میری حکومتِ پاکستان سے گزراش ہے کہ اسلامی سرمایہ کاری کے نظام سے فائدہ اٹھانے اور عام آدمی کے لیے حج کو آسان بنانے کے لیے سرکاری سطح پر ‘حج فنڈ‘ کے نام سے ایک پروجیکٹ متعارف کروایا جائے جس کی نگرانی تمام مکتبہ فکر کے علما اور مفتیان حضرات پر مشتمل ایک شرعی بورڈ سر انجام دے۔
چونکہ اب حج کی قیمت اس قدر بڑھ چکی ہے کہ ہر کسی کے لیے اس کو انجام دینا ناممکن بنتا جارہا ہے، اس لیے لوگوں کی آسانی کے لیے حکومت کیا کرسکتی ہے، اس حوالے سے چند تجاویز پیش کی جارہی ہیں۔
- ابتدائی طور پر اس پروجیکٹ کے کھاتے تمام اسلامی بینکوں اور ڈاک خانوں میں کھولے جائیں۔
- اسٹیٹ بینک آف پاکستان میں ‘حج فنڈ’ کے نام سے علیحدہ کاؤنٹرز بنائے جائیں۔
- حج فنڈ کا ممبر بننے کے لیے ممبرشپ فارم اسٹیٹ بینک کے ساتھ ساتھ تمام اسلامی بینکوں اور ڈاک خانوں پر بھی رکھے جائیں۔
- حکومت ابتدائی طور پر کھاتے کھولنے کے لیے ایک لاکھ روپے کی رقم مختص کرسکتی ہے، اور جو شخص حج فنڈ کا ممبر بن جائے اسے ایک اکاونٹ نمبر الاٹ کیا جائے تاکہ کھاتا دار جب چاہے اسٹیٹمنٹ نکلوا سکتا ہے۔
- حج کی ادائیگی سے پہلے رقم نکلوانے پر پابندی ہو، لیکن اگر حج کی ادائیگی کے بعد منافع بچ جائے تو وہ لوگوں کو واپس کردیا جائے۔
- جہاں تک کھاتا داروں کی رقم سے سرمایہ کاری کرنے کا معاملہ ہے تو اس کے لیے مشارکہ، مضاربہ، مرابحہ، تکافل، صکوک، اجارہ اور بے المعجل جیسے بہترین اسلامی سرمایہ کاری کے قوانین ہمارے پاس موجود ہے۔
- شرعی بورڈ کی منظوری کے بعد حج فنڈ کی رقم سے حلال کاروبار میں حلال طریقے سے سرمایہ کاری کی جائے اور نفع و نقصان کو بھی انہی قوانین کے مطابق تقسیم کیا جائے۔
- حکومتِ پاکستان کے پاس حلال کاروبار میں سرمایہ کرنے کے سیکڑوں آپشن ہر وقت موجود رہتے ہیں اور یہ سرمایہ کاری اندرونِ ملک کے ساتھ ساتھ بیرونِ ملک بھی ہوسکتی ہے۔ پھر اس سرمایہ کاری سے کمائے گئے منافع اور سرمائے کی رقم ملا کر کھاتا داروں کے حج کے اخراجات برداشت کیے جائیں۔
- حج کی ادائیگی کے لیے لوگوں کا انتخاب پہلے آؤ پہلے پاؤ کی بنیاد پر کیا جائے۔ پھر جن لوگوں کا انتخاب ہوجائے مگر ان کے منافع اور سرمائے کی رقم ملاکر بھی حج کی ادائیگی کے اخراجات مکمل نہیں ہوئے ہوں تو حکومت اس فنڈ میں موجود دوسرے کھاتا داروں سے قرض لے کر ان کے حج اخراجات کی ادائیگی کرے اور مستقبل میں ہونے والے منافع سے اس قرض کی ادائیگی کردے۔
- لیکن اگر منافع اور سرمایہ حج اخراجات سے زیادہ ہوجائے تو پھر بونس کی شکل میں کھاتا داروں کو یہ رقم واپس کردی جائے۔
یہاں یہ بات یاد رہے کہ پاکستانی عوام کی بڑی تعداد صاحبِ نصاب تو ہے مگر حج کے لیے صاحبِ نصاب نہیں بلکہ صاحبِ استطاعت ہونا ضروری ہے۔ پاکستانی عوام کے لیے صاحبِ استطاعت ہونے کا معیار ریاست نے تقریباً 5 لاکھ روپے مقرر کیا ہے، جس کی وجہ سے بہت سے لوگ حج کی استطاعت کے معیار پر پورا نہیں اتر پا رہے۔ لیکن حج فنڈ کے قیام سے ہوگا یہ کہ لوگ بتدریج صاحبِ استطاعت ہوتے چلے جائیں گے اور یوں ان کے لیے حج کی ادائیگی نسبتاً آسان ہوسکتی ہے۔
اہم بات یہ کہ ایسا کرنے سے نہ تو حکومت کا اضافی سرمایہ خرچ ہوگا اور نہ ہی اس پر سبسڈی کا بوجھ پڑے گا لیکن عوام حج جیسے فرض کی ادائیگی سود سے پاک اور حلال کمائی کے ذریعے کرسکیں گے۔
یہ کام ہوگا کیسے؟
دیکھیے وزارتِ مذہبی امور حکومت کے پاس ہے، ملک میں اسلامی بینکوں کا جال بچھا ہوا ہے، پوسٹ آفس کا نظام پہلے سے بہتر ہوگیا ہے، اس کے ساتھ ساتھ مفتیان کرام، جیّد علما اور اسلامی نظریاتی کونسل جیسے ادارے بھی ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ حکومت کے پاس حج فنڈ قائم کرنے اور کامیابی سے چلانے کے لیے تمام چیزیں موجود ہیں، بس کرنے کا کام یہ ہے کہ ان سب وسائل کو ان کی جائز اور مناسب جگہ پر رکھ کر بہترین طریقے سے استعمال کرلیا جائے۔
اسلامی سرمایہ کاری کو عملی شکل دینے کے لیے علما اور مفتیان کی کئی کئی سالوں کی محنت ہے۔ اگر حکومت ان سے فائدہ اٹھا لے تو لوگ اپنے ہی حلال سرمائے سے حج کے لیے صاحبِ استطاعت بن جائیں گے۔ یہ بات ٹھیک ہے کہ حج کے لیے سبسڈی دینا ریاست پر فرض نہیں ہے لیکن عوام کی استطاعت بڑھانا یقیناً ریاست کی ہی ذمہ داری ہے، اور یہ ذمہ داری حج فنڈ قائم کرکے پوری کی جاسکتی ہے۔