ڈاکٹر سڑکوں پر کیوں؟
اس موضوع پر کچھ بھی کہنے سے پہلے میں اعتراف کر لینا چاہتا ہوں کہ میں خود بھی ایک ینگ ڈاکٹر ہوں۔ پس ینگ ڈاکٹرز کی حالیہ احتجاجی لہر کے حوالے سے اس بلاگ میں مجھ سے جس حد تک ممکن ہو سکا، میں نے ایک متوازن نقطہ نظر پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔
طب کو ایک معزز پیشہ سمجھا جاتا ہے مگر ایک بار پھرتمام غلط وجوہات کی بنأ پر ڈاکٹر خبروں میں آگئے ہیں۔ پچھلے سال پنجاب حکومت اور نوجوان ڈاکٹروں کے درمیان ڈیڈلاک کے باعث ہونے والی لمبی ہڑتالوں کے بعد اب تک معاملات کو سنبھل جانا چاہئے تھا۔
یاد رہے کہ گزشتہ چار سالوں سے صوبے میں کوئی وزیرِصحت موجود نہیں ہے۔
ماضی میں دونوں فریقین کی ضد کی وجہ سے المناک واقعات رونما ہوئے جن میں مریضوں کی ہلاکتیں بھی شامل تھیں۔ پچھلے سال ڈاکٹروں کے تین بنیادی مسئلے تھے: پوسٹ گریجویٹ ٹرینیز اور طبی افسران کی تنخواہوں میں اضافہ، سیٹوں کی باقاعدگی اور ڈاکٹروں کے لئے سروس اسٹریکچر پر عمل درآمد۔
ہم سب جانتے ہیں کہ پاکستان کے حکمراں طبقے میں صحت کے شعبے کو ہمیشہ ہی بہت کم اہمیت دی گئی۔ نتیجتاً سالانہ بجٹ میں شعبہِ صحت کے لئے دو فیصد سے بھی کم مختص کئے جاتے ہیں۔ حکومت کی مسلسل غفلت کی وجہ سے نجی شعبے بہت پھلا پھولا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق، پاکستان کے اسی فیصد ڈاکٹر نجی شعبے میں کام کر رہے ہیں۔ تنخواہوں کا مسئلہ پچھلے سال حل ہوگیا تھا اور باقی دونوں مسائل کیلئے کیمیٹیوں کا قیام کیا جانا تھا ۔لیکن گزشتہ ایک سال کے دوران متعدد کمیٹیاں تشکیل دینے کے باوجود پنجاب حکومت کی جانب سے کوئی حتمی حل سامنے نہیں آیا۔ جس کے نتیجے میں نوجوان ڈاکٹروں نے او پی ڈیز کا بائیکات کرنا شروع کردیا۔
یہاں وضاحت ضروری ہے کہ او پی ڈیز کے علاوہ سرکاری ہسپتالوں کے تمام دوسرے شعبے کل وقتی طور پر کام کر رہے ہیں لہذا یہ پروپیگنڈا کے مریض 'مر' رہے ہیں سراسر غلط ہے۔
اس دفعہ بنیادی مسئلہ دیگر سرکاری ملازمین کی طرح سروس سٹریکچر کے قیام کا مطالبہ ہے۔ سی ایس ایس امتحان پاس کرنے والا سرکاری ملازم کو زیادہ سے زیادہ دس سال کی مدت میں اگلے گریڈ پر ترقی مل جاتی ہے لیکن ڈاکٹروں کیلئے ایسے مواقع میسر نہیں ۔
میں خود ایسےکئی ڈاکٹروں کو جانتا ہوں جو اٹھارہ سال تک ملازمت کرنے کے باوجود اسی گریڈ/تنخواہ پر کام کر رہے ہیں۔ فروری دو ہزار بارہ کو سپریم کورٹ کے حکم کے باوجود تاحال سروس سٹریکچر کی تشکیل کے حوالے سے کوئی ٹھوس اقدامات نہیں کئے گئے ہیں۔
میں جس ہسپتال میں کام کرتا ہوں وہاں مریض او پی ڈیز سے ہنگامی شعبے میں منتقل کر دئیے جاتے ہیں جہاں ان کا مناسب علاج کیا جاتا ہے۔ لہذا صوبائی حکومت کی جانب سے جس بحران کی منظر کشی کی جا رہی ہے وہ بحران اس طرح سے ہے ہی نہیں۔
حال ہی میں پنجاب حکومت کی طرف سے ایک غلط مہم کا آغاز ہوا ہے جس کے تحت ڈاکٹروں کو 'لالچیوں' کے طور پر پیش کیا جارہا ہے۔ کاش ان اخبارات کے پہلے صفحات پر شائع کیئے جانے والے اشتہارات کی ادائیگی کی رقم ڈاکٹروں کے پیکج کے لئے مختص کی جاتی مگر ایسی خواہشیں کب پوری ہوتی ہیں۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ اس سارے معاملے میں الیکٹرانک میڈیا نے بڑی حد تک منفی کردار ادا کیا ہے اور مختلف ٹاک شوز اور پروگراموں میں انہوں نے اسٹیبلشمنٹ کے نقطہ نظر کو فروغ دیا ہے۔ حالیہ ہی میں منظر عام پر آنے والے وڈیو اسکینڈل کے بعد ہم سب اپنے ذرائع ابلاغ کے نمائیندوں کی سچائی کو جان چکے ہیں ۔ وہی میڈیا جو مختلف معاملات میں سخت موقف پیش کرتا ہے، اس معاملے میں شیطان کی وکالت کرتا نظر آ رہا ہے۔
محکمہ صحت کی طرف سے احکامات جاری کئے گئے ہیں جن کے تحت تمام ڈاکٹروں کی چھٹیاں معطل کی جارہی ہیں اور جو ڈاکٹر اپنے فرائض انجام نہیں دے گا اسے گرفتار کر لیا جائے گا۔ آرمی میڈیکل کور کے ڈاکٹرز کوسرکاری ہسپتالوں میں تعینات کیا جا رہا ہیں۔ اس سخت روئیے سے اور مسلسل غفلت برتنےسے عوام کو کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ ینگ ڈاکٹرز ایسوسیشن کے ذرائع کے مطابق، حکومت شعبہِ صحت کی نجکاری کرنے کا ارادہ رکھتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ وہ ڈاکٹروں کے ساتھ معاملے کو حل کرنے سے ہچکچا رہی ہے۔ جناب شہباز شریف صاحب نہ تو اپنی پروٹوکول کی گاڑیاں کم کرنے پرتیار ہیں اور نہ ہی عوام کے پیسوں کا کچھ حصہ سرکاری ملازمین پر خرچ کرنے کے لئےرضامند، مگر بیکار منصوبوں پر پیسہ لگانے کے لئے وہ تیار ہیں جیسا کہ لیپ ٹاپ اسکیم، مسلم ٹاؤن اوورہیڈ پل یا پھر سستی روٹی اسکیم۔
واضع رہے کہ پنجاب کی اوور درافٹ کی حد ستائیس ارب روپے تھی اورصوبائی حکومت نے اسٹیٹ بینک کے طرف سے منظور شدہ اوور ڈرافٹ کا چالیس فیصد حصہ لیپ ٹاپ بانٹنے میں خرچ کر دیا۔ اسی طرح سرکاری حکام نے سستی روٹی اسکیم کمرشل بینکوں سے سات اشاریہ آٹھ بلین روپے کے قرض کی عدم ادائیگی کے بعد ختم کردی۔ ان کی اپنی پبلسٹی مہم پر آٹھ کروڑ روپے خرچ ہوئے ہیں۔
سن دو ہزار پانچ کے سرکاری اعداد و شمار کے مطابق، حکومت ایک میڈیکل کے طالب علم پر پانچ سال میں پانچ لاکھ روپے خرچ کرتی ہے تاہم دو دن پہلے صوبائی محکمہِ صحت کے اعلی عہدیدار نے خرچے کا تخمینہ بیس لاکھ روپے تک بتایا۔ یہ اعداد و شمار کا سہارا لیتے ہوئے اپنے موقف کو درست ثابت کرنے کا ایک اور طریقہ ہے ۔
معاملات بد سے بدترہوتے جارہے ہیں۔ سہولتوں اور پیسوں کے فقدان باعث ہزاروں ڈاکٹرزپاکستان چھوڑ کر جا چکے ہیں ۔ ہر دس میں سے آٹھ ڈاکٹر حکومت کے صحت کے شعبے میں عدم دلچسپی کی وجہ سے ملک چھوڑنا چاہتے ہیں اور باہر جا کر بہتر مواقعوں سے فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں۔
اس حوالے سے ہنگامی طور پر نمٹنے کی ضرورت ہے کیونکہ نوجوان ڈاکٹروں کو طاقت کے حربے استعمال کر کے دبایا نہیں جاسکتا۔ اس پورے معاملے میں ان غریب مریضوں کا نقصان ہو رہا ہے جو نجی ہسپتالوں میں علاج کے متحمل نہیں ہوسکتے اور ان کے پاس سرکاری ہسپتالوں پر انحصار کرنے کے علاوہ کوئی چارہ بھی نہیں۔ ایسے غریب مریضوں کو سوچتے ہوئے مسئلے کا جلد سے جلد حل نکالنا حکومت اور ینگ ڈاکٹرز کی اولین ترجیح ہونی چاہئے۔
عبدالمجید عابد طب کے طالبعلم ہیں۔ ان کی دلچسپی کے موضوعات میں تاریخ، معیشت، ادب شامل ہے۔
@abdulmajeedabid.












لائیو ٹی وی
تبصرے (1) بند ہیں