میں نے سرکاری یونیورسٹی میں داخلہ لینے سے توبہ کیوں کی؟
جس طرح پاکستان میں سرکاری شعبے کے زیادہ تر اداروں میں لوگوں کو ریڈ ٹیپ یا کام میں رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے، ٹھیک ایسی ہی رکاوٹوں اور مسائل کا سامنا مجھے ملک کی باوقار یونیورسٹیوں میں سے ایک پنجاب یونیورسٹی میں ہوا۔
میں نے ایک دوسری نامور یونیورسٹی، یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی، (یو ای ٹی) لاہور سے گریجویشن کیا ہے اور حال ہی میں مجھے پنجاب یونیورسٹی میں ایک پرائیوٹ امتحان کے لیے انرولمنٹ کروانے کی کوشش کا ایک بڑا ہی مایوس کن تجربہ ہوا۔
زیادہ پرانی بات نہیں جب میں بیرون ملک تعلیم کے لیے کوششوں میں لگا ہوا تھا، ان دنوں میں نے انٹرنیٹ پر اپنے لیے کوئی مناسب پروگرام ڈھونڈنا شروع کردیا۔ کورس کی تلاش سے لے کر متعلقہ سوالات، درخواست اور فیس کی ادائیگی تک کے تمام مراحل، بہت ہی آسان اور سہل ثابت ہوتے گئے اور لیپ ٹاپ پر بیٹھے بیٹھے میں دنیا کی بہترین یونیورسٹیوں میں شمار ہونے والی چند میں داخلہ حاصل کرسکتا تھا۔
ہماری لاڈلی پنجاب یونیورسٹی کے ساتھ میرے ہولناک تجربے کی ابتدا اس کی ویب سائٹ پر معلومات حاصل کرنے کی کوشش کے ساتھ ہوئی۔ ٹیبلز پر مشتمل فرسودہ ایچ ٹی ایم ایل ویب سائٹ بہت ہی زیادہ بکھری ہوئی اور پیچیدہ تھی۔ ابتدائی طور پر تو مجھے لگا کہ اس وقت داخلوں کا کوئی پروگرام دستیاب ہی نہیں۔ پھر تھوڑی دیر بعد جب میں دوبارہ ویب سائٹ پر گیا تو اس پر اچانک سے ایک پیج نمودار ہوا جس میں لکھا تھا کہ ایم اے/ ایم ایس سی کے داخلے جاری ہیں۔ ویب سائٹ کو مزید کھنگالا تو مجھے ڈاؤن لوڈ ایبل داخلہ فارم مل گیا جس سے پتہ چلا کہ مجھے اب ’رجسٹریشن نمبر‘ حاصل کرنا ہوگا۔