سندھ بدل رہا ہے
سندھی قوم پرست سیاست سے متعلق تصور رہا ہے کہ یہ سیکولر، ترقی پسند، اینٹی اسٹیبلشمنٹ اور دائیں بازو کے اثرات کی حامل ہے۔ کیا یہ نقطہ نظر اب بھی درست ہے؟
حالیہ دہائیوں کے دوران صوبے کی سیاست میں متعدد تبدیلیاں رونما ہوچکیں۔ اگرچہ اب بھی سیاسی جماعتیں دعویٰ کرتی ہیں کہ وہ سندھ کے مفادات اوراس کے لوگوں کے لیے لڑ رہی ہیں۔ کیا یہ سچ ہے؟ کیا جاگیرداروں، قبائلی سرداروں اور مذہبی رجعت پسندوں کے خلاف لڑنا ان کا اب بھی بنیادی مقصد ہے؟ کیا ماضی کی طرح اب بھی پسماندہ طبقوں بالخصوص ہاری، اب بھی ان کی قومی جدوجہد کا حصہ ہیں؟
یہ تب کی باتیں ہیں۔ اب تو سندھ کی سیاسی جماعتیں ان مسائل کے بارے میں بات بھی نہیں کرتی ہیں۔
اب تو شاذ ہی یہ مسائل حل کرتے ہوں البتہ ماضی میں اُن پر اس طرح کے مسائل حل کرنے کے لیے دباؤ ہوتا تھا اور وہ خنداں پیشانی سے عوامی مفادات کے مسائل حل کرتی تھیں۔
جاگیردار، وڈیرے اور سردار پہلے سے زیادہ طاقت ور ہوچکے ہیں۔ قبائلی تنازعات اور قبیلوں کی ذیلی ذاتوں میں تقسیم در تقسیم کو ہوا دے کر، انہوں نےاپنی قوت کو مزید مجتمع کرلیا ہے۔
علاوہ ازیں، سندھ کے بارے میں 'صوفیوں کی سرزمین' کا تصور بھی وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مدھم پڑتا جارہا ہے۔
اس بات سے قطع نظر کہ ہندو لڑکیوں کو جبری طور پر مسلمان کیا جارہا ہے، حقیقت یہ ہے کہ پورے سندھ میں تیزی سے مدارس کی تعداد بڑھتی جارہی ہے۔
دیگر رجانات کا اندازہ ملنگ (درویش) کو توہینِ مذہب کے الزام میں نذر آتش کرنے سے لگایا جاسکتا ہے۔ ہجوم میں مختلف سیاسی جماعتوں کے پرچم تھامے لوگ شامل تھے، علاوہ ازیں متعدد درگاہوں پر حملے بھی ہوچکے ہیں۔
یہ واقعات سندھ کی سیکولر فطرت پر سوال اٹھاتے ہیں۔ یہ سوالات صورتِ حال کے ازسرِ نو تجزیے کا مطالبہ کرتے ہیں اور ساتھ ہی تعلیم کے پھیلاؤ اور لوگوں کو مزید جمہوری خطوط پر منظم کرنے کی ضرورت کا اظہار بھی ہیں۔
یہ سیکولر اور ترقی پسند جماعتیں ہی ہیں جو اس صورتِ حال سے باہر نکالنے کے لیے کچھ کرسکتی ہیں۔
دائیں بازو کی سیاست ہی وہ مرکزی قوت ہے جس سے قوم پرست جماعتیں بھی متاثر ہیں اور یہی ان کو، ان مسائل پر موقف اختیار کرنے پر مجبور کرسکتا ہے، تاہم وقت گرنے کے ساتھ ساتھ اور مختلف وجوہات کی بنا پر، دائیں بازو والے بھی قوم پرست جماعتوں کا حصہ بن کر اپنی علیحدہ شناخت کھو بیٹھے ہیں۔
قومی سطح کی سیاسی جماعتیں، جن کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ حقوق کے حصول میں ان کی طبقاتی جدوجہد کلیدی حیثیت کی حامل ہے، وہ بھی ان معاملات پر اپنا موقف تبدیل کرچکی ہیں۔
اب وہ بھی طبقاتی دشمنوں کے درمیان اتحاد کی باتیں کر کے، اپنے اوپر سے طبقاتی سیاست کا بوجھ اتار کر پھینک چکی ہیں۔
حتیٰ کہ یہ ستم ظریفی تو دیکھیے کہ طبقے کی بنیاد پر قائم سندھ ہاری کمیٹی جو ہاریوں (کسانوں) کی جدوجہد کے لیے قائم ہوئی تھی، اب وہ اپنا بنیادی مقصد چھوڑ کر قوم پرست سیاست میں زیادہ سرگرم ہوچکی ہے۔
ایک طویل عرصہ گزر چکا مگر سندھ کے باشندوں کو درپیش داخلی، سماجی، سیاسی اور معاشی مسائل پر بائیں بازو والوں نے کوئی موقف اختیار نہیں کیا۔ یہ اپنے آپ کو زیادہ تر سندھ کے لسّانی و نسلی نوعیت کے جذباتی معاملات تک محدود کرچکے ہیں۔ اسی موقف نے انہیں ذرائع ابلاغ کی حد تک زندہ رہنے میں مدد کی ہے۔
درحقیقت ایک یہ بھی تصور پھیلتا جارہا ہے کہ انہوں نے بڑے بڑے وڈیروں اور قبائلی سرداروں کے خیالات اور طور طریقے اختیار کر لیے ہیں اور اب وہ قومی حقوق کی جدو جہد میں اُن کے اتحادی بن چکے، حالانکہ سردار اور وڈیرے کبھی اُن کے سیاسی مخالفین اور سندھ کے باشندوں کے حقوق کے غاصب شمار ہوتے تھے۔
تاہم بعض کا یہ خیال بھی ہے کہ ایسی جماعتیں سمجھتی ہیں کہ ان کی مخالفت کرنے سے سندھ تقسیم اور عوامی حقوق کے حصول کی جدو جہد کمزور پڑسکتی ہے۔
تاہم سندھی قوم پرستی کی واپسی کا سفر پیپلز لوکل گورنمنٹ کی منظوری کے بعد، اس پر کی جانے والی مخالفت کی صورت میں بھی جھلکا تھا، جس کی سڑکوں حتیٰ کہ ایوان میں بھی بڑی مخالفت کی گئی تھی۔
اس قانون کو متحدہ قومی موومنٹ کے ساتھ مفاہمت کی صورت دیکھا گیا تھا، جس کے تحت سندھ کے اندر تقسیم کردی گئی تھی۔
در حقیقت (سن دو ہزاربارہ کی آخری سہ ماہی میں متعارف کرایا گیا پیپلز لوکل گورنمنٹ ایکٹ) پاکستان پیپلزپارٹی کی ایک بہت بڑی غلطی تھی۔
گذشتہ چالیس سالوں میں پہلی باراس ایک غلطی نے قوم پرست جماعتوں کوکھل کر ان کی مخالفت کرنے کاموقع فراہم کیا۔ پورا سندھ اس کے خلاف سراپا احتجاج تھا اور اس نے پیپلز پارٹی کو پیچھے ہٹنے پر مجبور کیا۔
تاہم حال ہی میں حکومتِ سندھ نے اس قانون کو بوجوہ واپس لے کر، سن اُنیّسو اناسی کا، جنرل ضیاء الحق کا متعارف کردہ لوکل گورنمنٹ آرڈیننس دوبارہ لاگو کردیا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ بلدیاتی بل کی منظوری پر پورے سندھ میں اتنا شدید احتجاج ہوا تھا کی جس کی نظیر سن اُنیّسو تراسی تا سن اُنیّسو چھیاسی، صوبے میں جاری بحالیِ جمہوریت تحریک (ایم آرڈی) میں ہی دکھائی دیتی ہے۔
سندھ کے باشندے اس موقع پرقوم پرست جماعتوں کی حمایت نہیں کررہے تھے بلکہ وہ اس بل کی منظوری کو پیپلز پارٹی کی سندھ کے ساتھ غداری سمجھتے ہوئے سراپا احتجاج تھے۔
اس احتجاج کو قوم پرست جماعتوں نے پیپلز پارٹی مخالف جذبات میں تبدیل کیا اور اس کے لیے بعض قومی جماعتوں کی حمایت بھی حاصل کی، حالانکہ اس کی کوئی ضرورت نہ تھی۔
در حقیقت لوگ اب ان جماعتوں کا رخ کرنے لگے ہیں۔ وہ اب تبدیلی اور پیپلز پارٹی کا متبادل چاہتے ہیں لیکن اس کے ساتھ ہی وہ یہ بھی خواہش رکھتے ہیں کہ قوم پرست جماعتیں بھی خود کو تبدیل کریں۔
عوامیِ ردِ عمل سے تو یہی لگتا ہے کہ وہ سیاسی جماعتوں کی توقعات سے بہت آگے نکل چکا تاہم ان میں اتنی تنظیمی استعداد موجود نہیں تھی کہ وہ اسے منظم کر کے طویل المعیاد تحریک میں تبدیل کرسکتے۔ اُن کا مقصد ایک تھا پیپلز پارٹی کی مخالفت، لہٰذا ایسے میں یہ عوامی توقعات پر پورا نہیں اُتر سکیں۔
بجائے اس کے کہ قوم پرست جماعتیں اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے لوگوں کو منظم کر کے، مستقبل کے حوالے سے اپنا سیاسی، سماجی اور معاشی تبدیلیوں کا لائحہ عمل دیتیں، وہ بدستور ہڑتالوں اور احتجاجی مظاہروں کی کال دیتے رہے۔
اس صورتِ حال میں وہ جو سب سے بہتر کام کر سکتے تھے، انہوں نے کیا۔ انہوں نے اسمبلیوں اور اس سے باہر موجود پیپلز پارٹی کی مخالف جماعتوں، جیسے پاکستان مسلم لیگ نون اور پیر پگارا کی مسلم لیگ فنکشنل سے اتحاد قائم کیا، جن کا اُن سے یکسر مختلف سیاسی ایجنڈا ہے۔
اگر ان جماعتوں اور معاصر قوم پرستوں کا تقابلی جائزہ لیں تو سندھ میں پیپلز پارٹی کے خلاف جذبات کا فائدہ دوسری جماعتوں کو پہنچا۔ (اس کی وجہ ان کی زیادہ بہتر تنطیم اور صورتِ حال کو دیکھنا تھا)۔ ساتھ ہی ان (قوم پرست) جماعتوں نے سندھ میں بڑے بڑے جاگیرداروں، قبائلی سرداروں اور روحانی قائدین کے ہاتھ بھی مزید مضبوط کیے۔
مضمون نگار فری لانس صحافی ہیں۔ ترجمہ: مختار آزاد











لائیو ٹی وی