ثقافت کا جال

شائع November 6, 2012

فائل فوٹو --.

ثقافت ایک انوکھی شے ہے۔ اسس کی تشریح کرنا بہت مشکل لیکن ساتھ ہی اسے مجسم شکل میں دیکھنا بہت ہی آسان ہے۔

پاکستانیوں کے لیے دو قومی نظریے کا موازنہ اکثر مذہب کے ساتھ کیا جاتا ہے۔ ہم میں سے اکثر ایک 'اسلامی ثقافت' پر قائم ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں لیکن اس کے برعکس عملی زندگی میں ہم سب مختلف ثقافتوں کے بُت اپنی آستینوں میں لیے پھرتے ہیں۔  حقیقت تو یہ ہے کہ ہم اسٹیریو ٹائپ ثقافت کو ایک دوسرے پر نافذ کرنے میں اپنا بہت سارا وقت ضائع کردیتے ہیں۔

مثال کے طور پر عرض کروں کہ ہمارے ہاں غیر پختونوں کے چند ہی گھرانے ایسے ہوں گے جہاں بیٹھک کا اختتام کوڑھ مغزی اور بے وقوفی پر مشتمل 'پٹھانوں' سے متعلق لطیفوں پر نہ ہوتا ہو۔ اسی طرح تقسیمِ ہند کے بعد سکھوں کے ساتھ ہمارا لین دین بہت محدود ہوچکا لیکن آج بھی گرو نانک کے پیروکاروں کی ذہانت پر لطیفے زبانِ زدِ عام ہیں۔

اُردو بولنے اکثر غیر مہذب عام لوگوں کے اس اردو لب و لہجے پر ہنسنے یا رونے کے لیے مل بیٹھتے ہیں، جسے ایک ملک میں اشتراکِ عمل کے لیے ان پر جبراً ٹھونسا گیا تھا۔

کچھ مذاق اچھے، شائستہ اور با مقصد ہوتے ہیں۔ 'دوسروں کی ثقافت' سے مذاق اور کھیل کا یہ سلسلہ بسا اوقات جارحانہ رخ اختیار کر جاتا ہے، خاص کراس وقت جب اسے سیاسی، نسلی رنگ دے دیا جائے، جس سے یہ متعصبانہ اور پُرتشدد ہوجاتا ہے۔

پاکستان کے سب سے بڑے شہری مرکز میں کیا ہورہا ہے، اس کی وضاحت مختلف ثقافتوں کے سیاسی تناظر میں کی جاتی ہے۔

کراچی ریاست کے اندر ایک ایسی ریاست کا درجہ رکھتا ہے جو گرتی جارہی ہے۔ کاسموپولیٹن کا درجہ رکھنے والا شہر بری طرح تقسیم نظر آتا ہے، جہاں نسلی، لسّانی اور ثقافتی بنیادوں پر تشدد روز مرہ  کا معمول ہے۔

عدم برداشت اور نسلی رجحانات تیزی سے بلوچستان میں پھیل رہے ہیں۔ مقامی ثقافت کے تناظر میں غیر بلوچوں بالخصوص پنجابی ناقابلِ برداشت ہیں۔

وقت گزرنے کے ساتھ ممکن ہے کہ وہ وقت بھی آجائے کہ جب سرائیکیوں کی پنجابیوں سے مخاصمت تنازعے کی صورت اختیار کرلے۔ فہرست طویل ترین ہوتی جارہی ہے۔

مختلف ثقافتوں کے درمیان تصادم کی یہ صورتِ حال اتنی ہی قدیم ہے کہ جتنا کہ خود انسانی معاشرہ۔

مثال کے طور پر تاریخ میں  یورپ کے تاریک دورکو اکثر عام لوگ مذہب اور فرقہ وارانہ بنیادوں پر لڑی جانے والی طویل ترین جنگ کے عہد سے تشبیہ دیتے ہوئے یاد کرتے ہیں۔

بالخصوص 'مغرب' کے ساتھ اپنے تعلقات کو ثقافتی لحاظ سے دیکھتے ہوئے ہم فکر میں مبتلا رہتے ہیں۔ حتیٰ کہ جب مغرب اور چینی سرمایہ داری نظام کے درمیان تقابل کی بات ہو تو بھی ہم اکثر اُس پر ثقافت کا ٹیگ لگا کر صورتِ حال دیکھتے ہیں جس کی جڑیں ہزاروں سال قدیم ہیں۔

انسانی معاشروں میں ثقافتی تنازعات کو سمجھنے کی بات ہے تو جہاں تک میں سمجھ سکا ہوں کہ یہ ثقافتی جال ہے۔ اس بات سے میرا مقصد اس رجحان کی طرف اشارہ ہے جو 'اُن' اور 'ہم' کے درمیان بٹا ہوا ہے۔

تاریخی مطالعوں سے تصدیق ہوتی ہے کہ ثقافتی اختلافات جزوی طور پر تنازعہ کے قیام اور شدت کی وضاحت کر سکتے ہیں لیکن ایسا عام طور پر نہیں ہوتا کہ دیگر وجوہات غیر متعلق ہوں ، اگر زیادہ نہیں تب بھی، وہ اس معاملے میں اہمیت رکھتے ہیں۔ تاریخی لحاظ سے اس ملک میں ایسی بے شمار مثالیں موجود ہیں، جن سے اس نظریے کی تصدیق کی جاسکتی ہے۔

گزشتہ پینسٹھ برس کے دوران پاکستانی ریاست کو چیلنج کرنے والی تقریباً تمام نسلی و قوم پرستی پر مبنی تحریکیں  پہلی نظر سیاسی ومعاشی نا انصافیوں کے خاتمے کے لیے آواز اٹھاتی نظر آتی ہیں۔

ثقافتی خود مختاری بشمول بولی اور زبان کے، یہ بھی ایک اہم عنصر ہے لیکن بنیادی طور پر اور یقیناً یہ ایک واحد موقف نہیں ہے، جس پر وہ تحریکیں کھڑی ہوتی رہی ہیں۔

بدقسمتی سے، مگر ضروری نہیں کہ سماجی و معاشی ڈھانچے کے حوالے سے مجموعی طور پر یہی بات ہو کہ ہم اُن پر ظلم کررہے ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ ثقا فتی اصلاح میں گوروں اور سیاہ فاموں کے درمیان اختلافات کی خلیج وسیع ہوتی گئی۔ اس دوران مزاحمت نے ایک اور محاورے کو جنم دیا۔ بالادست قوتیں تیزی سے مدافعت رویہ اپناتے ہوئے پیچھے ہٹتی چلی گئیں مگر اپنی 'ثقافت' کے اندر۔ اس طرح دوسری زندہ حقیقتیں بھی موجود ہیں۔

جیسا کہ میں نے ابتدا میں کہا تھا کہ ثقافت کو کسی خاص علامت یا عمل کے ساتھ وضاحت سے بیان کرنا بہت مشکل ہے۔ شاید یہ زیادہ  اہم ہے کہ ثقافت ہمیشہ تبدیل ہوتی رہتی ہے۔

ثقافتی تبدیلیوں کی بری بڑی نشانیوں میں سے ایک بولی یا زبان ہے، جس کے ڈھانچے میں ارتقائی عمل کے ذریعے ہمیشہ تبدیلیاں وقوع پذیر ہوتی رہتی ہیں۔

مختصر طور پر یہ کہنا بہتر ہوگا کہ اگرچہ ثقافت ہمیشہ فطرت کے بہاؤ میں بہتی رہتی ہے لیکن یہ سب کچھ ہے۔ معاشی و سماجی ترقی، ارتقا یا کوئی نئی شے کی شمولیت، ادارہ یا پھر مجموعی طور پر غیر ثقافتی عنصر کی شمولیت ۔۔۔ یہ میزبان ثقافت کے ارتقا پر بھی گہرا اثر ڈالتے ہیں۔

میں جو بات کہنے کی کوشش کررہا ہوں وہ یہ کہ ان تمام حقائق کے باوجود مختلف ثقافتیں ایک دوسرے پر اثر ڈالتی ہیں، جس کے نتیجے میں کُلّی طور پر ایک نئی ثقافت جنم لیتی ہے جو کہ اصل ثقافت والوں کے لیے قابلِ برداشت نہیں ہوتی۔

مسئلہ، جو ہمیشہ سے رہا، وہ 'ثقافتی' اصلاحات کی صورت حقیقت کو نہایت آسان اور سادہ صورت میں پیش کرنے کا ہے۔ جو سماج اور ریاست میں مختلف سطحوں پر رائے عامہ تیار والوں کی بحث کا موضوع بن گیا ہے۔

 میڈیا، ایجوکیشنل اسٹیبلشمنٹ اور مذہبی ادارے ثقافتی پھندے کے استعمال کو ترجیحاً استعمال کرتے ہیں۔ جب ثقافتوں سے وابستگی کو کسی بڑے عالمی تناظر میں مسئلے کے طور پر پیش کا جائے تو یہ اس کی مزاحمت کرتے ہیں۔  ایسا صرف پاکستان میں ہی نہیں ہوتا۔ 'اُن' اور 'ہم' کی جڑیں امریکا دنیا کے کئی ملکوں میں موجود ہیں۔

گزشتہ دو دہائیوں سے مغرب کی کئی اکادمیاں 'ثقافت ازم' سے وابستہ ہیں۔ یہ دنیا کے اُس معاشرے کا جمالیاتی پہلو ہے، جسے ہم پوسٹ ماڈرن ازم کی اصطلاح میں جانتے ہیں۔

زیادہ تر محققین کی دلچسپی بڑے پیمانے پر اُن 'ثقافتی' موضوعات میں ہے، جہاں جدید سماجی،  سائنسی اور انسانی عوامل نے نسلی منافرت کو جنم دیا ہے۔

یہاں اب ایک مختصر سا سوال کہ آیا نصابی دنیا میں 'ثقافتی موڑ' کا یہ عمل آیا سرد جنگ کے بعد کی دنیا کے بدلتے سیاسی و نظریاتی تبدیلیوں کی وجہ سے اتفاقی طور پر پیدا ہوا۔

ہمارے منفرد تناظر میں پیچھے کی طرف چلتے ہیں۔ یہ بات اہم ہے کہ ہم مذہب کی بنیادوں پر ایک ثقافت کی توضیح پیش کرتے ہیں۔ یہ ہمارے معاشرے پر اب تک لاگو ہے مگر اس کے باوجود ہمارے عمل اس نظریے سے مختلف کیوں ہوتے ہیں۔

یہ ہمارے تضادات کو ظاہر کرتے ہیں اور بتاتے ہیں کہ ہم اپنی ثقافت کے اظہار پر کتنا کم وقت صرف کر پائے ہیں۔ جب کہ اس کے برعکس ہم دوسری ثقافتوں پر اثر انداز ہونے، ان کے درمیان ثقافتی اختلافات کو بڑھاوا دینے میں کہیں زیادہ وقت صرف کرتے ہیں۔

آخری تجزیے کے طور پر، ہمیں ثقافتی اصطلاح  میں اُن حقیقتوں اور فرق کو تسلیم کرلینے کی ضرورت ہے جو اپنا وجود رکھتے ہیں۔  اب ان اختلافات کو تنازعہ بنانے پر زور دینے کی ضرورت نہیں ہے۔

یہ دراصل ارد گرد پھیلی ہماری وہ سیاسی اور معاشی ناہمواریاں ہیں، جن کی بنا پر اس طرح کے اختلافات نے جنم لیا ہے۔

ثقافتی جال کے پھندوں میں پھنس کر نہ صرف ہم معاشی و سیاسی استحصال کو مزید پُرابہام بنادیں گے بلکہ ثقافت کے نظریے میں اُلجھ کر ایک دوسرے کو غیر تبدیل شدہ صورتِ حال میں مزید نیچے کی جانب دھکیلیں گے۔

اگرچہ ہم ثقافت کی بقا کے لیے ہر شے قربان کردینے پر آمادہ نظر آتے ہیں مگر تاریخ میں ایسی کوئی ثقافت موجود نہیں جو اپنے دور میں، بامقصد تبدیلی کی قوت سے متاثر ہوئے بغیر رہ سکی ہو۔


اس مضمون کے مصنف قائد آعظم یونیورسٹی اسلام آباد میں پڑھاتے ہیں

ترجمہ: مختار آزاد

عاصم سجاد اختر

لکھاری قائداعظم یونیورسٹی اسلام آباد میں پڑھاتے ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تبصرے (1) بند ہیں

Fareed Hayat Nov 06, 2012 04:04pm
اگر کوئی نسلی ولسانی گروہ کسی دوسرے نسلی و لسانی گروہ کی کی زبان،ثقافت کو مسخ‌،اغوا اور تقسیم کرنے کے لئے جھوٹ،پروپگنڈے ، میڈیا اور نفسیاتی جنگ کے ذریعے پہلے گروہ کی دھرتی پر ایک فراڈ ،بے بنیاد زبان و ثقافت کا بت کھڑا کر دے تو اس کے ساتھ کیا سلوک کیا جائے .پاکستان میں‌چند زبانیں‌اور ثقافتیں‌جھوٹ اور بدنیتی کے تحت گھڑ کر لوگون‌پر مسلط کر دی گئی ہیں.ایک خونی ثقافتی انقلاب ملک میں‌قومی ثقافتی مسئلہ حل کر سکتا ہے.جھوٹ اور بدنیتی کی بنیاد پر کھڑی کی گئی یا مارکیٹ کی گئی ثقافتوں‌کو ختم کرنا ہوگا.(فرید حیات)

کارٹون

کارٹون : 23 دسمبر 2025
کارٹون : 22 دسمبر 2025