جدید مذہبی اجارہ دار

شائع January 28, 2013

molvi 670
آج جہاں وطن عزیز میں ارباب اختیار کے ظالمانہ اقدامات اور اشرافیہ طبقے کی بڑھتی ہوئی ہوس نے بے شمار لوگوں کو خون کے آنسو رونے پر مجبور کردیا ہے اور گزشتہ پانچ سالوں کے دوران حکومت نے عوامی ضروریات سے سبسڈی کا بتدریج خاتمہ کرکے کروڑوں افراد کو غربت کی نچلی سطح سے بھی نیچے پہنچادیا ہے، کروڑوں کی امیدوں کا خون ہوگیا ہے۔ ان سب باتوں سے بے نیاز نرالی سج دھج کے ساتھ ٹی وی پر جلوہ افروز ہونے والے بعض جدید اور ماڈرن مذہبی اجارہ داروں کی گفتگو مذکورہ سوال کی سطح سے بلند نہیں ہوپاتی، اور وہ گڑگڑا گڑگڑا کر رونے کی عجیب و غریب اداکاری کرتے ہوئے دعائیں مانگ کر اپنے ہم ذہن اور بے عمل ناظرین کو مزید بے عملی کے راستے پر دھکیل دیتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔اللسٹریشن کے لیے صابر نذر کا شکریہ

خدا کا شکر ہوا کہ بارہ ربیع الاوال کو جشن میلادالنبی کا تہوار ساتھ خیریت کے گزر گیا۔ آج بہت عجیب سی بات لگتی ہے، لیکن کبھی وہ وقت بھی گزرا ہےکہ اسی ملک کے شہروں میں تہوار رونقیں لے کر آیا کرتے تھے اور خوشیوں و برکتوں کے حصول کا ذریعہ ہوا کرتے تھے، جو آج خوف اور دکھاوے بازی کا مظہر بن چکے ہیں۔

ماضی میں ہم دیکھتے تھے کہ ہماری امی یا خالہ بی بی فاطمہ کی کہانی سن رہی ہیں تو گھر کے پڑھے لکھے اور اِن روایتوں کو نہ ماننے والے لوگوں نے اُنہیں کبھی روکنے کی کوشش نہیں کی۔ کوئی ملحد تھا تو اپنی سوچ میں تھا، کوئی موحد تھا تو اپنی فکر میں تھا۔ دونوں کے پاس اپنے اپنے افکار و نظریات تھے، تلواریں نہیں تھیں کہ ایک دوسرے کو اپنے اپنے نظریات کی پیروی پر مجبور کریں۔ کچھ لوگ نماز اور شرع کی پابندی کا اہتمام کرتے تھے لیکن یہ اہتمام ان کی اپنی ذات و کردار تک ہوتا تھا۔ ایسا نہیں تھا، جیسا کہ آج کل کا چلن ہے کہ گھر میں کوئی ایک مرد، والد یا بھائی مذہبی شعار کی پیروی کرنے لگ گیا ہے، تو وہ گویا گھر کے تمام لوگوں کے لیے نعوذباللہ پیغمبر یا خدا بننے کی کوشش کرنے لگتا ہے۔ بلکہ ہمارا تو یہ خیال ہے کہ شاید ایسے لوگوں کا بس نہیں چلتا کہ اپنے نومولود بچوں کو بھی داڑھیاں رکھوادیں۔ لڑکیوں کی حد تک تو وہ قریب قریب ایسا ہی کر گزرتے ہیں، کہ چھوٹی چھوٹی بچیوں کو اسکارف بندھوا دیتے ہیں۔

پہلے میلاد اور دیگر مذہبی محافل میں بتاشے، ریوڑیاں یا روپے کے سینکڑہ کے حساب سے ملنے والے چھوٹے چھوٹے بسکٹ بھی بانٹے جاتے تھے اور میلاد یا مجلس کے شرکاء خوشی خوشی عقیدت اور محبت کے ساتھ یہ ہدیہ قبول کرتے تھے۔ آج کی طرح نہیں تھا کہ چکن بریانی سے کم پر تو میلاد کی محفلوں کا کوئی رُخ ہی نہیں کرتا ہے اور اگر محفل میلاد بڑے پیمانے پر منعقد کی جارہی ہو تو پھر لازمی ہے کہ قرعہ اندازی  کے ذریعے عمرے کے ٹکٹ کے انعام کا لالچ دیا جائے۔ چنانچہ مذہب کی وہ رسومات جو ہماری ثقافت کا حصہ تھیں اور جن سے معاشرے میں باہمی میل جول، برداشت اور ہم آہنگی جیسے مثبت رجحانات کو فروغ ملا کرتا تھا، آج کارپوریٹ کلچر کے رنگ میں رنگ چکی ہیں۔

اس مرتبہ عید میلادالنبی کے بارہ روزہ جشن پر کراچی گویا روشنی میں نہا گیا۔ یقین نہیں آرہا تھا کہ یہ اس ملک کا شہر ہے جہاں سولہ سولہ گھنٹے کے لیے لوڈشیڈنگ ہوتی ہے اور اسی لوڈشیڈنگ نے ملکی معیشت کا ستون سمجھی جانے والی صنعتوں کو ملک سے ہجرت پر مجبور کردیا ہے۔ مسلسل بارہ دن تک کےای ایس سی نے بھی رات کی لوڈشیڈنگ ختم کردی تھی۔ شاید اس ڈر سے کہ کہیں اُس کے گلے میں بھی توہین رسالت کا طوق نہ ڈال دیا جائے۔

رنگ و نور کی اس برسات کا جب بغور جائزہ لیا تو معلوم ہوا کہ ان لوگوں نے بھی اپنے گھروں کو سبز روشنیوں سے سجا رکھا تھا، جو برسوں سے اس ملک کے غریبوں کے گھروں میں اندھیروں کے ذمہ دار ہیں۔

عجیب سماں تھا کہ اوپر رنگ برنگی روشنیاں آنکھیں خیرہ کررہی تھیں، نیچے کھلے گٹروں اور ان میں سے نکل کر سڑک پر جمع متعفن پانی سے بچ کر چلنا مشکل ہورہا تھا۔

کچھ اسی طرز کا ماحول ٹی وی پر بھی نظر آیا۔

ٹی وی کویوں تو ضیاءالحق کے دور میں ہی مشرف بہ اسلام کیا گیا تھا، لیکن مشرف کے دورِ حکومت میں اس نے جدید انداز اپنایا اور اب اس کی مذہبی سوچ بھی جدید اور نرالی ہوچکی ہے۔ جنرل مشرف نے جہاں اور بہت سے  کارنامے انجام دیے وہیں ٹی وی چینلز کا گویا جمعہ بازار سا لگا دیا، جن میں سے بعض  چینلز کی مہربانی سے جدید مذہبی اجارہ داروں کو ظاہرپرستی، روایات پرستی اور فرقہ وارانہ شدت پسندی، کے فروغ کا خوب موقع ملا ہے۔ چنانچہ اکیسویں صدی کے ابتدائی عشرے میں ہمارے معاشرے کے اندر  دیگر بہت سی جہالتوں اور خرابات کے ہمراہ اِس طرز کی ‘‘جہالت’’ بھی ‘‘آن لائن’’ ہوچکی ہے۔ ربیع الاوّل اور رمضان میں آن لائن جہالتوں کے علمبرداروں کی خوب چاندی ہوجاتی ہے۔

اس نوعیت کے پروگرامز میں کیے جانے والے اکثر سوالات کی نوعیت ‘‘مچھر کا خون اگر کپڑے پر لگ جائے تو وضو ٹوٹ جائے گا یا نہیں؟’’، کی سطح سے بلند نہیں ہوتی۔

کس قدر شرم اور افسوس کا مقام ہے کہ آج جہاں وطن عزیز میں ارباب اختیار کے ظالمانہ اقدامات اور اشرافیہ طبقے کی بڑھتی ہوئی ہوس نے بے شمار لوگوں کو خون کے آنسو رونے پر مجبور کردیا ہے اور گزشتہ پانچ سالوں کے دوران حکومت نے عوامی ضروریات سے سبسڈی کا بتدریج خاتمہ کرکے کروڑوں افراد کو غربت کی نچلی سطح سے بھی نیچے پہنچادیا ہے، کروڑوں کی امیدوں کا خون ہوگیا ہے۔ ان سب باتوں سے بے نیاز نرالی سج دھج کے ساتھ ٹی وی پر جلوہ افروز ہونے والے بعض جدید اور ماڈرن مذہبی اجارہ داروں کی گفتگو مذکورہ سوال کی سطح سے بلند نہیں ہوپاتی، اور وہ گڑگڑا گڑگڑا کر رونے کی عجیب و غریب اداکاری کرتے ہوئے دعائیں مانگ کر اپنے ہم ذہن اور بے عمل ناظرین کو مزید بے عملی کے راستے پر دھکیل دیتے ہیں۔

ان کی دعائیں بھی کسی دُور افتادہ دیہات کی سنکی اور بوڑھی عورت کے کوسنوں کی مانند ہوتی ہیں۔ ایسی بوڑھی عورتوں کے کوسنے اپنی پڑوسن، ساس، نند یا سوکن کے لیے ہوتے ہیں جبکہ ان مذہبی ماڈل بوائز کی کوسنے نما دعاؤں کا ہدف کافر، یہودی اور ہندو بنتے ہیں۔

ان جدید مذہبی اجارہ داروں نے اپنے لیے تو نہایت لگژری لائف حاصل کر رکھی ہے اور یہ سب کچھ محض ان کی دعاؤں کی برکت سے نہیں بلکہ چالاکیوں، سازشوں اور مختلف مثبت و منفی حربوں کے ذریعے ممکن ہو سکا ہے، لیکن یہی لوگ اپنے پیروکاروں کو فرقہ وارانہ انتہاپسندی پر اُکساتے ہیں، صبر کا عنوان دے کر جمود کوفروغ دیتے ہیں، عوام کے معاملات سے اُن کی لاتعلقی کا عالم یہ ہے کہ انہیں بڑھتی ہوئی مہنگائی کا ذرا بھی احساس نہیں، اس لیے کہ انہیں تو عزت، دولت  اور شہرت سب ہی کچھ مذہب کے نام پر میسر ہے ۔

پیغمبر اسلام حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک ارشاد یہ ہے کہ کوئی شخص یہ جاننے کے باوجود کہ کسی آدمی کے پاس چوری کا مال ہے، اس سے کچھ مال کسی غرض سے لے تو وہ بھی اس چوری میں شریک ہے۔(بحوالہ : طبرانی الکبیر)

سب جانتے ہیں کہ ہماری مسجدیں اور مدرسے چندوں سے چلتی ہیں۔

غریبوں کے چندوں سے نہیں !!

اس لیے کہ وہ تو زیادہ سے زیادہ 100روپے مہینہ ہی دے سکتے ہیں بلکہ ان ساہوکاروں، سیٹھوں، دلالوں، سود خوروں، دھوکہ دہی اور غبن کے ذریعے راتوں رات کروڑپتی سے ارب پتی بن جانے والوں کی خیرات، صدقات اور زکوٰۃ سے جو اپنے صارفین کو گھٹیا مال دے کر معیاری مال کے پیسے لیتے ہیں۔  اپنے ملازمین کو جائز معاوضہ دینے میں ان کا دم نکلتا ہے، جھوٹے کاغذات بنواکر لاکھوں کا ٹیکس بچاتے ہیں۔ ان میں سے بیشتر غذائی اشیاء میں ملاوٹ کے ذریعے قوم کو زہر دے رہے ہیں۔ غبن ، کرپشن اور ذخیرہ اندوزی کرکے لاکھوں، کروڑوں اور اربوں روپے کماتے ہیں اور یہ اربوں کھربوں کی رقم بینکوں میں فکس کرادیتے ہیں، مثال کے طور پر ایک ارب روپے پر ملنے والا سالانہ سات فیصد سود سات کروڑ روپے بنتا ہے، اس میں سے ڈھائی کروڑ روپے ڈھائی فیصد زکوٰۃ کے نام پر ایسے مذہبی اجارہ داروں کے حوالے کردیتے ہیں، جو ترازو ہاتھ میں لے کرغریبوں کے ایمان کو تولتے اور ان کی جنت دوزخ کا فیصلہ کرتے پھرتے ہیں، جبکہ معاشرہ جہنم کا نمونہ بن چکا ہے اور اسے اس حال تک پہنچانے میں مذہبی طبقے کا بھی بڑا ہاتھ ہے اس لیے کہ ان لوگوں نے عام لوگوں کے ذہنوں کے اندر سماجی بیداری کے تمام راستوں کو بند کرنے کے سلسلے میں مراعات یافتہ استحصالی طبقے کی ہر ممکن مدد کی ہے۔

چنانچہ اب تو ایک زمانہ گزر گیا کہ ہمارے ملک میں مذہب خدا اور بندے کے درمیان کا معاملہ نہیں رہا، بلکہ ایک ایسا منافع بخش شعبہ بن چکا ہے جس پر نہ تو کوئی ٹیکس لگتا ہے ، نہ ہی آمدنی کے ذرائع کے بارے میں کچھ دریافت کیا جاتا ہے۔حرام حلال ،جائز ناجائز  کا  تذکرہ ہی کیا بیرونی قوتوں سے بھی سرمایہ حاصل کرنے کوئی حرج نہیں سمجھا جاتا ہے اور نہ ہی خطیر سے خطیر سرمائے کے کسی بھی قسم کے اصرا ف و فضول خرچیوں پر انگلیاں اُٹھتی ہیں۔ جب بات ملکی سطح کے مذہبی رہنماؤں، مفتیان عظام ، علمائے دین ، مشائخ کرام ، پیران طریقت کی ہو تو پھر لش پش پجارو  اور دیگر تام جھام معمول کی بات ہے، اچھنبے کی نہیں۔ دائیں بائیں مسلح باڈی گارڈز کے علاوہ نعلین شریف سنبھالنے والے خدمت گاروں کی معقول تعداد،  چھینک بھی آ جائے تو عقیدت مند ڈاکٹروں کاپینل چیک اپ کے لیے حاضر، یاد رہے یہ وہ ڈاکٹرز ہوتے ہیں کہ جن کی غیر معمولی فیس سن ہی کر درمیانے طبقے کے کچھ افراد شاید صدمے سے فوت ہوجا ئیں۔

ملک کے عام افراد کو تو چھوڑئیے خود مذہب کے ان ٹھیکے داروں کی پرستش کی حد تک پیروی کرنے والوں کی ایک بڑی تعداد آلودہ پانی پی پی کر لا علاج امراض میں مبتلا ہوتی ہے تو ہوا کرے، ان کی بلا سے، انہیں تو منرل واٹر باآسانی میسر ہے کہ کسی مالدار عقیدت مند نے منرل واٹر کا ماہانہ کوٹہ فراہم کرنے سعادت جو حاصل کر رکھی ہے۔ اندرون وبیرون ملک سفر کے ہوش ربا اخراجات کی ذرا بھی فکر نہیں کہ ان کے دولت مند پیروکار (جنہیں ‘‘پجاری’’ کہا جائے تو زیادہ مناسب ہوگا) جہاں ان کے دیگر ناز نخرے اٹھاتے ہیں، وہیں ان کی تمام بھاگ دوڑ اور کود پھاند کا خرچ بھی برداشت کرتے ہیں۔

مذہبی زعماء کے تمام قسم کے ‘‘شوق’’ کی تکمیل میں نہ تو وسائل رکاوٹ بنتے ہیں اور نہ ہی ملکی قانون۔ جہاں دل چاہا ، وہاں مسجد بنادی ۔ جس میدان پر ان کی نگاہِ بصیرت پڑ گئی، وہاں مدرسہ کی بنیاد رکھ دی۔ اوّل تو کوئی جرأت کرے گا ہی نہیں اور اگر کسی ناہنجار اور گستاخ نے اعتراض کرنے کی جرأ ت کی اور کہا کہ حضرت یہ زمین تو کھیل کود کے گراؤنڈ کی ہے، پارکنگ لاٹ کی ہے، کمیونٹی سینٹر کی ہے،  غریبوں کے بچوں کے اسکول کے لیے مختص کی گئی ہے، یہاں تو سروس روڈ بننی تھی، یہ محلہ ہے، یہاں اتنے گھروں کے بیچوں بیچ مسجد، مدرسہ، مزار یا آستانے کی تعمیر سے لوگوں کی پرائیویسی متاثر ہوگی۔ تو اس کم بخت پر داغنے کے لیے ‘‘کفر’’ کے فتوے کا میزائل موجود ہے۔ پھر بھی وہ احمق باز نہیں آیا تو ‘‘توہین رسالت’’ کا طوق اس کے گلے میں ڈال کر وحشی ہجوم کے حوالے بھی کیا جاسکتاہے، جو محض ڈنڈوں، جوتوں اور چپّلوں سے ہی اتنا مارے گا کہ پٹنے والا بے چارا کسی صورت جانبر نہیں ہوسکے گا۔


Jamil Khan 80   جمیل خان نے لکھنے پڑھنے کو گزشتہ بیس سالوں سے اوڑھنا بچھونا بنایا ہوا ہے، لیکن خود کو قلم کار نہیں کہتے کہ ایک عرصے سے قلم سے لکھنا ترک کرچکے ہیں اور کی بورڈ سے اپنے خیالات کمپیوٹر پر محفوظ کرتے ہیں۔

جمیل خان
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تبصرے (19) بند ہیں

hsoherwardy Jan 28, 2013 09:56am
I loved The article. very very wel written. These Online so called alims just ruining the mind of our people. Its a joke with Islam and in my opinion these people are the blasphamors....
muhammad younis Jan 28, 2013 05:33pm
i agree with your efforts
انور امجد Jan 29, 2013 12:49am
جمیل خان صاحب پاکستانی گھروں میں ربیع الاول میں میلاد کی محفلیں ہمیشہ سجتی رہی ہیں اب چونکہ ٹی وی آ گیا ہے اسلئے اس پر بھی سجنے لگی ہیں۔ عید میلاد پر مسجدیں اور بلڈنگیں سجنا کوئی نئی بات نہیں۔ پہلے موم بتیاں اور دئے جلاتے تھے اب ہر جگہ بجلی آگئی ہے تو روشنیاں کی جاتی ہیں۔ اگر کچھ لوگ اپنی خوشی اور عقیدت کا اظہار کرتے ہیں تو اس میں اتنا ناراض ہونے کی کیا ضرورت ہے؟ آپ اپنے گھر میں بیٹھے رہیں آپ کو کوئی مجبور نہیں کرتا کہ جا کر اس کا معائنہ کریں۔ رہا ٹی وی پر عالموں کے پروگرامز کا تو جو لوگ اپنی مذہبی رسومات اور فرائض ادا کرتے ہیں ان کو بعض مسائل کے بارے میں معلومات چاہیے ہوتی ہیں۔ اگر آپ کو کوئی پروگرام یا عالم پسند نہیں آتا تو ریموٹ آپ کے ھاتھ میں ہوتا ہے آپ چینل بدل دیجئے۔ مگر دوسروں پر اپنی مرضی مسلّت کرنے کی کوشش نہ کریں۔ میرا تھوڑا بہت مینجمنٹ کا مشاہدہ ہے کہ جن لوگوں کو دوسروں میں بہت خامیاں نظر آتی ہیں وہ خود سب سے بڑے نکمّے اور ناکامیاب لوگ ہوتے ہیں۔ پاکستانیوں کے گناہوں کی اتنی مکمّل لسٹ بنانے پر داد دیتا ہوں۔ اس میں کسی اور گناہ کی گنجائش نہیں لگتی۔
zar Qu Jan 29, 2013 01:55am
جمیل خان صاحب ہر لحاظ سے عمدہ کوشش ہے۔ہماری بدقسمتی کہ ہم نے خوشیوں کے مذہبی تہواروں پر بناوٹ اور دِکھاوے کی دُکان سجالی ہے۔پاکستانی قوم جسطرح اپنی سادگی اور محبت کی روایات بھول کر ان مذہبی دُکانداروں کے چنگل میں پھنسی ہے اس پر بہت دُکھ ہوتا ہے۔آپ نے ہمارے جذبات کو زبان دی ۔سلامت رہئے اوپر کسی صاحب سے آپکی تحریر پر ناراضی ظاہر کی ہے ۔مجھے نہیں لگتا کہ سوائے اُس شخص کے جسکی روزی روٹی اس سسٹم کے ساتھ جُڑی ہےکوئ اور آپکی تحریر سے اختلاف کرسکتا ہے۔اگر وہ عام عوام سے ہیں تو حیرت ہے مجھے
امجد حسین Jan 29, 2013 02:48am
- جمیل خان صا حب آپ نے بہت اچھا تجزیہ کیا ہے اس تہوار کا مجھے اچھی طرح یاد ہے ، ایک بار جب میں پاکستان چھٹیوں پر آیا تھا تو I had to change my confirmed ticket to go back because it was falling on Eid-Meelad-Nabi. Different procession from different part of the city, all the traffic block. What you will do if you need to take a patient to emergency? Now this has become a billions of dollar business, you know that all service providers makes a lot of money in this business. A country which is going through the difficult time, industry is being collapsed because of shortage of energy this much use of electricity is crime but stupid people thinks that they will earn the heaven doing this nonsense rituals. Who can make them understand that in Arab countries from where this Islam came there is not a single bulb is lighted on this day. The way Pakistani State has developed and sponsored the fundamentalism in the country it is only a tragedy. The way different Mlaad Committees of each Mohalla forcibly collect the funds by stopping the traffic is really shameful. No one can stop them because no one want to be victim of blasphemy laws. By glorifying this festival with lights they do not know they are pushing the future of the nation into dark ages. Above all now they celebrate the Prophet's birthday with cakes weighing in tonnes as if he was a hero of Bollywood movies. Shame, shame, shame.........................
waqar butt Jan 29, 2013 04:10am
Sir,there are all shopekpper on the name of god they making money;
@H_Balouch Jan 29, 2013 05:13am
جب سے ڈان اردو شروع ہوا ہے، میں نے صرف تنقید براےتنقید دہکھ رہا ہوں. یہ مضمون بھی اسی طرح بڑی کمال سے اچھے چیزوں میں بری چیزیں ڈھونڈ نکلنے میں کامیاب ہوا ہے
زوہیب مغل Jan 29, 2013 06:33am
ملائیت کا ایک بہت بڑا ڈھانچہ اور وسیع تر مذہبی نکموں کا گروہ ہے جس کو قائم رکھنے اور پانے پوسنے کے لیے تمام مذاہب اور فرقوں کو بہت بڑے سرمایہ کی ضرورت درکار ہوتی ہے ۔ مذہب ایک ایسی دوکانداری ہے جس میں گاہک اپنے خون پسنے کی کمائی میں سے صرف ادائیگی ہی کرتے ہیں ان کو کوئی چیز نہیں ملتی ماسوائے ایک کٹر تعصبی فریب کے جو سماجی بھلائی نہیں بلکہ بربادی کا سبب ہے ۔ یہ مذہب اور فرقوں کے نام پر دھندہ کرنے والے اپنے بے کار اور زہریلے وجود کے جواز کے لیے انسانوں کے اندر کم علمی کی وجہ سے سرائیت کیا ہو ا خوف اور لالچ کو بھر پور استعمال کرکے ان سے اپنے لیے خدا کے نام پر بڑی بڑی رقموں بٹورتے ہیں ۔ عام آدمیوں کی زندگیوں کو دنیا میں ہی جہنم بناکر خود جنت سے بھی عیاش زندگی اسی زمین پر گزارتے ہیں ۔ اور پھر ان اطاعت گزاروں کا احسان بھی نہیں مانتے بلکہ جنت کالالچ اور جہنم کے خوف کے نام پر ان سے مسلسل بڑی بڑی خیراتیں ، چندہ ، صدقے بڑی بے شرمی سے وصول کرتے رہتے ہیں اور پھر انہی کو ہی دوزخی ٹھہراتے ہیں ۔ یہ پیار محبت کی باتیں کرکے نفرت کے کاروبار کرتے ہیں ۔ یہ ظلم کے خلاف نہیں بلکہ ظلم کی بنیادیں اور اسکے رکھوالے ہیں ۔
طارق مان Jan 29, 2013 10:20am
محترم انور امجد صاحب، جمیل خان صاحب کے کالم پر آپ کا ردعمل میری ناقص رائے میں حقیقت پسندانہ نہیں ہے. عید میلاد پر اگر بات صرف چراغاں تک محدود رہتی تو قابل برداشت تھی مگر اب تو ہم نبی پاک کی پیدائش کی خوشی کو خواجہ سراؤں کے رقص اور ڈھول تاشے کے ساتھ منانا ایک مذہبی رسم سمجھتے ہیں. اگر تبدیلی کی یہی رفتار رہی تو آئندہ چند سالوں میں عید میلاد نبی پر باقاعدہ مجرے ہوا کریں گے اور آپ کہ وہ علمائے دین، جو آجکل ٹی وی پر گالم گلوچ میں مصروف نظر آتے ہیں، ان مجروں میں بھارتی فلمی نغموں کی دُھن پر نعتیں گاتے دکھائی دیں گے. یہ بھی ممکن ہے کہ صحیح طرح ٹھمکا نہ لگانے والی کو توہین رسالت کا مرتکب قرار دے دیا جائے. آپ جیسے مینجمنٹ کے ماہرین ایک دن میں بیس بیس مجرے مینج کرنے کے ریکارڈ قائم کریں گے اور اسے توشۂ آخرت قرار دیں گے.
chandio Afi Jan 29, 2013 10:29am
I appreciate to Jamil khan on this marvelous write-up, and also agree with Mr Amjad Hussain's comment is; Who can make them understand that in Arab countries from where this Islam came there is not a single bulb is lighted on this day. The way Pakistani State has developed and sponsored the fundamentalism in the country it is only a tragedy.
kunri Jan 29, 2013 01:20pm
بدقسمتی سے مذہب ایک ایسا مسئلہ بن گیا ہے کہ اس پر کوئی بات سننے کو کبھی تیار نہیں ہو گا اور بات کرنے والےکو تو ہر کوئی پھاڑ کھانے کو دوڑے گا۔ زندگی کے ہر موڑ پر ہمیں میانہ روی اور اعتدال کا جوسبق دیاگیا تھا ہم اسے یکسرفراموش کر دیا۔ خصوصاً مذہبی عبادات جو ایک نجی سا معاملہ تھااسے ہم نے معاشرتی طور پر پھیلا تے ہوئےجبراً لوگوں پر مسلط کرنا شروع کر دیا۔آج سے چند دہائیاں پہلے نہ تو اتنے جلسے جلوس تھے اور نہ ہی اتنے میلاد، قرآن خوانیاں اور قوالیاں۔ صرف دو عدد محرم کے جلوس اور ایک عید میلاد کا وہ بھی مرکزی نوعیت کے تھے لیکن اب تو ہر محلے سے ایک جلوس برآمد ہونے کو تیار ہوتاہے۔سڑکیں، بازاربجبر بند کروا دیئے جاتے ہیں اور اسلحہ بردار جتھے سب کو کاروبار بند کر کے یاتو جلوس میں شامل ہونے پر یا گھر بیٹھنے پر مجبور کر دیتے ہیں۔ ہر گلی میں خیمے گاڑکر میلاد کی محفلیں منعقد کی جاتی ہیں اور محرم میں گاڑیوں میں اونچی آواز میں ڈیک پر نوحے و مرثیےسننا اور سنانا ہی کار ثواب ہے۔ مجھے تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہم مذہب کوایک نمائشی چیز کے طور پر اوڑھے ہوئے ہیں۔ میرے گھر سے سو میٹر کے فاصلے پر ایک امام بارگاہ ہے اور ایک مسجد بھی تقریباً اتنے ہی فاصلے پر ہے ۔ دوران محرم ہم لوگ تقریباً دو ماہ گھر بیٹھے مجلسیں سنتے ہیں اور سارا سال جمعے کے روز صبح سے تلاوت اور نعتیں وغیرہ، جمعے کا خطبہ اور بعد میں درود و سلام۔ اس دوران ہم آپس میں بات چیت کرنے کے لئے بھی چیخنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ اور اس وقت انتہائی کرب کی صورت ہوتی ہے جب ہمیں بیت الخلاء میں بھی تلاوت سننی پڑتی ہے۔ ایک صاحب نے ، جن کی والدہ شدید علیل ہیں، امام صاحب سے بیرونی لاؤڈ سپیکر بند کرنے کی درخواست کی تو وہ خطبہ جمعہ میں برہم ہو گئے اور انہیں شیطان کا پیروکار ہونے کا لقب عطا فرما دیا۔ اب بتائیے جناب ہم کہاں جائیں؟ میرے خیال میں اجتماعی عبادات پر کچھ پابندیاں ضرور لاگو ہونی چاہئیں اس سے نہ تو کسی کے ایمان میں کوئی کمی آئے گی اور نہ ہی کوئی قیامت ٹوٹ پڑے گی۔ اعتدال بہر طور بہت ضروری ہے۔
انور امجد Jan 29, 2013 07:09pm
میں ان لوگوں کی رائے کا احترام کرتا ہوں جو میری رائے سے متّفق نہیں لیکن پھر بھی میں اپنی بات پر قائم ہوں۔ تنقید کرنے کا سب کو حق ہے لیکن کسی یہ اختیار نہیں کہ وہ مانیٹر بن کے سب کو اپنے راستے پر چلانے کی کوشش کرے۔ یہ سوچ کہ ساری پاکستانی عوام ناسمجھ ہے اور صرف میں ہی صحیح کہ رہا ہوں بالکل غلط ہے۔ آج کل ہر دوسرا آدمی مذہبی معاملات میں فتوے دے رہا ہے۔ سب یہ چاہتے ہیں کہ اسلامی اصولوں کے معنی جس طرح وہ سمجھتے ہیں وہ سب مان لیں۔ اصل میں یہی رخ شدّت پسندی ہے۔ جو اسلام کے بنیادی اصول ہیں ان پر کسی کو اختلاف نہیں۔ اس کے برعکس غیر اہم باتوں کو نظر انداز کرنے کے بجائے ان کو بڑا مسئلہ بنا کر لے آتے ہیں۔ آپ عید میلاد منانے کا معاملہ لے لیں۔ اگر کوئی اپنے طریقے سے رسول اللہ سے اپنی محبت اور عقیدت کا اظہار کر دیتا ہے تو اسے اتنی اہمیت کیوں دیتے ہیں؟ دوسرے جب کسی کو سمجھانا ہو تو نرم رویہ اختیار کرنا چاہیے۔ اگر آپ چھوٹتے ہی اس کو لعن طعن کرنا شروع کر دیں گے تو وہ اور ضد کریگا۔ جہاں تک اس کی حد کا تعلق ہے تو ابھی تک تو کوئی ایسا مسئلہ سامنے نہیں آیا۔ ہاں اللہ نا کرے جب میلاد میں مجرے ہونا شروع ہو جائیں تب آپکی ناراضگی بجا ہو گی۔ ایسا کبھی ہو بھی نہیں سکتا۔
Bullah Jan 29, 2013 07:40pm
maazrat k saath Anwer sahab aap poora article parhe baghair shayad apne walid e buzurgwar ki shaan main gustakhee hotee daikh kar kood pade hain..........meree samajh main naheen aataa ke aap ne Hdees e Rasool SAW bhee naheen padhee jo is Article main dee gaee hai.......aap jese log hain jo zulmat ko roshni or ghalazat ko mithaee samjhe huwe hain. aap kee misal Quran shareef main kuch yoon bayan huwee hai: إِنَّ شَرَّ الدَّوَابَّ عِندَ اللّهِ الصُّمُّ الْبُكْمُ الَّذِينَ لاَ يَعْقِلُونَ یقیناً خدا کے نزدیک بدترین قسم کے جانور وہ بہرے گونگے لوگ ہیں جو عقل سے کام نہیں لیتے۔ الانفال…۲۳
WASEEM ALTAF Jan 30, 2013 11:54am
An excellent satire where Jamil sahib has exposed the ones who have monopolized religion to their advantage.The description and the flow of ideas is remarkable.The writer knows how to present complex issues in a simple fashion while fully capturing the attention of the reader.
شانزے Feb 01, 2013 12:20am
سو فیصد متفق
شانزے Feb 01, 2013 12:29am
کیا معروف نعت خواں اور ماتمی نوحہ پڑھنے والے عشق رسول اور ان کی آل کی محبت میں یہ نذرانہ عقیدت "مفت" پیش کرتے ھیں؟ 
Mansour Haidar Raja Feb 01, 2013 10:41am
پاکستان میں طالبان کی تشدد بھری کاروایوں کے بعد مذہب کا سارا تصور ہی غلظ ہو تا لگ رہا ہے اور گذشتہ ساتھ ستر سالوں سے پرورش پانے والے نظریات اسلام کے نام پر بننے والے ملک پاکستان میں طالبان ازم کے ساے میں کافی تناور درخت بن چکے ہیں اب ہماری ساری تہذیب و ثقافت کو اسلام کے نام نہاد تھیکیداروں سے شدید خطرات لاحق ہیں اور ہر آدمی کے پاس دلیل اور منطق کی جگہ روایت یا حدیث نے لے لی ہے اگر ایک گھر میں کہیی ایک فرد نماز پڑھتا ہے تو وہ بھی اپنے قول وفعل کے اعتبار سمجھتا ہے کہ میں دیگر اہل خانہ کے ساتھ ساتھ اپنے اللہ پر بھی کویی احسان کر رہا ہوں ، اسی طرح مذہبی رسوم کے نام پر بھی بھت سی غلط روایات بھی اسی معاشرے میں مزید پھیل رہی ہیں مثلا کچھ سالوں سے یہاں خدا حافظ کہنا غلط شمار کرا لیا گیا ہے اب ملا لوگوں نے خدا کو بھی اپنے الفاظ میں قید کرنا شروع کر دیا ہے اور پاکستان کو خدا کے نزدیک کرنے کے لیے اب ’’ باکستان ‘‘ بنا دیا گیا ھے خدا کے لیے ہمارا خدا مت چھینو تم اپنے اللہ سے لگے رہو !
Rizwan Feb 01, 2013 03:59pm
dear ap ki batoon se main itfaak kerta hn.ap ne jo kuch likha agr asa raha to is k nataij bohat buray hu gy. Allah Pak se dua he k hum sb ko Muhammad Mustafa S.A.W ki seerat ore quran majeed ko parny samajny ore amal kerny ki tofeeq ata fermay
Raheel Afzal Feb 02, 2013 06:10am
‎"Dr. Aamir Liaquat Hussain” (JAHIL online) The Man! Lacking of intellectual acuity The Real picture of “Incompetence & stupidity Shame on those who are promoting him; they are "Evergreen IDIOTS", time and education can not put any positive change in their mentality. Beware the People Make Fun with QURAN; they present Fake ISLAM (against the Quran) They are not ashamed, nor ready to rectify what they have said in the name of Islam."

کارٹون

کارٹون : 23 دسمبر 2025
کارٹون : 22 دسمبر 2025