• KHI: Partly Cloudy 22.9°C
  • LHR: Clear 16.8°C
  • ISB: Partly Cloudy 12.4°C
  • KHI: Partly Cloudy 22.9°C
  • LHR: Clear 16.8°C
  • ISB: Partly Cloudy 12.4°C

خوش رہنے پر بھی پابندی لگا دی جائے؟

شائع February 14, 2013

valentine 670
حیرت انگیز امر یہ ہے کہ ہندوستان کے بہت سے ہندو شدت پسند مذہبی گروہوں کے رہنماؤں کی توپوں کا رُخ ہمیشہ پاکستان کے مذہبی گروہوں کی جانب رہتا ہے اور پاکستان کے مذہبی گروہ بھی ہندوستان کو اپنا ازلی دشمن قرار دینے پر تُلے رہتے ہیں، یعنی کہ دونوں کا معاملہ گویا آگ اور پانی کا ہے، لیکن بہت سارے معاملات ایسے ہیں جن پر دونوں جانب کے مذہبی شدت پسندوں کا مؤقف ناصرف ملتا جلتا ہے بلکہ بعض چیزوں پر تو ان کے ردّعمل بالکل یکساں ہوتے ہیں۔
السٹریشن — جمیل خان –.

پاکستان الیکٹرونک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی نے ٹیلی ویژن چینلز اور ریڈیو اسٹیشن کی انتظامیہ کو یہ ہدایات جاری کی ہیں کہ وہ اپنے پروگراموں میں ویلینٹائن ڈے کے ذکر سے گریز کریں، اس لیے کہ یہ مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچانے اور نوجوانوں کو بے راہ رو بنانے کا باعث بن رہا ہے۔

پیمرا کی طرف سے جاری کیے جانے والے ایک لیٹر میں کہا گیا ہے کہ “یہ تہوار پیمرا کے ضابطہ اخلاق کے مطابق بے حیائی، بے راہ روی اور پاکستان کی نوجوان نسل کی اخلاقی قدروں کو برباد کرنے کا باعث بن رہا ہے۔”

اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق پیمرا کو یہ شکایات موصول ہوئی تھیں کہ یہ دن چونکہ ہماری مذہبی اور ثقافتی اقدار کے ساتھ مطابقت نہیں رکھتا چنانچہ اس دن کی ٹی وی اور ریڈیو پر تشہیر پر پابندی عائد کی جائے۔ پیمرا نے رات گئے ایک لیٹر الیکٹرانک میڈیا کے تمام اداروں کو جاری کیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ ویلنٹائن ڈے کی مناسبت سے نشر کیے جانے والے پروگرامز سے کسی کے جذبات مجروح نہیں ہونے چاہئیں۔

مذکورہ لیٹرمیں کہا گیا ہے کہ“تمام سیٹیلائٹ ٹی وی چینلز، ایف ایم اسٹیشنز سے درخواست ہے کہ وہ اپنے ناظرین کے جذبات اور رائے کا احترام کرتے ہوئے اپنے کسی پروگرام کا مرکزی خیال یا کسی پروگرام میں ویلنٹائن ڈے کے ذکر سے گریز کریں۔ ”

شکر ہے کہ پیمرا نے صرف گریز کرنے کی درخواست ہی کی ہے، اگر بالفرض مکمل پابندی ہی عائد کردی جاتی تو ٹی وی چینلز سے منسلک پروگرامز پروڈیوسرز، ڈائریکٹرز اور میزبان خواتین وحضرات بیان کرسکیں گے کہ پھر اس صورت میں ان کی گزشتہ ایک ماہ سے کی جانے والی تیاریوں پر راتوں رات کس طرح پانی پھر گیا ہوتا، خاص طور پر ٹی وی چینلز کے مالکان کے دلوں پر کیا گزرتی، جنہیں اس دن سے کروڑوں یا شاید اس سے بھی کہیں زیادہ آمدنی کی توقع ہے۔

پیمرا کے حکام کا کہنا تھا کہ وہ ویلنٹائن ڈے پر نشر کیے جانے والے پروگراموں پر پابندی نہیں لگا رہے ہیں محض ٹی وی چینلز کو  لوگوں کی طرف سے موصول ہونے والی شکایات سے آگاہ کررہے ہیں۔ جماعت اسلامی کے امیر منورحسن اور سیکریٹری جنرل لیاقت بلوچ نے پیمرا کے اس اقدام کی بھرپور حمایت کی ہے۔

   عجیب بات یہ ہے کہ ہندوستان کے ہندو مذہبی گروہوں کو بھی ویلنٹائن ڈے منانے والوں سے اسی طرز کی پریشانیاں لاحق رہتی ہیں، جس طرز کی پریشانی کا اظہار ہمارے ہاں کی مذہبی جماعتیں کرتی آئی ہیں۔ ہندوستان میں بھی اس مغربی تہوار کے خلاف مظاہرے کیے جاتے  ہیں، لیکن نوجوان نسل کی اکثریت نا صرف اس تہوار کو پورے جوش و خروش سے مناتی ہے بلکہ اس تہوار پر سرخ گلاب، تہنیتی کارڈز اور سرخ رنگ کی دیگر خوبصورت اشیاء فروخت کرنے والوں کی تو گویا چاندی ہی ہوجاتی ہے۔

عجیب بات یہ ہے کہ ہندوستان کے ہندو مذہبی گروہوں کو بھی ویلنٹائن ڈے منانے والوں سے اسی طرز کی پریشانیاں لاحق رہتی ہیں، جس طرز کی پریشانی کا اظہار ہمارے ہاں کی مذہبی جماعتیں کرتی آئی ہیں۔ ہندوستان میں بھی اس مغربی تہوار کے خلاف مظاہرے کیے جاتے  ہیں، لیکن نوجوان نسل کی اکثریت نا صرف اس تہوار کو پورے جوش و خروش سے مناتی ہے بلکہ اس تہوار پر سرخ گلاب، تہنیتی کارڈز اور سرخ رنگ کی دیگر خوبصورت اشیاء فروخت کرنے والوں کی تو گویا چاندی ہی ہوجاتی ہے۔

یہی حال یہاں بھی ہے۔ آج کراچی میں صبح کے وقت جبکہ فجر کی اذانیں بھی نہیں ہوئی تھیں، پھولوں کی دکانیں سرخ گلاب کے گلدستوں سے سج چکی تھیں۔ یاد رہے پھولوں کی دکانیں شام کے وقت ہی کھلتی ہیں، لیکن چونکہ آج ویلنٹائن ڈے ہے اور آج دس روپے کا پھول سو روپے کا بھی باآسانی فروخت ہوجائے گا اور ڈیمانڈ اس قدر زیادہ ہوگی کہ پورا کرنا دشوار ہوگا، اسی لیے پھولوں کی دکانیں علی الصبح کھل چکی تھیں۔

حیرت انگیز امر یہ ہے کہ ہندوستان کے بہت سے ہندو شدت پسند مذہبی گروہوں کے رہنماؤں کی توپوں کا رُخ ہمیشہ پاکستان  کے مذہبی گروہوں کی جانب رہتا ہے اور پاکستان کے مذہبی گروہ بھی ہندوستان کو اپنا ازلی دشمن قرار دینے پر تُلے رہتے ہیں، یعنی کہ دونوں کا معاملہ گویا آگ اور پانی کا ہے، لیکن بہت سارے معاملات ایسے ہیں جن پر دونوں جانب کے مذہبی شدت پسندوں کا مؤقف ناصرف ملتا جلتا ہے بلکہ بعض چیزوں پر تو ان کے ردّعمل بالکل یکساں ہوتے ہیں۔

مثال کے طور پر اگر آپ ویلنٹائن ڈے کو ہی لے لیں تو اس حوالے سے یہاں پاکستان میں مذہبی رہنما یہ بیان دیتے آئے ہیں کہ یہ تہوار ہماری مذہبی اور ثقافتی قدروں کی تباہی کا باعث بن رہا ہے۔ جیسا کہ یہاں کل پشاور میں جماعت اسلامی کی ذیلی تنظیم شباب ملی نے پشاور پریس کلب کے سامنے ویلنٹائن ڈے کے خلاف احتجاجی مظاہرے کے دوران یہ مطالبہ کیا تھا کہ حکومت ویلنٹائن ڈے منانے والوں کو روکے ورنہ دوسری صورت میں ہم خود انہیں بالجبر روک دیں گے۔ شباب ملی پشاور کے صدر شہزاد احمد نے اس موقع پر مظاہرین سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ یہ مغربی تہوار نوجوانوں کوبے حیائی پر اُکساتا ہے۔

اب آجائیں سرحد کی دوسری جانب، کل امرتسر میں شیوسینا نے ویلنٹائن ڈے کے خلاف احتجاجی مظاہرہ کیا جس میں ویلنٹائن ڈے کے پوسٹرز کو نذرِ آتش کیا گیا۔ شیوسینا کے رہنماؤں کے بھی وہی الفاظ تھے کہ حکومت ویلنٹائن ڈے منانے سے لوگوں کو روکے ورنہ ہم از خود کارروائی کریں گے۔

جیسا کہ یہاں ہرسال اس دن کے خلاف شدید مظاہرے ہوتے ہیں، بعض جگہ توڑ پھوڑ اور مار پیٹ کے واقعات بھی سننے میں آتے ہیں، اور اُدھر انڈیا میں ہر سال شدت پسند تنظیمیں ویلنٹائن ڈے منانے والوں کے خلاف ازخود کارروائی کا اعلان کرتے ہیں لیکن اس کے باوجود ہندوستان کے لوگوں کی ایک بہت بڑی تعداد یہ مغربی تہوار نہایت اہتمام سے مناتی ہے، جس طرح ہمارے ہاں بڑے چھوٹے شہروں کی دکانوں میں گلاب کے پھول، ویلنٹائن ڈے کے تحائف، چاکلیٹس، کارڈز اور دیگر لوازمات بہت بڑی تعداد میں فروخت ہوتے ہیں۔

پاکستان کے حوالے سے تو اعداد و شمار ہمیں دستیاب نہیں ہوسکے لیکن اُدھر انڈیا میں زی نیوز کے مطابق ایسوسی ایٹس چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری آف انڈیا کی طرف سے جاری ہونے والی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ہندوستان بھر میں ویلنٹائن ڈے پر  پندرہ ارب روپے کا کاروبار ہوگا۔

مذکورہ رپورٹ کے مطابق انڈیا میں کال سینٹرز، آئی ٹی کمپنیز اور بڑی کمپنیوں میں کام کرنے والے نوجوان اس دن ایک ہزار  روپے سے لے کر پچاس ہزار  روپے تک خرچ کرتے ہیں، جبکہ طلباء پانچ سو روپے سے دس ہزار روپے کے درمیان خرچ کرتے ہیں۔

اس سال انڈیا میں ویلنٹائن ڈے پر گزشتہ سال کے مقابلے میں بیس فیصد زیادہ خرچ کی امید ہے۔ جیسے جیسے اس تہوار کی مخالفت میں اضافہ ہورہا ہے، اسی رفتار سے اس تہوار پر لوگوں کی طرف سے خرچ کی جانے والی رقم کی مجموعی مقدار میں بھی اضافہ ہورہا ہے۔

یہ تو خیر دنیا بھر کی روایت رہی ہے کہ تہوار معیشت کی رفتار کو معمول سے بہت زیادہ تیز کردیتے ہیں۔ لوگوں کی بڑی تعداد جب ایک دن کے لیے سال بھر کے مقابلے میں کہیں زیادہ خرچ کرتی ہے تو پھر معیشت کا پہیہ جو ایک ایک قدم چل رہا تھا اچانک بھاگنے لگتا ہے۔ چنانچہ کاروباری ادارے اور بڑے سرمایہ دار اس طرح کے ایونٹ سے خوب فائدہ اُٹھاتے ہیں اور میڈیا کے ذریعے لوگوں کو زیادہ سے زیادہ خرچ کرنے کے لیے اُکساتے ہیں۔ مثال کے طور پر ہمارے ہاں قربانی کا تہوار بھی اب کارپوریٹ کلچر کا رنگ ڈھنگ اختیار کرچکا ہے، جس میں آپ کو سب کچھ ملے گا لیکن قربانی یعنی ایثار شاید نہ مل سکے۔

ویلنٹائن ڈے پر اعتراض کرنے والوں میں ایک طبقہ ایسا بھی ہے جو یہ کہتا ہے کہ محبت کے لیے ایک دن ہی کیوں مخصوص کیا جائے۔ لیکن کسی چیز کے اظہار کے لیے کوئی نہ کوئی وقت مخصوص کردیا جائے تو کوئی بُرائی بھی نہیں۔ اب آجائیں اس دن کو بے حیائی کے فروغ کا ذریعہ کہنے والوں کے نکتہ نظر کی جانب تو ہر دور میں بے حیائی کے پیمانے مختلف رہے ہیں، اسی طرح مختلف خطوں میں بھی یہ پیمانے مختلف  ہیں۔

ایک زمانہ تھا کہ جب  ثقافتی قدریں خطوں، ملکوں اور شہروں کوتو چھوڑیئے قصبوں تک میں یکسر مختلف ہوا کرتی تھیں۔ یہ وہ زمانے تھے جبکہ ذرائع آمدورفت اور کمیونیکیشن کے ذرائع یا تو موجود ہی نہیں تھے یا پھر آج کے مقابلے میں ان کی رفتار نہایت سُست تھی۔ آج دنیا محض لفظی طور پر ہی نہیں حقیقی معنوں میں ایک عالمی گاؤں بن چکی ہے۔ جس طرح آج کی تھری جی استعمال کرنے والی نئی نسل کو اندازہ نہیں کہ پُرانی نسل کو خط کے جواب کا انتظار کرنا بھی ایک لطف دیا کرتا تھا، اسی طرح پُرانی نسل کے وہ لوگ جو ماضی کی رومانیت میں مبتلا ہیں اور روایت پرستی پر ڈٹے رہنا چاہتے ہیں، وہ آج کی نسلوں کے ذہنوں کی رفتار کو سمجھنے سے قاصر ہیں۔ شاید انہیں اندازہ نہیں ہے یا پھر وہ اس کیفیت کو محسوس نہیں کر پائے ہیں کہ آج کے دور میں ہم خیال لوگوں کی بیٹھک فیس بک پر جمتی ہے، جس میں کوئی کینیڈا سے تو کوئی آسٹریلیا سے اور کوئی صاحب لندن سے کراچی میں بیٹھے اپنے دوست سے تبادلۂ خیال کرتے ہیں۔

   اب تک ہم نے تو یہی دیکھا ہے کہ روایات پرستوں نے جس چیز کی جتنی شدت سے مخالفت کی، لوگ اتنی ہی شدت سے اُسے اپناتے چلے گئے۔ چنانچہ منفی اور مثبت اثرات دونوں ہی سامنے آئے، بعض معاملات میں منفی اس لیے زیادہ محسوس ہوئے کہ پُرانی نسل نے اگلی نسل کے لیے جدید چیزوں کے حوالے سے کوئی ضابطۂ اخلاق ترتیب نہیں دیا تھا اور وہ یہ کام کرتے بھی تو کیسے کہ انہیں تو اس کی مخالفت سے ہی فرصت نہیں تھی

اب تک ہم نے تو یہی دیکھا ہے کہ روایات پرستوں نے جس چیز کی جتنی شدت سے مخالفت کی، لوگ اتنی ہی شدت سے اُسے اپناتے چلے گئے۔ چنانچہ منفی اور مثبت اثرات دونوں ہی سامنے آئے، بعض معاملات میں منفی اس لیے زیادہ محسوس ہوئے کہ پُرانی نسل نے اگلی نسل کے لیے جدید چیزوں کے حوالے سے کوئی ضابطۂ اخلاق ترتیب نہیں دیا تھا اور وہ یہ کام کرتے بھی تو کیسے کہ انہیں تو اس کی مخالفت سے ہی فرصت نہیں تھی، وہ اس حقیقت کا ادراک کرنے سے قاصر رہے کہ کل یہ چیز ہمارے معاشرے کا حصہ بن جائے گی۔ مثال کے طور پر سرسید کے زمانے میں کسی مسجد کے مولوی نے اپنی تقریر کے دوران بے دھیانی میں انگریزی زبان کا کوئی لفظ استعمال کرلیا تو اسے لوگوں نے مار مار کر ادھ موا کردیا تھا۔

آج بھی ٹی وی، انٹرنیٹ اور موبائل فون کو معاشرے میں خرابیوں کا ذمہ دار بتایا جاتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ جب یہ چیزیں موجود نہیں تھیں تو کیا معاشرے میں صرف اچھائیاں ہی اچھائیاں تھیں؟

نوجوان نسل میں جوش اور ولولہ بھرا ہوتا ہے، جبکہ عمر زیادہ ہوجائے تو مزاج میں ٹھہراؤ پیدا ہوجاتا ہے۔ نوجوانوں کے جوش کو لگام دینے کی ہردور میں ہی کوشش کی جاتی رہی ہیں اور یہ کوششیں ناکامی سے بھی دوچار ہوتی رہی ہیں۔ کیا یہ بہتر نہ ہو گا کہ نوجوانوں کے جوش کو لگام سےباندھ کر انہیں روکنے کے بجائے انہیں سرپٹ دوڑنے کے لیے صاف ستھرا راستہ فراہم کردیا جائے، ایسا راستہ جہاں پر ان کے ٹھوکر لگ کر گرنے اور چوٹ کھانے کے امکانات بھی نہ ہوں اور ان کی جذباتی توانائی کا مثبت استعمال بھی ہوسکے۔


Jamil Khan 80   جمیل خان نے لکھنے پڑھنے کو گزشتہ بیس سالوں سے اوڑھنا بچھونا بنایا ہوا ہے، لیکن خود کو قلم کار نہیں کہتے کہ ایک عرصے سے قلم سے لکھنا ترک کرچکے ہیں اور کی بورڈ سے اپنے خیالات کمپیوٹر پر محفوظ کرتے ہیں۔

تبصرے (10) بند ہیں

شانزے Feb 14, 2013 09:06pm
Mullah and the torch-bearer, both from the same flock Guiding others, themselves in the dark (Bulleh Shah)
Muhammad Waqas Feb 15, 2013 04:28pm
Khan Sb, agar ap kabotar ki terha apni ankhien band ker lein to aur baat hai lakin yeh haqeqat hai k Valentine day aisay sookha bht kam manaya jata hai app samaj to gaye hoon gay na..... yahan app nay sirf apni mashori k liye yeh sb likha hai agar app apnay irad gird nazar doraien to app k samnay sari haqeqat ajai gi, lehaza mer ap ko mashwara hai k ap wo likha kerien jo sach hai na k apni wah wah k liye
زوہیب مغل Feb 16, 2013 10:47am
اوے نادان ملاں۔ اگر تو اور تیری جہالت ہمیں " سسی پنوں ، سمی راول، سوہنی مہیوال، ہیر رانجھا" کے میلے لگانے دیتی، صوفیاء کے گیت گانے دیتی، ہمیں ہماری اپنی دھرتی کے عاشقوں کے دن منانے دیتی تو آج یورپ کی فیشن اینڈ کاسمیٹکس انڈسٹری تیسری دنیا کے غربت زدہ آبادی کے جنگل میں "ویلنٹائن ڈے" کا بزنس نہ کرتی۔ ملاں تیری جہالت نسلوں کو برباد کرگئ ہے۔ جس کا کوئ ازالہ نہیں۔
ابن آدم Feb 16, 2013 11:16am
وقاص صاحب کبوتر کی طرح آنکھیں تو ان کی بند ہیں جو ان حقائق کو.. ..مشہوری سمجھتے ہیں ذرا ریت سے سر نکل کر دیکھئے کیا یہ سچ نہی ہے یا سچ صرف وہ ہے جو آپ سننا چاہتے ہیں اگر آپ میں ہمّت ہے تو براہ مہربانی کچھ لکھیں سچ ..بلاگ تو اوپن فورم ہے پتا تو چلے کے آپ کے تھیلے میں کیا ہے بلي تو يو نہي مفت ميں بد نام ھوئي ہے تھيلے ميں تو کچھ اور تھا سامان وغيرہ
ابن آدم Feb 16, 2013 11:19am
آج بھی ٹی وی، انٹرنیٹ اور موبائل فون کو معاشرے میں خرابیوں کا ذمہ دار بتایا جاتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ جب یہ چیزیں موجود نہیں تھیں تو کیا معاشرے میں صرف اچھائیاں ہی اچھائیاں تھیں؟ بہت عمدہ جمیل خان صاحب سلامت رہیں
zar Qu Feb 16, 2013 11:37am
ملاں کی خُشک دماغی نے یہاں صحرا کا خُشک، بنجر اور بے رنگ کلچر ہم پر ٹھونس دیا ہے۔ہمارا کلچر تو محبت ،میوزک اور فن کا کلچر ہے۔مذہب کی آڑ میں ہم پر بھدّا اور کرخت کلچر لاگو کردیا جو کسی بھی طرح ہمارے مزاج کا حصہ نہیں بن سکا ۔اسلئے اسکو سیاسی طور پر لاگو کیا گیا تب بھی ناکامی ہوئ تو اب تشدد کے ذریعے اسے ہم پر لادنے کی کوشش کی جارہی ہے
chandio Afi Feb 16, 2013 11:47am
Mr Muhammad Waqas; Ankhon se andha hona aqal k anadhay hone se behater hota hay..kion k aqal se aari log insaiat k dairay se kharj hi samjhay jate hen... wohi aqal k andhay (Mullan) dunya ko na maqool samjhne lagatay hen....ap ko is write-up me kon si cheez jhot lagi hay ye to nhi maloom jb k ap ne bhi bayan nahi kia....ap ne Jamil khan ko us k irad gird k mahol pr nazar dalne ki salah di hay, or aitraz wali baat ye ki hay k Valentine day (Sookha) nhi mana jata hay...am I write...? haqiqat kia hay kia nahi hay....? ye to sab janate hi hen lakin lakin ap mulan logon ko takleef sirf is lye hay k hamre mazhab me muhabat jesi pakezza jabay k lye koi jagah nahi hay... wohi meharoomi hay jo ap logon ko tasabparst bana deti hay...!
Affaf Azhar Feb 16, 2013 03:10pm
ویلنٹائن ڈے ... خصوصی تحریر ہماری گنگا حقیقت میں الٹی ہی بہتی ہے جہاں ہم وقت کے تیز بہاؤ کے ساتھ بہنے کی بجائے اسکے آگے بند باندھ کر یوں کھڑے ہو جاتے ہیں کہ گویا ہماری مخالفت سے وقت ٹہر جائے گا ، بہاؤ اپنا رخ بدل لے گا یا پھر یہ دنیا ہماری سوچ اپنا لے گی. مگر یہ نہیں سوچتے جو وقت کے ساتھ نہ چلے وقت اسے روند کر گزر جاتا ہے . بند کبھی تیز بہاؤ کا راستہ نہیں بدلا کرتے ہاں بلکہ الٹا اس کی شدت میں کئی گنا اضافہ کر ڈالتے ہیں . مغرب کے ساتھ بھی ہمیشہ سے ہمارا کچھ ایسا ہی ایک روایتی ساس بہو کا رشتہ رہا ہے کہ انکی پکائی ہوئی روٹیاں بھی کھا تے ہیں اور ان پر کڑی تنقید بھی اپنا حق سمجھ کر ہی کرتے ہیں . انکی اچھائیوں کو نظر انداز کرتے اور اگر برائی مل جائے تو یوں اچھالتے ہیں گویا کہ اپنا دامن تو دودھ سے ہی دھلا ہوا ہو . اور تو اور مغربی تہواروں سے تو ہم گویا سوتن والا بیر رکھتے ہیں . ویلنٹائن ڈے کو لیکر دیکھ لیجئے کہ ہماری جہالت کی انتہا نہیں تو اور کیا ہے کہ محبت کے لفظ ہی سے اتنا بیر کہ ملک بھر میں اسکا تماشا بنا رکھا ہے ،یہاں تک کہ اس کو مٹانے کے لئے اسلام کے شیدائیوں نے چودہ فر و ری کے دن یوم حیا منانے کا فیصلہ کر لیا ہے . کہ ظاہر سی بات ہے کہ جس کے پاس جو چیز نہیں ہو گی وہ اسی کا اہتمام کرے گا نا ؟ مغرب کے پاس محبت نہیں تو مشرق کے پاس حیا .اگر مقابلہ مغرب سے ہی کرنا ہے تو فقط یہی ایک دن کیوں ؟ مغرب اگر چاند پر گیا تھا تو آپ مریخ پر کیوں نہیں چلے گئے ؟ مغرب کی باقی سبھی ایجادات کے سامنے آپکی یہ مقابلے کی حس کیوں منجمد ہو چکی ہے ؟ مغرب تو اپنے شہریوں بطور خاص اقلیتوں کے انسانی حقوق پر بھی سختی سے کاربند ہے اب یہاں اس میدان میں اپنی اسی اسلامی غیرت کا مظاہرہ یہاں مغرب سے کیوں نہیں کرتے ؟ مغرب نے اپنے معاشروں کو قانون کی عزت کرنا سیکھایا ہے اس معاملے میں بھی تو مغرب کو مات دیجئے نا ؟ اور پھر آپکے ہاں سال بھر بغض و نفرت کے تہوار ایک عبادت سمجھ کر منائے جاتے ہیں . کبھی یوم قادری کے نام پر حیوانیت کی تال پر ٹھمکے لگائے جاتے ہیں ، تو کبھی توہین رسالت کے نام پر اقلیتوں کے لہو کی ندیاں بہا کر درندگی کے رقص کئے جاتے ہیں ، خواتین کی تو بات ہی چھوڑیں وہ تو ہمارے گھر ہوں یا چوراہے مساجد ہوں یا انصاف کے کٹہرے ذلت ہی ذلت انکا مقدر ہے کہ ہمارے نزدیک تو سال بھر انکو جوتے مارنا خالصتا اسلامی اور انسے ایک دن محبت کا اظہار کر دینا قطعا غیر شر عی ہے . ہم تو سال بھر نفرت کے جشن ایسے مناتے ہیں گویا کہ ہم خدا کے آگے نہیں بلکہ ابلیس کے آگے سجدہ ریز ہیں . یہاں یہ سوچ بھی غلط ہے کہ ایک ہی دن محبت کا کیوں منایا جاتا ہے کہ فقط چودہ فر و ری ہی کیوں ؟ کہ دن منانے سے محبت صرف ایک دن کے لئے مخصوص نہیں ہو جاتی بلکہ دن منانے کا مقصد اسکی اہمیت کو اجاگر کرنا ہوتا ہے . اگر کینسر سوسایٹی والے سال میں ایک دن کینسر کا مناتے ہیں تو کیا کینسر سال میں باقی کسی اور دن نہیں ہو سکتا ؟ نہیں بلکہ اسکا مقصد آپکی توجہ کینسر کی اہمیت پر مرکوز کرنا ہے . اگر انسانی حقوق کی تنظیمیں سال میں ایک دن انسانیت کے نام کرتی ہیں تو باقی دن انسانیت کا پاس کرنا حرام نہیں ہو جاتا ہے ؟ . اگر ایک دن امن کے نام ہوتا ہے تو کیا باقی دن بد امنی سے رہنا جائز ہو گا ؟ یقینا نہیں کیوں کہ اسکا مقصد آپکی نظر میں قانون کی اہمیت ثابت کرنا ہے . اور اسطرح اگر ایک دن لیبر ڈے منایا جاتا ہے تو کیا باقی سال مزدوروں پر ظلم کرنا جائز ہو گا ؟ نہیں کیوں کہ مزدوروں کے حقوق کی پاسبانی کا احساس دلانا ہی اس دن کا مقصد ہے . یہاں ایک دن فیملی ڈے بھی منایا جاتا ہے تو کیا باقی کے دن فمیلی کے ساتھ نہیں گزارے جا سکتے ؟ کہ خاندانی زندگی کی اہمیت کو اجاگر کرنے کا مطلب یہ نہیں کہ آپ ایک ہی دن خاندان کے ساتھ رہیں . اور بلکل اسی طرح ریممبرنس ڈے دوسری جنگ عظیم کے شہدا کی یاد میں منایا جانے والا دن بھی ہے مگر کیا باقی سال بھر انکو یاد کرنا حرام ہے ؟ یقینا نہیں کیوں کہ یہاں بھی مقصد اپنی تاریخ کو یاد رکھنا ہی ہے . اور اب جہاں تک محبت کے نام منائے جانے والے اس دن کی بات ہے تو محبت کو مخصوص کر دینا فقط ایک سطحی سوچ اور جہالت کے سوا کچھ نہیں . کہ محبت کا لفظ اپنے اندر بہت وسعت رکھتا ہے .کہ خالق اور مخلوق کے درمیان اگر کچھ ہے تو فقط محبت اور انسان اور انسان کے درمیان بھی یہی محبت ہے . گویا کہ محبت ہی فطرت ہے .اب یہ ہر انسان کی اپنی اپنی سوچ ہے اور اپنا اپنا انداز کہ چاہے تو اس میں انفرادیت اپنا لے اور اگر چاہے تو اس میں اجتماعیت بھی سمو دے .چاہے تو اسے اپنی ذاتیات تک ہی مخصوص رکھے اور اگر چاہے تو اسے سماجی سطح پر لے آئے . اگر چاہے تو اپنی ذات کو فقط ایک ہی انسان میں سمو دے اور اگر چاہے تو کل کائنات ہی اپنی ذات میں لے آئے .چاہے تو اس دن کو فقط اپنے محبوب کے نام کر دے اور اگر چاہے تو اپنی زندگی کو ہی وہ محبوب بنا ڈالے کہ اس سے جڑے ہر انسانی رشتے پر پیار ہی پیار لٹائے لگے . جیسا کہ : ہر اک نظر اپنی اپنی روشنی تک جا سکی ہر کسی نے اپنے اپنے ظرف تک پایا مجھے عفاف اظہر
Affaf Azhar Feb 16, 2013 03:25pm
واہ بہت عمدہ جمیل خان صاحب ، حقیقت بھری تحریر ہے اسکے جواب میں میں نے اپنی رائے ایک تحریر کی صورت میں بھی پوسٹ کر دی ہے .
mahtab2010 Feb 17, 2013 02:48am
ہمارے ہاں ایک چھوٹی سی اقلیت ایسی ہے جو مغرب سے آنے والی ہر چیز کو ایمپوٹڈ قرار دے کر اسے اپنانا فخر کا باعث جانتی ہے۔احساس کمتری کے مارے ہوئے ان لوگوں کا ایک المیہ یہ بھی ہے کہ بے غیرتی کی اس معراج کو نہیں پہنچ سکتے جو مغرب والوں کو سور کا گوشت بکثرت استعمال کے بعد حاصل ہوئی ہے، لہذا یہ انہوں نے منافقت کی معراج حاصل کی ہوئی ہے۔ اپنی محبوبہ کو ویلنٹائن گفٹ دینے سے لے کر اس کے ساتھ رات گرازنے تک میں کسی قسم کی رکاوٹ انہیں قبول نہیں۔ لیکن ان کی اپنی بہن یا پیٹی کسی کی محبوبہ بنے یہ انہیں گوارا نہیں۔ کتنے ایسے ہیں جو بہن کو اپنی ماں، بہن اور بیٹی کو کہتے ہیں کہ آج ویلنٹائن ڈے پارٹی ہے میں دو پاس تمہارے لئے لایا ہوں اپنے بوئے فرینڈ کے ساتھ انجوائے کرنا؟ اور کتنی ایسی ہیں جو باپ یا بھائیوں کو بتا کر جاتی ہیں کہ میں اپنے بوائے فرینڈ کے ساتھ جا رہی ہوں رات کو گھر نہیں آوں گی؟

کارٹون

کارٹون : 24 دسمبر 2025
کارٹون : 23 دسمبر 2025