چاکلیٹ گناہ کم کرتی ہے

شائع May 27, 2013

پسماندہ ملکوں کے بچے چاک کھاتے ہیں اور ترقی یافتہ ملکوں کے بچے چاکلیٹ۔ نام سے ایسا لگتا ہے کہ چاکلیٹ لیٹ کر کھانے کی چیز ہے، مگر اسے لیٹ کر، بیٹھ کر، چلتے پھرتے، کام کے دوران، بس میں ، ٹرین میں ، کار میں جب اور جہاں کھانے کا دل کرے ، کھایا جاسکتا ہے۔

کینیڈا میں لوگ کان نہیں کھاتے کیونکہ وہ چاکلیٹ کھاتے ہیں۔ چاکلیٹ یہاں اتنی بکتی ہے جتنی کہ پاکستان میں سر درد کی گولی۔ یہاں چاکلیٹ کھانے کی کوئی عمر نہیں۔ یہاں چاکلیٹ کھانے سے وہی پرہیز کرتا ہے جس کے دانت یا بٹوہ اجازت نہ دیتا ہو۔ ڈاکٹر منع کر کر کے اور دکاندار چاکلیٹ بیچ بیچ کر تھک جاتے ہیں۔ یہاں بچوں کی جیب میں چاکلیٹ جبکہ بڑوں کی جیب میں چاکلیٹ اور وہ ایک چیز ضرور ملتی ہے جو لیٹ کر ہی استعمال ہوتی ہے۔

چاکلیٹ کے بارے میں تاریخ بتاتی ہے کہ یہ گیارہ سو قبل مسیح سے استعمال ہورہی ہے۔ چاکلیٹ اسپینش زبان کا لفظ ہے جو انگریزی ، اردو اور پتہ نہیں کتنی زبانوں میں گھس آیا ہے ۔ اتنی پرانی چیز آج بھی اسی شوق سے کھائی جا رہی ہے کہ لگتا ہے کل ہی بازار میں آئی ہے۔ چاکلیٹ کا رسیا ڈاکٹر چھوڑ دیتا ہے مگر چاکلیٹ نہیں۔ چاکلیٹ گناہ کم کرتی ہے، جب تک منہ میں ہو آدمی غیبت اور گالیوں سے بچا رہتا ہے۔ تازہ تحقیق کے مطابق چاکلیٹ کی ایک قسم کینسر سے بھی محفوظ رکھتی ہے۔ آج کے دور میں جس چیز کی فروخت بڑھانا ہو بس کہہ دیں کہ یہ کینسر نہیں ہونے دیتی۔ اگلے دن سے لوگ اس چیز کو کھانا شروع کردیتے ہیں۔

کینیڈا میں چاکلیٹ کھانے کا اتنا رواج ہے کہ لگتا ہے لوگ منہ میں چاکلیٹ لے کر پیدا ہوتے ہیں۔ یہاں دوستی کرنی ہو تو چاکلیٹ پیش کیا جاتا ہے۔ محبوبہ کو منہ بھر کر پیار اور چاکلیٹ نہ ملے تو وہ روٹھ جاتی ہے۔ درجنوں کھانوں میں چاکلیٹ استعمال کیا جاتا ہے۔ ہر میٹھے پکوان کی تان چاکلیٹ پر ٹوٹتی ہے۔ دنیا کا سب سے بڑا چاکلیٹ اٹلی میں بنایا گیا تھا جس کا وزن پانچ ہزار پونڈ تھا۔ اس چاکلیٹ کو بنانے میں تو بڑی محنت اور پیسہ صرف ہوا ہوگا مگر کھانے والوں نے اسے چٹکی بجاتے کھالیا ہوگا۔ جبکہ کہا یہ جاتا ہے کہ چاکلیٹ اتنی ہی کھاؤ جتنی چاکلیٹ تم اُٹھا سکو۔

چاکلیٹ کھانے کے لیے عمر کی کوئی قید نہیں مگر مقدار کی ہے۔ کہتے ہیں دو پونڈ چاکلیٹ کھانے سے پانچ پونڈ وزن بڑھ جاتا ہے۔ دنیا میں دس میں سے نو افراد چاکلیٹ کھاتے ہیں اور دسواں جھوٹ بولتا ہے۔ ویلنٹائن ڈے پر محبوبہ اور چاکلیٹ منہ سے لگی ہوتی ہے۔ محبوبہ دل سے اترجاتی ہے مگر چاکلیٹ نہیں۔ یورپ کی ایک کہاوت ہے کہ اس دوست سے بہتر کوئی نہیں جس کے ہاتھ میں آپ کے لیے چاکلیٹ ہو۔

 محبوبہ تنہائی میں مزہ دیتی ہے مگر چاکلیٹ ہر جگہ۔ وہ بوسہ اور چاکلیٹ ہی کیا جو منہ بھر کر نہ ملے۔ چاکلیٹ کے بعض شیدائی تو یہ بھی کہہ گئے ہیں کہ میں جنت چھوڑدوں اگر وہاں چاکلیٹ نہ ہو۔ چاکلیٹ سے محبت پیدا ہوتی ہے اور محبت سے بچے۔ اسکول میں وقت کی پابندی کروانی ہو تو اٹینڈنس کے ساتھ چاکلیٹ رکھ دیں، ٹیچرز بھی ناغہ نہیں کریں گے۔ وہ شخص رومانٹک ہو ہی نہیں سکتا جو چاکلیٹ نہ کھاتا ہو۔ میٹھی بات اور چاکلیٹ سے آپ کسی کا بھی دل جیت سکتے ہیں۔ جو شوہر بیوی کو روزانہ چاکلیٹ دیتا ہے وہ جھگڑوں سے دور اور بیوی کے قریب رہتا ہے۔ جس جیب میں دوسروں کے لیے چاکلیٹ ہوتی ہے، اس کے لیے سب کے ہونٹوں پر مسکراہٹ رہتی ہے۔


Mirza Yasin Baig  مرزا یاسین بیگ شادی شدہ ہونے کے باوجود مزاح اور صحافت کو اپنی محبوبہ سمجھتے ہیں اور گلے سے لگائے رکھتے ہیں ۔ کینیڈا اور پاکستان کی دوہری شہریت ان کی تحریروں سے جھلکتی ہے۔

مرزا یٰسین بیگ
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تبصرے (3) بند ہیں

Muhammad Anees May 27, 2013 01:35pm
haha amazing , just amazing. Very interesting analysis and far more informative. Thanks for writing.
میاں محسن ضیاء May 28, 2013 06:03am
بہت خوب۔۔۔۔۔۔ دل چاکلیٹ چاکلیٹ ہو گیا۔۔۔ :) :)
aimun May 29, 2013 04:05am
بہت عمدہ معلوماتی اور طنز و ظرافت سے بھر پور

کارٹون

کارٹون : 20 دسمبر 2025
کارٹون : 18 دسمبر 2025