• KHI: Clear 21.2°C
  • LHR: Partly Cloudy 13.9°C
  • ISB: Partly Cloudy 12.1°C
  • KHI: Clear 21.2°C
  • LHR: Partly Cloudy 13.9°C
  • ISB: Partly Cloudy 12.1°C

جب قاتل ’محب وطن‘ کہلائیں

شائع March 15, 2014 اپ ڈیٹ March 17, 2014

ہمارے ملک کی داخلی سلامتی کے حوالے سے جو بھی غلط ہو رہا ہے، ہمارے وزیر داخلہ اس سب کی علامت کے طور پر ابھر رہے ہیں- انکی باتیں منطقی سوچ کے صریحاً خلاف ہوتی ہیں- آپ ان پر یہ اعتماد کر سکتے ہیں کہ وہ ایسے موقع پر بھی طالبان کے دفاع میں سامنے آئیں جب وہ پوری طرح سے ننگے کھڑے ہوں- تاہم، چوہدری نثار علی خان کا چند روز قبل قومی اسمبلی میں، اسلام آباد کچہری میں ہوئی تباہی کے بارے میں دیا گیا بیان، پاگل پن کی سرحدوں کو چھوتا ہے-

دارالحکومت کے قلب میں ہوئے اس قتل عام کے صدمے سے دوچار قوم کو تسلی دیتے ہوئے وزیر موصوف فرماتے ہیں طالبان کے بارے میں پریشان ہونے کی کوئی ضرورت نہیں کیونکہ ان میں سے اکثریت پاکستان مخالف نہیں- انہوں نے تو تحریک طالبان پاکستان سے بھی درخواست کی کہ ان حملہ آوروں کا سراغ لگانے میں مدد کریں جو شاید کالعدم گروپ کی اپنی ہی صفوں سے نکل کر آئے ہوں- خوش مزاجی اور یار باشی کی کیا شاندار مثال ہے حالانکہ یہ نودریافت شدہ 'محب وطن'، محاذ پر سپاہیوں کو دھماکے سے اڑانے یا ملک کے مرکز میں معصوم شہریوں کو قتل کرنے میں ذرا سا بھی نہیں ہچکچاتے-

جس سانس میں وزیر موصوف نے ان کی 'حب الوطنی' کی تعریف کی وہیں اسی سانس میں انہوں نے عسکریت پسندوں کی جانب سے اسلام آباد پر فضائی بمباری کرنے کے منصوبے کا بھی انکشاف کر دیا- یہ حیران کن انکشاف اس بیان کے صرف ایک ہفتے بعد سامنے آیا ہے جس میں انہوں نے اسلام آباد کو دنیا کا محفوظ ترین شہر قرار دیا تھا- کوئی بھی ایسے سیاستدان کو سنجیدگی سے کیسے لے سکتا ہے جو کہ فی الواقع، ملک کی داخلی سلامتی کے انچارج بھی ہو؟ ایسا محسوسس ہوتا ہے کہ وزیر موصوف سنجیدگی کی، ہوشمندی کی تمام سرحدیں پار کر چکے ہے- کوئی تعجب نہیں کہ دہشت گردوں کے حوصلے مزید بلند لگ رہے ہیں-

حیرت کی بات نہیں کہ حکومت کے ایک سینئر رکن کی طرف سے ایسے غیر ذمہ دارانہ بیان نے غیر ملکی سفارت خانوں اور بین الاقوامی اداروں میں خوف کی ایک لہر دوڑا دی ہے- ان میں سے بہت سے لوگ، اب خلیجی ممالک میں اپنے عملے کو منتقل کرنے کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں- کیا آپ ان کو قصوروار گردانیں گے؟ چوہدری نثار جیسے آدمی کے ہاتھوں میں ملک کی سلامتی کے پتوار دیکھنا ہر گز اطمینان بخش نہیں- بھلے حکومت کیلئے نہ سہی پر یقینی طور پر ملک کے لئے وہ، تیزی سے شرمندگی کا باعث بنتے جا رہے ہیں-

ہو سکتا ہے ان کی قیادت میں ملک، طالبان کے لئے زیادہ محفوظ بن گیا ہو، اور شہریوں کے لئے تیزی سے غیر محفوظ- اس بات کو ثابت کرنے کیلئے دہشت گردوں کے اسلام آباد کورٹ کے احاطے کیا جانے والا قتل عام کافی ہے- بجائے اس کے کہ وہ سیکورٹی کی ناکامی کی ذمہ داری لیتے، انہوں نے قومی اسمبلی میں اپنی تقریر میں طالبان کا دفاع کیا- وہ طالبان کے ترجمان ہیں یا وزیر داخلہ، فرق کرنا مشکل ہے-

حکیم اللہ محسود کی ہلاکت پر ان کا سوگ آپ کو یاد ہی ہو گا؟ لیکن دہشت گردوں کی جانب سے ججوں اور وکیلوں کے بہیمانہ قتل پر انہوں نے کسی قسم کے جذبات کا اظہار تک نہیں کیا- بلکہ یہ که کر کہ قاتل، ریاست کے مخالف نہیں، انہیں قانونی قرار دے دیا- تفتیش مکمل ہونے سے پہلے ہی وزیر موصوف نے قومی اسمبلی کو بتایا کہ جج رفاقت حسین تو حادثاتی طور پر اپنے گارڈ کے ہاتھوں گولی چلنے کی وجہ سے ہلاک ہوئے- گارڈ اور دوسرے عینی شاہدین نے واقعات کے اس ورژن کو چیلنج کیا ہے-

عدم سلامتی کے اس بڑھتے رجحان کو وفاقی وزیر داخلہ کی جانب سے عسکریت پسندوں کے اس سختی سے دفاع کرنے سے فروغ ملتا ہے- ہو سکتا ہے ان کا اگلا قدم یہ ہو کہ وہ طالبان سے اسلام آباد کی سیکورٹی سنبھالنے کی درخواست کریں- اسلام آباد حملے میں ملوث افراد کو پکڑنے کے سلسلے میں وہ پہلے ہی طالبان سے مدد مانگ چکے ہیں- چوہدری نثار تو اس ابہام اور بے یقینی کا عکس ہیں جس کا شکار حکومت نظر آتی ہے خاص طور پر جب بات ہو طالبان سے نبٹنے کی- ابتدائی طور پر پس منظر میں رہنے کے بعد، وزیر داخلہ ایک بار پھر طالبان سے براہ راست مذاکرات کیلئے فوکل پرسن مقرر کیے گئے ہیں- ہو سکتا ان کی جانب سے حب الوطنی کا تمغہ ملنے کے بعد وہ طالبان کی نظروں میں زیادہ معتبر اور قابل احترام ہو گئے ہوں لیکن مذاکرات کی بیل دیوار چڑھتی دکھائی نہیں دے رہی-

قوجی قیادت کی جانب سے ادارے کو علیحدہ رکھنے کے فیصلے نے نام نہاد مذاکرات کو شدید دھچکہ پہنچا ہے- طالبان کمیٹی کے مطالبے پر، وزیر اعظم نے خاصی ہوشیاری سے فوج اور آئی ایس آئی کے نمائندوں کو حکومتی مذاکراتی کمیٹی کا حصہ بنانے پر رضامندی ظاہر دی ہے- یہ چال طالبان کی سوچی سمجھی ہوئی تھی تا کہ فوج کو اس میں مشغول کر کے قبائلی علاقوں میں آپریشن مکمل طور پر رکوایا جا سکے-

اس سے ہوا لیکن یہ ہے کہ مذاکراتی عمل کے حوالے سے سول اور ملٹری قیادت کے مابین جو اختلاف رائے موجود ہے وہ کھل کر سامنے آ گیا- یہ واضح ہو گیا کہ اس ایشو پر دونوں ایک صفحے پر نہیں- فوج کو ان عسکریت پسندوں کے ساتھ غیر مشروط مذاکرات کرنے پر شدید تحفظات ہیں جو ہزاروں فوجیوں کی ہلاکت کے ذمہ دار ہیں اور تشدد کا رستہ چھوڑنے پر آمادہ نہیں-

وزیر اعظم کی جانب سے اس اعلان کے ایک ہی روز بعد کہ اب بھی مذاکرات ان کی پہلی ترجیح ہیں، عسکریت پسندوں کی جانب سے چھ فوجیوں کو کرم ایجنسی میں آئی ای ڈی حملے میں ہلاک کر دیا گیا- اسلام آباد میں ہوئے حالیہ حملوں کے بعد تو سیکورٹی فورسز میں مذاکرات کے باعمل اور بامقصد ہونے کے حوالے سے مایوسی میں اضافہ ہوا ہے- سول اور فوجی قیادت کے درمیان وسیع خلیج موجودہ پالیسی کو مزید مفلوج بنا سکتی ہے-

یہ مایوسی وفاقی کابینہ کے کی اراکین اور خود حکمران جماعت میں بھی نظر آنے لگی ہے- اسی لئے جب چوہدری نثار طالبان کے بارے میں میٹھی میٹھی باتیں کر رہے تھے تو وفاقی وزیر دفاع خواجہ آصف نے اسی ماہ کے دوران ممکنہ فوجی آپریشن کے بارے میں بھی خبردار کر دیا- انہوں نے عسکریت پسندوں کے محفوظ ٹھکانوں پر ممکنہ فضائی بمباری کے امکان کو مسترد نہیں کیا- طالبان مذاکرات میں سنجیدہ ہیں، اس حوالے سے وزیر داخلہ کے برخلاف، وزیر دفاع زیادہ پراعتماد معلوم نہیں ہوئے-

کابینہ کے اندر ایسی دو متضاد پوزیشنز سے یہ سنجیدہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کون اصلی سرکاری پالیسی کا نمائندہ ہے- یہ اس بے یقینی اور ابہام کا بھی غماز ہے جو کہ اب تیسری شریف حکومت کا طرہ امتیاز بن چکے ہیں-

ایک مضبوط نکتہ نگاہ سامنے آیا ہے کہ ابہام اور بے یقینی کی یہ کیفیت، وزیر اعظم نے جان بوجھ کر پیدا کی ہے جس کا مقصد مختلف لابیز میں مختلف اشارے بھیجنا ہے- یہ جناب نواز شریف کے حکومتی اسٹائل کی بھی عکاسی کرتا ہے- یہ بہت خطرناک کھیل ہے جس کے نتائج ملکی سلامتی کیلئے بہت خطرناک ہو سکتے ہیں-

انگلش میں پڑھیں

لکھاری ایک مصنف اور صحافی ہیں-

ترجمہ: علی مظفر جعفری

زاہد حسین

لکھاری صحافی اور مصنف ہیں. ان کا ای میل ایڈریس [email protected] ہے.

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

کارٹون

کارٹون : 21 دسمبر 2025
کارٹون : 20 دسمبر 2025