• KHI: Clear 18.7°C
  • LHR: Partly Cloudy 13.2°C
  • ISB: Partly Cloudy 9.9°C
  • KHI: Clear 18.7°C
  • LHR: Partly Cloudy 13.2°C
  • ISB: Partly Cloudy 9.9°C

کیا یہ واقعی برازیل تھا؟

شائع July 10, 2014

برازیلین ٹیم جب بیلو ہوریزنٹو میں سیمی فائنل کھیلنے اتری تو شاید گراؤنڈ اور ٹی وی پر میچ دیکھنے والے کسی بھی شخص نے تصور نہیں کیا ہو گا کہ میزبان ملک کے ساتھ اگلے 30 منٹ میں کیا سلوک ہونے والا ہے۔

حتیٰ کہ جرمن شائقین بھی اپنی ٹیم کی اس لاجواب کارکردگی پر آنکھیں جھپکنا بھول گئے ہوں گے لیکن برازیلین شائقین کا کیا، ان پر سوگ کی ایک ایسی کیفیت طاری تھی جس نے 1950 کے 'ماراکانہ سانحے' کی یاد تازہ کردی۔

میچ کے ابتدائی چند منٹ کے بعد ایسا محسوس ہوا کہ جیسے گراؤنڈ میں گیارہ کے بجائے 22 جرمن کھلاڑی اترے ہوں جنہیں روکنے والا کوئی نہ ہو اور خصوصاً چھ منٹ میں چار گول شاید برازیل کی تاریخ کا بدترین سانحہ تھا۔

اس میچ سے قبل تک میرا خیال یہی تھا کہ دنیا میں غیر متوقع کارکرگی کے لیے مشہور پاکستانی ٹیم سے بدتر پرفارمنس کوئی پیش نہیں کرسکتا اور ورلڈ کپ 1999 کا فائنل دیکھنے والے افراد میری اس رائے سے مکمل اتفاق کریں گے لیکن برازیل کے بدترین کھیل نے مجھے بھی اپنی رائے تبدیل کرنے پر مجبور کردیا کیونکہ شاید اپنی سرزمین پر پاکستان بھی ایسا کھیل پیش کرنے کی صلاحیت سے عاری ہے۔

نیمار اور برازیلین کپتان تھیاگو سلوا کے میچ سے باہر ہونے کے بعد ماہرین اس بات پر تو متفق تھے کہ میچ میں جرمنی ایک فیورٹ کی حیثیت سے میدان میں اترے گی اور کامیابی حاصل کرے گی لیکن جو کچھ ہوا اس نے سو سالہ بدتر کارکردگی کے نشان تک مٹا ڈالے۔

اس سے قبل 1920 میں برازیل کو یوراگوئے کے ہاتھوں 0-6 سے شکست ہوئی تھی لیکن ورلڈ کپ کی تاریخ میں انہیں آج تک کسی بھی ٹیم نے اتنے اور اس رفتار سے گول نہیں کیے کہ یہ ورلڈ کپ کے سیمی فائنل کی تاریخ کی بھی بدترین شکست بن گئی جہاں کسی بھی ٹیم کو اتنی تعداد میں اپنی گول پوسٹ سے جا کر گیند اٹھانے کی زحمت نہیں اٹھانی پڑی۔

یہاں جرمن ٹیم کے کھیل، ٹیم ورک، جارحانہ انداز اور گول کیپر کی تعریف نہ کرنا زیادتی کے مترادف ہو گا لیکن ایسی شکست میں جرمنی کو برازیل کے دفاع کی بھی بھرپور مدد حاصل رہی جو ایسے کھلاڑیوں کا مجموعہ دکھائی دیا جنہیں کسی نے ہاتھ پاؤں باندھ کر میدان میں اتار دیا ہو۔

اس تعداد میں گول پڑنے پر سوشل میڈیا پر بھی لوگوں نے انتہائی خوبصورت انداز میں برازیل پر طنزیہ کلمات ادا کیے۔

ایک بچے نے میچ کے پہلے ہاف کے بعد فیس بک پر اسٹیٹس اپ ڈیٹ کرتے ہوئے کہا کہ ’ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ میں اپنے پلے اسٹیشن پر کھیلتے ہوئے برازیل کے خلاف گول پر گول اسکور کررہا ہوں لیکن شاید اتنے گول تو میں بھی نہ کر پاتا‘۔

ایک ٹوئیٹر صارف کا سوال تھا " کیا کوئی وضاحت کرسکتا ہے کہ کس طرح نیمار کی کمر پر گھٹنے نے اسے چلنے سے روکا جبکہ دیگر گیارہ بھی کسی مفلوج سے کم نہیں؟۔

یہ باتیں کچھ غلط بھی نہیں کیونکہ میچ میں برازیل کا کھیل کسی اوسط درجے کے معمولی کلب سے بھی بدتر تھا۔

سب سے بڑھ کر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا برازیل کی ٹیم واقعی نیمار اور سلوا کے بغیر اوسط درجے کی ٹیم ہے؟، کیا ان کے پاس ان کے بہتر متبادل نہیں؟ یقیناً اس کا جواب نہیں میں ہی آئے گا۔

برازیل کی جانب سے سب سے بڑی غلطی ڈینی ایلوس، ویلین اور ریمیرس کو ابتدائی الیون میں کھیل کا حصہ نہ بنانا تھا جبکہ ایلوس کو تو میچ میں اتارنے کی زحمت تک گوارا نہیں کی گئی۔

برازیل کے کوچ فلپ اسکولاری نے اسے اپنی زندگی کا بدترین دن قرار دیتے ہوئے میچ میں شکست پر معافی تو مانگ لی لیکن اس پر ان سے جواب طلبی برازیلین عوام کا حق بنتا ہے۔

جب 1950 میں برازیل کو ورلڈکپ کے فائنل میں یوراگوئے کے ہاتھوں شکست ہوئی تو سب سے زیادہ تنقید ٹیم کے گول کیپر بربوسا پر کی گئی اور ان کا کیریئر ختم کردیا گیا، ایک ایسا شخص جس نے برازیل کو فائنل تک پہنچایا لیکن ایک میچ نے اس کی زندگی کا دھارا بدل دیا اور پورے ملک میں اس پر لعن طعن کی گئی حالانکہ وہ میچ میزبان صرف 2-1 سے ہارا تھا۔

لیکن موجودہ برازیلین ٹیم کے گول کیپر کا کیا، کیونکہ جولیو سیزار نے تو سات بار حریف ٹیم کو گول کرنے کی دعوت دی تو کیا ان کے کیریئر کا بھی اسی انداز میں خاتمہ ہو گا اور یہ ورلڈ کپ ان کے کیریئر کا آخری ایونٹ ثابت ہو گا۔

لیکن یہاں بات محض سیزار کی نہیں کیونکہ تقریباً پوری ہی برازیل کی ٹیم کا مستقبل داؤ پر لگا ہوا ہے اور اکثر ماہرین کی رائے میں موجودہ ٹیم کے کچھ کھلاڑی شاید اب دوبارہ کبھی برازیل کی نمائندگی نہ کرسکیں۔

برازیل کے سابق مڈ فیلڈر جونینیو پاؤلسٹا کے مطابق 'کھلاڑیوں کے اس شکست سے ریکور کرنا بہت مشکل ہو گا۔ میرے خیال میں موجودہ ٹیم کے کچھ کھلاڑی کبھی بھی دوبارہ برازیلن شرٹ نہیں پہن سکیں گے‘۔

عالمی کپ کے فاتح کا فیصلہ اب زیادہ دور نہیں اور 13 جولائی کو جرمنی اور ارجنٹینا ایک بار پھر 1990 کے بعد فائنل میں ایک دورے کے سامنے ہوں گے جہاں ارجنٹینا کے عوام کی امیدیں میسی کے کرشمے پر مرکوز ہوں گی لیکن ساتھ ساتھ برازیل ہفتے کو ہالینڈ کے خلاف تیسری پوزیشن کا میچ جیت کر اپنے عوام کے آنسو پونچھ سکتی ہے۔

نتیجہ چاہے جو بھی ہو لیکن ایک بات تو طے ہے کہ سانحہ ’منی رازو‘ برازیل کے لیے ماراکانہ سے بڑا المیہ بن چکا ہے اور چاہے برازیل تیسری پوزیشن ہی کیوں نہ لے، یہ زخم ملکی فٹبال کی تاریخ میں ہمیشہ ہرا رہے گا۔

اسامہ افتخار

اسامہ افتخار ڈان ڈاٹ کام کے اسٹاف ممبر ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

کارٹون

کارٹون : 25 دسمبر 2025
کارٹون : 24 دسمبر 2025