• KHI: Partly Cloudy 26.9°C
  • LHR: Partly Cloudy 16.4°C
  • ISB: Cloudy 15.6°C
  • KHI: Partly Cloudy 26.9°C
  • LHR: Partly Cloudy 16.4°C
  • ISB: Cloudy 15.6°C

سونامی کی اترتی لہر

شائع November 2, 2012

عمران خان ٹانک کے جنگی گراونڈ میں امن مارچ کے شرکا سے خطاب کررہے ہیں۔ اے پی تصویر

عمران خان جب اپنی سیاسی تحریک کو سونامی کہتے ہیں تو وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ جب یہ قاتل لہریں اپنے عروج پر پہنچ جاتی ہیں تو فورا ہی پیچھے ہٹنے لگتی ہیں - مجھے ڈر ہے کہ شاید ان کی پاکستان تحریک انصاف بھی ایک سال پہلے اپنے بلند ترین نشان کو چھوچکی ہے اور اب اس کا اتار شروع ہو چکا ہے .

ابھی صرف ایک سال پہلے ہی جب عمران خان نے لاہور میں اپنی بڑی ریلی نکالی تو ہماری یہ سونچ کہ یہ پاکستانی سیاست میں تبدیلی کا لمحہ ہے قابل معافی تصور ہونا چاہئے- احساس یہ تھا کہ عمران خان اور ان کے نوجوان حامیوں کے سامنے لامحدود  امکانات روشن ہو گئے ہیں- ریلی کے موقع پر جوش و خروش اور توانائی سے بھرپور جذبہ بھی دیکھنے سے تعلق رکھتا تھا -

مجھ جیسے سخت نکتہ چیں بھی یہ سمجھ رہے تھے کہ ہم ایک نئی قوت کو ابھرتا دیکھ رہے ہیں جو ہمارے ضمیر فروش سیاسی نظام میں ایک نیے آدرش کو جنم دیگی جس کی ہمیں اشد ضرورت ہے .

لیکن جس طرح مکھیاں شہد پر لپکتی ہیں اسی طرح کامیابی بھی موقع پرستوں کو اپنی طرف کھینچتی ہے- چنانچہ چند ہفتوں بعد ہمیں کراچی کی ریلی میں وہی سارے پرانے چہرے نظر آے جنھیں ہم اپنے سیاست کے میدان میں برسہا برس سے دیکھتے چلے آ رہے ہیں- انھیں غالبا یہ محسوس ہو رہا تھا کہ اقتدار کی دیوی عمران خان پر مہربان ہے .اور شاید انہوں نے ہمارے مطلق العنان انٹلیجنس ایجنٹوں کی گمراہ کن سرگوشیاں بھی سن لی تھیں .سو انہوں نے جرات سے کام لیتے ہوے اپنی قسمت کی باگ ڈور اس ابھرتے ستارے کے ساتھ باندھ دیں-

ان میں سے بعض اب اپنے فیصلوں پر نظر ثانی کر رہے ہیں - کم از کم دیہی علاقے سے تعلق رکھنے والی پی ٹی آئ کی ایک امیدوار اس بات پر بر افروختہ ہیں کہ عمران خان نے انھیں دوسروں کے سامنے شرمندہ کیا- انھیں وثوق کے ساتھ یہ بتایا گیا تھا کہ ان کا رہنما سیلاب زدہ علاقوں کا دورہ کریگا چنانچہ انہوں نے علاقے کے ممتاز اکابرین کو ان سے ملنے کے لئے مدعوکر لیا .

عمران خان نے آخری لمحے اپنا دورہ منسوخ کر دیا جس کی وجوہات خاصی بودی تھیں- پارٹی کے مقامی حامیوں کو بڑی شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا اور جیسا کہ ہمارا معاشرہ ہے اس قسم کی بے توقیری شدید ناراضگی کا سبب بنتی ہے- اگرچہ عمران خان کا دعوی ہے کہ وہ آزاد خیال لوگوں کے مقابلے میں دیہی معاشرے کو زیادہ بہتر طور پر سمجھتے ہیں ، یہ واقعہ تکبر کی بد نما مثال ہے .

گو کہ اس واقعہ کو اپنی نوعیت کی واحد مثال دیکر نظرانداز کیا جا سکتا ہے، پی ٹی آئ کے سربراہ سالہا سال سے دوسرے لوگوں کے نظریات کی جانب جو انکی طرح قد آور نہیں ہیں مکمل طور پر لاتعلقی کا اظہارکرتے آے ہیں- انکا یہ یقین کہ وہ ' اور صرف وہی' راست باز ہیں ٹی وی کے ہر شو میں واضح نظر آتا ہے- لیکن جیسا کہ ہم جانتے ہیں ایسے لوگوں کی کمی نہیں -

اور جب انھیں غلط ثابت کیا جاتا ہے تو مجھے ابھی تک یہ سننے کا اتفاق نہیں ہواکہ انہوں نے اپنی غلطی کا کبھی اعتراف کیا ہو- مثلا جب ٢٠٠٩ میں لاہور میں سری لنکا کی کرکٹ ٹیم پر دہشت گردوں نے حملہ کیا تو عمران خان نے فورا اپنی انگلی کا اشارہ سرحد کے اس پار کر دیا، کیونکہ ان کا کہنا تھا کہ قاتل کبھی پاکستانی نہیں ہو سکتے کیونکہ ہم سب کرکٹ سے محبت کرتے ہیں اور کبھی خواب میں بھی سونچ نہیں سکتے کہ ہم مہمان ٹیم کے اراکین کو ہلاک کرنے کی کوشش کرینگے- لیکن جب یہ واضح ہو گیا کہ قاتلوں کا تعلق پنجابی طالبان سے تھا تو عمران خان نے کبھی یہ اعتراف نہیں کیا کہ وہ غلط تھے-

اپنی تحریک کا مقابلہ پی پی پی کی اس تحریک سے کرنا انہیں بہت مرغوب ہے جس نے 1970 کے انتخابات کو بھاری اکثریت سے جیتا تھا- بنیادی فرق یہ تھا کہ بیالیس سال پہلے ذوالفقارعلی بھٹو نے بہت سے گمنام چہروں کو اپنی پارٹی کے امیدواروں کی حثییت سے متعارف کروایا تھا. چنانچہ وہ روٹی ، کپڑا اور مکان کے نیے نعرے کو، جو ان کی پارٹی کا بنیادی نظریہ تھا آلودہ نہیں کر پاۓ تھے.

گو کہ عمران خان نے ایک نئی سمت دکھائی ہے لیکن جو ٹیم انہوں نے اکٹھا کی ہے وہ بڑی حد تک اسی پرانے ، فرسودہ نظام سے تعلق رکھتی ہے جسے وہ مٹا دینا چاہتے ہیں .

چنانچہ وہ لوگ بھی جو ان کے حامی ہیں، مایوس ہونے میں حق بجانب ہیں- ان کا ہیرو یہ کہکر ان پرانے چہروں کے انتخاب کی مدافعت کرتا ہے کہ یہ لوگ اپنے اپنے حلقوں سے " منتخب " ہو سکتے ہیں .

ہو سکتا ہے یہ لوگ واقعی اگلے انتخابات میں منتخب ہو جاییں،لیکن کیا یہ مناسب ہوگا کہ محض چند نشستوں کی خاطراپنے حامیوں کی کثیر تعداد کو نظرانداز کر دیا جاۓ؟ کیا یہ زیادہ بہتر نہ ہوتا کہ وہ کوشش کرتے اور نیے چہروں کے ساتھ انتخابات میں بھاری اکثریت سے جیتتے؟ جیسا کہ بھٹو نے 1970 کے انتخابات میں کیا تھا- نہ کہ محض دس بارہ محفوظ نشستوں پر اکتفا کرتے؟

درایں اثنا شاید پی ٹی آئ کے جانبازوں کو یہ بات بری لگے لیکن پی ٹی آئ کو غالبا کم و بیش دس سے لیکر پندرہ تک نشستیں مل سکتی ہیں -سیاسی منظرنامے پر گہری نظر رکھنے والے مبصرین سے بات چیت کے بعد اسی پر سب کا اتفاق راۓ نظر آتا ہے- لاہور کی پرجوش ریلی پر پلٹ کر نظر ڈالی جاۓ تو یہ دیکھ کر افسوس ہوتا ہے کہ پی ٹی آئ کی مقبولیت میں اتنی تیزی سے کمی آئ ہے.

حقیقت تو یہ ہے کہ جہاں تک عمران خان کے متضاد نظریات کا تعلق ہے تو میں ان سے بہت کم اتفاق کرتا ہوں- یقینا میں اس بات پر خوش ہوں کہ انہوں نے نوجوانوں کی اتنی بڑی تعداد کو سیاست میں دلچسپی لینے کا راستہ دکھایا ہے- جب تک انکا یہ پیغام سامنے نہیں آیا تھا نوجوان پاکستانی مکمل طور پر سیاست سے کنارہ کش ہو چکے تھے، کیونکہ انہیں اس بات کا اندازہ ہوگیا تھا یہ وہ کھیل ہے جسےعمررسیدہ سیاستدان اپنے مفاد میں کھیل رہے ہیں-

یقینا میری خواہش تھی کہ عمران خان اپنی منفرد صلاحیت اور شخصی کشش کو استعمال کرتے ہوۓ نوجوان نسل کو ایک ترقی پسند نئی راہ دکھاتے نہ کہ شدید مغرب  دشمنی اور قدامت پسندی کی راہ، جو انکی راہ ہے- میں اپنے ملک کی سیاسی پارٹیوں اور انکی ناکام پالیسیوں پر انکی تنقید سے بڑی حد تک اتفاق کرتا ہوں لیکن افسوس کہ جو متبادل راہ وہ پیش کرتے ہیں وہ میرے لئے کشش نہیں رکھتی .

ایک اور بات جسے عمران خان محسوس نہیں کرتے وہ یہ ہے کہ ہمارے ملک کے نظام انتخاب میں ( فرسٹ - پاسٹ - دی پوسٹ الیکٹورل سسٹم یعنی ووٹنگ کا ایسا نظام جس میں جیتنے والے امیدوار کے لئے ضروری ہے کہ وہ دیگر تمام امیدواروں سے زیادہ ووٹ حاصل کرے لیکن ڈالے جانے والے ووٹوں کی مطلق اکثریت حاصل کرنا ضروری نہیں) شخصی مقبولیت کا مطلب قطعا یہ نہیں کہ پارٹی کثیر تعداد میں نشستیں جیت لے- ہو سکتا ہے شہری حلقوں میں وہ ریکارڈ اکثریت سے جیت جاییں لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ انہیں بہ حثیت مجموعی کامیابی حاصل ہوگی .

ایسا معلوم ہوتا ہے کہ انہیں اندازہ ہے کہ اگلے انتخابات میں انہیں ویسی کامیابی نہ ہوگی جس کا انہوں نے وعدۂ کیا ہے- چنانچہ اپنی مدافعت میں " پول سے پہلے کی دھاندلی" کی باتیں شروع کرکےوہ اپنے لئے زمین تیار کر رہے ہیں-

ان کی ان باتوں میں ہمیں اصغرخان کے اس دعوے کی باز گشت سنائی دیتی ہے کہ 1977 کے انتخابات میں پی این اے کامیاب ہوگی اور اس کے علاوہ کوئی اور نتیجہ قابل قبول نہ ہوگا- جب اصغر خان نے پی پی پی اور اپوزیشن کے درمیان ہونے والے معاہدے کے پرخچے اڑا دئے تو پی پی پی کی حکومت کو گرانے کی پی این اے کی تحریک کے نتیجے میں ضیا کو فوجی بغاوت کرنے کا موقع ملا.

لوگوں کی بڑی تعداد کو عمران خان کی متبادل قیادت پرکشش نظر آئ تو اس کی ایک وجہ یہ تھی کہ انہوں نے اصولوں پر سودے بازی سے انکار کر دیا تھا - لیکن اب وہ خود مصا لحت کرنے پر اسی طرح تیار نظر آتے ہیں جیسے کوئی راہ چلتا عام سا عیارسیاست دان-

مثال کے طور پر ابتدا میں تو انہوں نے ایم کیو ایم کے ساتھ کسی قسم کا لین دین کرنے سے انکار کر دیا تھا- بلکہ وہ تو بہت سی دستاویزات لیکر اسکاٹ لینڈ یارڈ کے پاس گئے تھے جس میں انہوں نے مجوزہ طور پر الطاف حسین کو مختلف جرائم میں ملوث دکھایا تھا - اب وہ یہ کہتے ہیں کہ یہ سب ماضی کی بات تھی اور انہیں ایم کیو ایم سے اب کوئی مسئله نہیں ہے.

لیکن اپنی پوزیشن میں ان تبدیلیوں سے بدتر انکی وہ کوششیں ہیں جو وہ متواترداییں بازو کی مذہبی پارٹیوں کو خوش کرنے کے لئے کرتے ہیں جنہوں نے پاکستان کو شدید نقصان پہنچایا ہے - تاہم اپنے تمام تر تحفظات کے باوجود مجھے ان تمام امکانات کے ضا یع  ہونے کا گہراافسوس ہے جس کی علامت عمران خان کی گھٹتی ہوئی مقبولیت ہے -

عرفان حسین

لکھاری کا ای میل ایڈریس [email protected] ہے۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

کارٹون

کارٹون : 21 دسمبر 2025
کارٹون : 20 دسمبر 2025