• KHI: Sunny 22.3°C
  • LHR: Partly Cloudy 12.2°C
  • ISB: Partly Cloudy 14°C
  • KHI: Sunny 22.3°C
  • LHR: Partly Cloudy 12.2°C
  • ISB: Partly Cloudy 14°C

صحیح علاج؟

شائع January 10, 2014

کیا اخبارات میں شہہ سرخیاں بنانے اور سوشل میڈیا پر رجحان سازی کے علاوہ ہندوستانی قونصل سفارتکار دیویانی کھوبراگڑے اور انکی نوکرانی سنگیتا رچرڈ کے معاملے پر کوئی واضح نکتہ نظر آتا ہے؟

ایک ہندوستانی فارن سروس افسر اور ڈپٹی قونصل جنرل کھوبراگڑے نے نیویارک میں اپنی ملازمہ رچرڈ کے ساتھ برا سلوک روا کر رکھا تھا- رچرڈ سے مبینہ طور پر مقرر گھنٹوں سے زیادہ کام لیا جاتا تھا اور کم از کم اجرت سے کم تنخواہ دی جاتی تھی.

دونوں پارٹیوں کی طرف سے الزامات اور جوابی الزامات لگاۓ گۓ جن کا ثابت ہونا ابھی عدالت میں باقی ہے- صاف ظاہر ہے کہ یہ ایک ناکام تعلق تھا اور اس سے سفارتکار کے اخلاق کے حوالے سے سنگین سوالات پیدا ہوۓ- اور یہاں انٹری ہوتی ہے امریکی حکومت کی-

بارہ دسمبر کو، دو بچوں کی ماں انتالیس سالہ کھوبراگڑے کو امریکی حکام نے سنگیتا رچرڈ کے حوالے سے ویزا فراڈ کے الزام میں گرفتار کیا، رچرڈ تب تک سفارتکار کے گھر سے جا چکی تھی-

یہ واضح تھا کہ کھوبرا گڑے، امریکا چھوڑ کر کہیں بھاگی نہیں جا رہی تھیں، لیکن پھر بھی ناصرف انہیں برہنہ کر کے تلاشی لی گئی بلکہ باڈی کیویٹی سرچ بھی کی گئی- یہ عمل غیر ضروری اور گھٹیا دونوں تھا-

"اس ہتک آمیز صورتحال کے دوران، جب استثنیٰ کے مسلسل دعوے کے باوجود مجھے بار بار ہتھکڑیاں پہنائی گئیں، برہنہ کر کے کیویٹی سرچ کی گئی، عام مجرموں اور عادی نشئیوں کے ساتھ رکھا گیا، میں نے یہ سوچ کر اپنے آپ کو مضبوط اور با وقار رکھا کہ مجھے اپنے ملک اور اپنے ساتھیوں کی نمائندگی اعتماد اور فخر کے ساتھ کرنی ہے"، ہندوستانی سفارتکار نے اپنے ساتھیوں کو لکھی ایک ای میل میں کہا-

عام حالات میں، اگر حکام کو کسی خاص سفارتکار سے کوئی مسئلہ لاحق ہوتا ہے تو اس کا طریقہ کار یہ ہے کہ متعلقہ ملک کی ایمبیسی کو مطلع کیا جاتا ہے اور اگر چارجز سنگین نوعیت کے نہ ہوں تو سفارتکار کو واپس بھیج دیا جاتا ہے-

امریکا کی کہانی بالکل مختلف ہے- واشنگٹن پوسٹ کے مطابق، ہندوستان میں پیدا ہونے والے امریکی اٹارنی پریت بھرارہ نے اپنی کارروائی سے ابامہ انتظامیہ کو بھی حیران کر دیا-

آخرکار معاملہ امریکا اور ہندوستان کے درمیان ایک بڑے جھگڑے میں تبدیل ہو گیا، لیکن یہاں امریکی ایجنسیوں کے درمیان نقطہ نظر کے اختلاف پر بہت کم لوگوں نے غور کیا-

اگر ہندوستانی سفارتکار پر عائد الزامات ثابت ہو بھی گۓ تھے تب بھی بھرارہ صاحب اور انکے ساتھیوں نے کھوبراگڑے، کے ساتھ جو سلوک کیا اسکی کوئی وجہ نہیں بنتی-

"امریکی موقف کے مطابق، کھوبرا گڑے مبینہ طور پر اپنی ملازمہ کو کم اجرت دینے پر گرفتاری سے محفوظ نہیں تھیں- اگر ایسا کوئی معاملہ تھا بھی تو ایک غیر ملکی دوستانہ حکومت کے نمائندے کیساتھ نارواسلوک کا فیصلہ، امن و امان کی صورتحال میں پروسیکیوٹر کے حد سے زیادہ جوش کی عکاسی کرتا ہے"، واشنگٹن میں پاکستان کے سابقہ سفیر، حسین حقانی لکھتے ہیں-

"لاہور جیسے گنجان شہر میں امریکی شہری ریمنڈ ڈیوس کے ہاتھوں دو پاکستانیوں کے قتل کا حوالہ دیتے ہوۓ حقانی کہتے ہیں، اصل میں، جنوری سنہ دو ہزار گیارہ میں جرم کے بعد ہی ریمنڈ ڈیوس کو مکمل استثنیٰ کی فہرست میں ڈالا گیا تھا-

"پاکستانی حکومت مناسب کارروائی کے بغیر ایک قاتل کو آزاد نہیں کر سکتی تھی- لیکن جب ریمنڈ ڈیوس کی شناخت ایک امریکی حکومتی اہلکار کے طور پر ہوگئی تو پاکستانی حکومت نے اس بات کو یقینی بنایا کہ انکے ساتھ مناسب رویہ اختیار کیا جاۓ- امریکی افسران کی ڈیوس تک فوری رسائی کروائی گئی، اور انکی برہنہ تلاشی بھی نہیں لی گئی- اور جب، 'دی گار جین' نے یہ انکشاف کیا کہ وہ حقیقتاً ایک سی آئی اے کنٹریکٹر ہیں تو اس خدشے سے کہ کہیں دوسرے قیدی انہیں نقصان پہنچانے کی کوشش نہ کریں اس لئے جیل میں ان کی سیکورٹی کے فوری انتظامات کیے گۓ"، حقانی صاحب مزید کہتے ہیں-

یہ سچ ہے، ہندوستان بھر میں قونصل خانوں میں امریکی افسران کو مراعات فراہم کی جاتی ہیں جبکہ وہ یہ بھی تسلیم کرتے ہیں کہ امریکا میں ہندوستانی سفارت کاروں کو بہت کم مراعات حاصل ہیں-

اب جبکہ کھوبرا گڑے کا معاملہ سامنے آنے پر دہلی نے قونصل خانوں میں کام کرنے والے امریکی ملازمین کو فراہم کردہ مرات واپس لے لی ہیں، سوال یہ اٹھتا ہے کہ آیا ہندوستان آگے بھی یہی عمل در عمل کا توازن برقرار رکھے گا یا نہیں؟

بعض ہندوستانیوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ اگر ایک عام شہری کے ساتھ بھی ایسا ہی سلوک کیا جاتا تو کیا دہلی اتنے ہی غصّے کا اظہار کرتا- میرے خیال سے اگر ہندوستان نے اپنے سفارتکار کو سپورٹ نہ کیا تو غیر ملکی حکومتوں کو ہندوستانی شہریوں کے ساتھ بدسلوکی کا لائسنس مل جاۓ گا-

اور اگر ہندوستانی سفارتکار بیرون ملک اپنی ذمہ داری پوری نہیں کر رہے تو یہ شہریوں کا کام ہے کے ان پر دباؤ ڈالیں اور انہیں بےنقاب کریں-

اگر کھوبراگڑے کے کیس سے ہمیں کوئی سبق ملتا ہے تو وہ یہ ہے کہ امریکیوں کو کبھی کوئی چیز اضافی نہ دیں اور ان سے کسی قسم کی ڈیلنگ کے دوران ہمیشہ، ہمیشہ عمل در عمل کا اصول اپنائیں-

انگلش میں پڑھیں

ترجمہ: ناہید اسرار

Amit Baruah is an independent, Delhi-based journalist. He is the author of Dateline Islamabad and reported for The Hindu newspaper from Pakistan.
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

کارٹون

کارٹون : 22 دسمبر 2025
کارٹون : 21 دسمبر 2025