ایک عمر لگی خواب دیکھتے اور پھر ذرہ ذرہ اکھٹا ہوکر اینٹیں بنائیں، نامعلوم کتنی صدیوں سے جمع کی گئی اینٹیں آپس میں جڑیں تو ایک گھر بنا، وہ گھر جس کے ملبے پر وہ بیٹھی ہوئی تھی اور مرد جنازے اٹھا کر قبرستان روانہ ہوچکے تھے۔
وہ اس قدر دکھی تھی کہ اسے بیان کرنا ممکن نہیں، کوئی ہنستا آدمی اسے دیکھ لیتا تو عمر بھر ہنسنا ترک کردیتا۔ گھر کے ملبے کے اوپر بیٹھی، وہ یکایک اٹھی اور مٹی کے ڈھیر کو اِدھر اُدھر بکھیرنے لگی، اسے کسی چیز کی تلاش تھی۔ آخر کافی تلاش بسیار کے بعد اس نے ملبے سے چار جوتے ڈھونڈ نکالے جن کے تلوے گھس چکے تھے۔ ایسا محسوس ہوتا تھا کہ ان جوتوں کو زمانوں تک استعمال کیا جاتا رہا تھا۔ وہ مٹی سے بھر چکے تھے، وہ انہیں اپنے برقعے سے صاف کرنے لگی۔
وہ لگاتار رو رہی تھی، صاف کرنے کے بعد اس نے جوتوں کو ایک ترتیب سے اپنے سامنے رکھا اور اونچی آواز میں بین کرنے لگی۔
کچھ دیر بعد اس نے ہر جوتے کو باری باری چوم کر آنکھوں سے لگایا۔
جمال بی بی کا شوہر اور بچے جہاز سے پھینکے گئے بم حملے میں مارے جاچکے تھے۔ اگر اسے معلوم ہوتا کہ کنویں سے پانی بھرنے کے دوران اس کی دنیا لُٹ جائے گی تو وہ یقیناً اپنے شوہر اور بچوں کو بھی ساتھ لے جاتی یا پھر ایسا ممکن نہ ہوتا تو وہ اسی ملبے تلے دب کر پانچویں لاش بننا گوارا کرلیتی لیکن یوں اس طرح سبھی پیاروں کو مٹی کے حوالے کرنا کوئی آسان کام نہ تھا۔
پائلٹ بم پھینکنے کے بعد اپنے یونٹ پہنچ چکا تھا، اس نے نہا دھو کر موبائل سے اپنی بیوی کو ویڈیو کال کی۔
’جان تھک گئے ہو؟‘، بیوی نے فوراً پوچھا۔
’تمہاری اور بیٹے کی محبت بھلا مجھے کہاں تھکنے دیتی ہے، ان پہاڑوں پر جہاز اڑاتے ہوئے بھی مجھے تم ہر لمحہ یاد آتے ہو۔ آہ! یہ محبت بھی انسان کو کس قدر مجبور کردیتی ہے، میں آج ایک جگہ بم پھینکنے لگا تو تب بھی مجھے یاد تھا کہ آج میرے بیٹے کی پہلی سالگرہ ہے، کاش میں وہاں ہوتا تو اسے گلے لگا کر سالگرہ کی مبارک باد دیتا۔ اچھا اب جلدی سے مجھے میرا بیٹا دکھاؤ،‘ بیوی نے بچے کو بستر سے اٹھا کر گود میں بھر لیا اور چہرہ اسکرین کے سامنے کردیا۔
’آہ میرا بچہ سالگرہ مبارک۔‘