل افسوس ہے، ڈرون حملوں کی مخالفت کرنے والوں میں کم ہی لوگ ایسے ہیں جو ان ہزارہا شہریوں اور فوجیوں کا ذکر کرتے ہیں جنھیں تشدد پسندوں نے ذبح کر دیا-
اسی طرح وہ ان سینکڑوں اسکولوں کے بارے میں بھی چپ سادھ لیتے ہیں جنھیں طالبان نے بموں سے اڑا دیا- ان قاتلوں کی پتھر کے زمانے کی ذہنیت کے نتیجے میں کتنی ملالاییں تعلیم سے محرم کردی گئیں؟
امریکہ ، برطانیہ اور پاکستان کی یونیورسٹیوں میں میرے لکچروں کے درمیان ڈرون حملوں سے متعلق مجھ سے اکثر سوالات کئے جاتے ہیں-
جواب میں میں ان سے ایک اور سوال کرتا ہوں- اگر ڈرون حملے روک دئے جاییں تو پھر متبادل راستہ کیا ہے؟ کیا ہم ان مسلح ٹولیوں کو اس بات کی اجازت دے دیں کہ وہ ان بدقسمت گاؤں والوں کی زندگی کو جہنم بنا دیں؟
جن کے پیچھے وہ پناہ لیتے ہیں؟ کیا امریکی انہیں اس بات کی اجازت دے دیں کہ وہ جب چاہیں سرحد پار کر کے افغانستان پر حملے کریں؟
عمران خان جیسے لوگوںکے لئے جو پاکستانی اور امریکی حکومتوں سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ پاکستانی طالبان کے خلاف اپنی کارروائیاں روک دیں، ایک سنجیدہ مشورہ ہے- اپنے ایک مضموں (طالبان کے ساتھ پاکستان کے امن معاہدے) میں جو 'کامبیٹنگ ٹیرورزم سنٹر' کی ویب سائٹ پر موجود ہے داؤد خٹک اس نتیجے پر پہنچے ہیں:
"پاکستان پر حملوں میں ملوث طالبان کے بعض فریقوں سے جو معاہدے بھی ہوۓ ان میں سے کسی بھی معاہدے کی مدت چند مہینوں سے زیادہ نہیں رہی اور جب بھی یہ معاہدے توڑے گئے ہیں ان کے نتیجے میں تشدد کی سنگین وارداتیں ہوئی ہیں اور حکومتی تنصیبات سمیت سکیورٹی فورسز اور شہریوں کو نشانۂ بنایا گیا-
"طالبان کے نقطہ نظر سے، حکومت کے سامنے مطالبات رکھنا اور پھر ان سے مذاکرات کرنا قبایلی علاقے کے شہریوں پر یہ ظاہرکرنا ہے کہ تشدد پسند رہنما اتنے طاقتور ہیں کہ وہ ملک کی اعلی ترین فوجی قیادت کے ساتھ ایک ہی میز پر بیٹھ سکتے ہیں- اس سے طالبان کے پیروکاروں کو تقویت ملتی ہے اور ان کے زیراقتدار زندگی بسر کرنے والی شہری آبادیوں کی مزاحمتی آوازیں دب جاتی ہیں"
سب سے بڑھ کر، ملالۓ پرقاتلانہ حملے نے ڈرون حملوں کی مخالفت میں دے جانے والی تمام دلیلوں اور ہجتوں کے غباروں سے ہوا بالکل نکال دی ہے.











لائیو ٹی وی
تبصرے (3) بند ہیں