غزہ کے چرچ میں رمضان کی عبادت

شائع July 26, 2014

غزہ سٹی: اس شہر کے ایک باشندے محمد خلف کے لیے یہ نیا تجربہ عجیب ہی تھا کہ وہ یسوع مسیح کی نشانی کے سائے میں پانچ وقت کی نماز ادا کررہے تھے۔

لیکن جب سے غزہ میں جنگ شروع ہوئی ہے، ان کے لیے مسیحیوں کے خدا کے گھر میں عبادت کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں رہ گیا تھا، جہاں انہوں نے اسرائیل کے مسلسل فضائی حملوں کے بعد سے پناہ لے رکھی ہے۔

ستائیس برس کے خلف نے بتایا کہ ’’انہوں نے ہمیں نماز ادا کرنے کی اجازت دی۔ جس سے مسیحیوں کے بارے میں میرا نکتہ نظر تبدیل ہوگیا۔ درحقیقت میں اس سے پہلے کچھ بھی نہیں جانتا تھا، لیکن وہ میرے بھائی بن گئے ہیں۔‘‘

انہوں نے تسلیم کیا کہ انہوں نے کبھی بھی نہیں سوچا تھا کہ وہ مغرب کی نماز ایک چرچ میں ادا کریں گے۔

خلف نے بتایا ’’ہم سب (مسلمانوں) نے پچھلی رات مل کر دعا مانگی۔ یہاں مسلمانوں اور مسیحیوں کے درمیان محبت پروان چڑھ رہی ہے۔‘‘

غزہ سٹی کے سینٹ پروفیریس چرچ کے صحن میں زائرین کی چہل پہل ہے، جہاں مسیحی مددگاروں کی جانب سے ’مہربان‘ کے الفاظ کے ساتھ خیرمقدم کیا جارہا ہے، جبکہ اس چرچ کے موجودہ رہائشیوں کی جانب سے ’السلام علیکم‘ یعنی آپ پر سلامتی ہو، کے الفاظ ادا کیے جارہے ہیں، غزہ سے بے گھر ہونے والوں نے تقریباً دو ہفتوں سے اس کو پناہ گاہ بنا لیا ہے۔

اسرائیلی بمبار طیاروں کی جانب سے نشانہ بنائے جانے کے بعد خلف کو شاف میں واقع اپنے گھر کو چھوڑنا پڑا تھا۔ ان کے ہاتھ میں تسبیح کے دانے تیزی سے گردش کررہے تھے، لیکن یہ سوچ کر کہ انہیں ایک محفوظ پناہ گاہ میسر آگئی ہے، انہیں قدرے اطمینان محسوس ہوتا ہے، جہاں ان کے ساتھ بے گھر ہونے والے پانچ سو مسلمان اور بھی مقیم ہیں۔

انہوں نے کہا ’’مسیحی ہمیں اندر لے گئے۔ اس کے لیے اور ہمارے ساتھ کھڑے ہونے پر ہم ان کے شکرگزار ہیں۔‘‘

خلف اب ایک اجنبی مذہب کے عبادت خانے کے احاطے میں عبادت کے عادی ہوگئے ہیں۔ خاص طور پر مسلمانوں کے مقدس مہینے رمضان کے روزوں کے دوران معمولکے برعکس ہوجاتی ہے۔

روزانہ وہ مکے کی جانب رُخ کرکے نماز کے دوران قرآن کی آیات کی سرگوشی کے سے انداز میں تلاوت کرتے ہیں اور سجدے میں چلے جاتے ہیں۔ بالکل اسی طرح جیسے وہ مسجد میں کیا کرتے تھے۔

پادری اور چرچ کے دیگر خدمت گار رمضان کے دوران اپنے مسلمان مہمانوں کا احترام کررہے ہیں۔

خلف کہتے ہیں کہ ’’مسیحی یقیناً روزے نہیں رکھ رہے ہیں، لیکن ان دنوں ہمارے سامنے کھانے پینے سے حتی الامکان گریز کررہے ہیں۔ وہ ہمارے قرب و جوار میں نہ تو سگریٹ پیتے ہیں اور نہ ہی شراب۔‘‘

لیکن وہ یہ بھی تسلیم کرتے ہیں کہ اس خونریزی کے دوران مذہبی رسومات پر یکسوئی کے ساتھ عمل کرنا مشکل ہوگیا ہے۔ اس اندھادھند تصادم میں آٹھ سوسے زیادہ تعداد میں فلسطینی ہلاک ہوچکے ہیں،جن میں زیادہ تر عام شہری ہیں۔

انہوں نے بتایا ’’میں ایک عام عبادت گزار مسلمان ہوں، لیکن میں رمضان کے دوران سگریٹ پی رہا ہوں۔ میں روزے نہیں رکھ رہا ہوں، میں اس جنگ کی وجہ سے سخت خوفزدہ اور پریشان ہوں۔‘‘

شہداء کی دعوت

اگلے ہفتے رمضان کا مہینہ ختم ہونے پر عید کا تہوار آرہا ہے، اس کے بعد مسلمان روزے نہیں رکھیں گے۔

لیکن جاری بمباری، سینکڑوں اموات اور ہزاروں بے گھروں کے ساتھ معمول کی خوشیوں کے مواقع بھی افسردگی میں بدل جاتے ہیں۔

ایک مسلم خاتون سبرین الزیارہ جو اس چرچ میں پچھلے دس سالوں سے صفائی کا کام کررہی ہیں، کہتی ہیں ’’مسیحی اور مسلمان یہاں مل کر عید مناسکتے ہیں۔‘‘

انہوں نے مرنے والوں کو احترام کے ساتھ یاد کرتے ہوئے کہا ’’لیکن اس سال روزے کی افطار یعنی عیدالفطر نہیں ہوگی بلکہ یہ شہیدوں کی دعوت ہوگی۔‘‘

یہاں تو ہم آہنگی اور رواداری کا ماحول قائم ہے، لیکن میدانِ جنگ کے وسط میں کشیدگی اب بھی محسوس کی جاسکتی ہے۔

جیسے ہی غذائی اشیاء کی تقسیم کرنے والے وہاں پہنچتے ہیں تو لوگ تقریباً ایک دوسرے سے گتھم گتھا ہوجاتے ہیں۔ خواتین اور بچوں کو روٹی اور پانی کی بوتل پر مشتمل پلاسٹک کے بیگزاس چرچ کے مددگار فراہم کرتے ہیں، یہ روایت ہر ممکن حد تک نبھائی جارہی ہے۔

اس چرچ سے ملحقہ قبرستان کو منگل کے روز مارٹر گولے نے نشانہ بنایا تھا، جس سے اردگرد کی عمارتیں لرز کر رہ گئی تھیں۔

یہ بم کسی کا امتیاز نہیں کرتے، مسلم قبرستان کےسامنے بھی ایک بم کے گولے نے ہٹ کیا تھا۔

غزہ کے مسیحیوں کی تعداد تقریباً پندرہ ہزار ہے، جو سترہ لاکھ سنی مسلمانوں کی اکثریتی آبادی کے سامنے کافی کم ہے۔

یہاں کی طرح مسیحی برادری کے لوگوں کی تعداد مشرق وسطیٰ کے دیگر علاقوں میں بھی کم ہوتی جارہی ہے، اس لیے کہ یہاں تصادم اور بے روزگاری میں اضافہ ہورہا ہے۔

لیکن دہشت گردی کے مشترکہ تجربے سے بھائی چارے کے احساس کو فروغ ملا ہے۔

ایک مسیحی رضاکار توفیق قادر نے کہا ’’یسوع نے کہا کہ محض اپنے خاندان سے نہیں بلکہ اپنے پڑوسی سے، اپنے ساتھیوں سے، اپنے ہم جماعت سے، چاہے وہ مسلم ہوں، ہندو ہوں یا یہودی سب سے محبت کرو۔‘‘

’’ہم نے اپنے دروازے تمام لوگوں کے لیے کھول دیے ہیں۔‘‘

کارٹون

کارٹون : 22 دسمبر 2025
کارٹون : 21 دسمبر 2025