قصّہ خوانی کا قصّہ
برصغیر کی تاریخ میں ہونے والے چند تاریخ ساز لیکن خونی واقعات اپریل کے مہینے میں واقع ہوئے۔
اپریل سن 1919 میں امرتسر کے جلیانوالہ باغ میں بیساکھی کے موقعے پر اکٹھے نہتے عوام پر برطانوی راج کے نشے میں مخمور جنرل ڈائر نے گولی چلانے کا حکم دیا۔ باغ کے داخلی دروازے بند کیے جا چکے تھے۔ سینکڑوں افرا د اس روز اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے اور اس قتل عام کی سزا کسی کو نہیں ملی۔
اس واقعے کے گیارہ سال بعد اسی نوعیت کا ایک اور شرمناک واقعہ پشاور میں پیش آیا۔ اپریل 1930 میں انگریزی سامراج کے نمائندوں نے قصہ خوانی بازار میں موجود نہتے افراد پر صبح 11 سے شام 5 بجے تک گولیوں کی بوچھاڑ کی۔ سینکڑوں افراد اس روز خالق حقیقی سے جا ملے۔ دیکھنے والوں نے بتایا کہ کس طرح ایک کے بعد ایک شخص سینہ تان کر انگریز فوج کی بندوقوں کے آگے ڈٹ کر کھڑا ہوتا اور کئی افراد کو بیس سے زائد بار گولی کا نشانہ بنایا گیا۔
جلیانوالہ باغ کی راکھ سے بھگت سنگھ اور اس جیسے انقلابیوں نے جنم لیا تو قصہ خوانی کے سانحے کے نتیجے میں خدائی خدمتگاروں کی تحریک رونما ہوئی۔
خدائی خدمتگار تحریک کے سرخ پوش کارکنان نے تشدد کی بجائے امن اور سلامتی کو اصول بنایا اور برطانوی راج کی مخالفت بندوق کی بجائے تعلیم، صحت اور دیگر ہتھیاروں کے ذریعے کی۔ آج پاکستان کی نصابی کتابوں میں سانحہ قصہ خوانی اور خدائی خدمتگاروں کا ذکر تک موجود نہیں۔
گزشتہ چند دنوں میں خدائی خدمت گاروں کی وارث جماعت عوامی نیشنل پارٹی کے انتخابی امیدواروں کو یک بعد دیگرے اس دنیا سے روانہ کیا گیا ہے۔ اس بربریت اور صریح دہشت گردی پر دیگر سیاسی جماعتوں کی جانب سے کوئی احتجاجی آواز بلند نہیں ہوئی جو کہ جمہوری حوالے سے ایک شرمناک قدم ہے۔ سب جانتے ہیں کہ قاتل کون ہے لیکن بقول مصطفی زیدی، ’تمام شہر نے پہنے ہوئے ہیں دستانے‘۔
گزشتہ پانچ سال کے دوران سب سے زیادہ قربانیاں عوامی نیشنل پارٹی کے کارکنان نے دیں اور تمام تر معاشی بدعنوانیوں کے باوجود اس ملک میں جمہوریت کو قائم رکھنے میں ان کا نمایا ں کردار ہے۔
ابھی ریٹرننگ افسران کے کارناموں کو زیادہ وقت نہیں گزرا اور اس بات پر غور کرنا ضروری ہے کہ امیدواروں سے ہنی مون اور غسل کے فرائض تک پوچھنے والوں کو ایک مخصوص جماعت کے غائب ہوتے ہوئے امیدوار نظر کیوں نہیں آتے؟
ایاز امیر کی ذاتی زندگی میں شدید دلچسپی رکھنے والے انصار عباسی کو وادی تیراہ اور خیبر پختوتخواہ کے حالات پر تبصرہ کرنے کی ضرورت کیوں محسوس نہیں ہوتی؟ کیا یہ بھی ایک طرح کی انتخابی دھاندلی نہیں؟ برما اور فلسطین کے نوحے پڑھنے والے کہاں ہیں؟
پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ بجلی یا کرپشن یا بلٹ ٹرین نہیں بلکہ دہشت گردی ہے۔ تحریک طالبان پاکستان کی سالمیت اور بقاء کے درپے ہے اور سوائے عوامی نیشنل پارٹی کے، کسی سیاسی جماعت میں اتنی اخلاقی جرات نہیں کہ اس عفریت کا سامنا کر سکے۔ حقائق پر نظر ڈالنے کے برعکس ہم ابھی تک اپنی خیالی دنیا میں مگن ہیں، اور شدت پسندی کی آندھی ہم سب کو اپنی لپیٹ میں لینے کے لیے تیار ہے۔
یاد رہے کہ عافیہ صدیقی اپنے تمام تر جرائم کے باوجود قوم کی بیٹی قرار دی گئی اور ملالہ پر حملہ کا الزام امریکا اور ہندوستان پر ڈالا گیا۔ یہ اور بات کہ پچھلے کئی سالوں سے لڑکیوں کے تعلیمی اداروں کو بارود سے اڑانے والے امریکی اور ہندوستانی تو ہرگز نہ تھے۔ نہ ہی سوات میں خواتین کو کوڑے مارنے والے انگریزی یا ہندی بولتے تھے۔ ہر حملے کے بعد ذمہ داری قبول کرنے والوں کے فون دہلی یا نیویارک سے تو نہیں آتے۔
یہ ناسور ہمارا ہی پالا ہوا ہے اور اس سے نجات کے فی الحال تو کوئی آثار نظر نہیں آتے۔ تازہ ترین صورت حال تو یہ ہے کہ وادی تیراہ طالبان کے قبضے میں ہے اور ہماری افواج کو وہاں بھاری جانی نقصان اٹھانا پڑ رہا ہے۔
دوسری جانب شمالی وزیرستان میں طالبان نے بچوں کو سکول جانے سے منع کر دیا ہے۔ سوات اور چارسدہ کے بعد پشاور میں بھی انتخابی امیدواروں پر حملہ ہو چکا ہے۔ ان حالات میں بھی اگر ہم دہشت گردی کا باعث بننے والے نظریات اور دہشت گردوں کو ملنے والی مالی اور اخلاقی مدد پر نظر ثانی نہیں کریں گے تو حالات مزید ابتری کی جانب بڑھیں گے۔ یہ جنگ زر یا زمین کی جنگ نہیں، یہ جنگ ہے بقا کے اصولوں کے واسطے۔ اس جنگ میں ہمیں افواج پاکستان اور سیاسی جماعتوں کا ساتھ دینا ہے، ورنہ ہمار ی داستان تک نہ ہو گی داستانوں میں۔
عبدالمجید کا تعلق سیالکوٹ سے ہے اور انہیں تاریخ، سیاست اور معاشیات کے مضامین میں دلچسپی ہے۔












لائیو ٹی وی
تبصرے (2) بند ہیں