پاکستانی یونیورسٹیز میں ریسرچ کی حالت زار

اپ ڈیٹ 21 جون 2017
ترقی یافتہ ممالک کی یونیورسٹیز میں باقاعدہ ریسرچ کلچر موجود ہے اور ریسرچ ان ممالک کی ترقی میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔
ترقی یافتہ ممالک کی یونیورسٹیز میں باقاعدہ ریسرچ کلچر موجود ہے اور ریسرچ ان ممالک کی ترقی میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔

ترقی یافتہ ممالک میں یونیورسٹیوں میں باقاعدہ ریسرچ کلچر موجود ہوتا ہے۔ تعلیمی شعبے میں ہونے والی ریسرچ ان ممالک کی ترقی میں سب سے زیادہ کردار ادا کرتی ہے۔

پاکستان کی یونیورسٹیوں میں کلاسز میں پڑھانے پر تو کافی زور دیا جاتا ہے، لیکن اگر ریسرچ کی بات کی جائے تو پاکستان کو اس کی معاشی، سماجی، اور سائنسی پالیسیاں بنانے میں مدد کے لیے بہت ہی کم کام کیا جارہا ہے۔

میں گذشتہ سات سالوں سے اکیڈمکس اور ریسرچ سے وابستہ ہوں، اور ہمارے ریسرچرز کی جانب سے کی گئی ریسرچز کی کوالٹی نے مجھے ہمیشہ ڈسٹرب کیا ہے۔

پاکستانی یونیورسٹیوں میں ریسرچ کی خراب صورتحال کی کئی وجوہات ہیں، لیکن صحیح سمت میں اٹھائے گئے کچھ اقدامات سے ان میں سے کئی مسائل کو حل کیا جاسکتا ہے۔

پروموشن کے لیے ریسرچ

2002 میں ہائیر ایجوکیشن کمیشن (ایچ ای سی) نے یونیورسٹیوں میں اصلاحات لانے کا کام شروع کیا تھا۔ ہزاروں اسکالرز کو اعلیٰ تعلیم کے لیے باہر بھیجا گیا تھا، جس میں سے کئی اب واپس آچکے ہیں اور پاکستان کی خدمت کر رہے ہیں۔

لیکن بھلے ہی ایچ ای سی اس بات کو قانونی بانڈ کے ذریعے یقینی بناتا ہے کہ اسکالرز ملک واپس ضرور آئیں، لیکن ایچ ای سی کی جانب سے پی ایچ ڈی کے دوران ریسرچ پبلیکیشنز کی تعداد اور کوالٹی کے متعلق کوئی معیار موجود نہیں ہے۔

کچھ ریسرچ سپروائزر اپنے ریسرچ گروپ کی انٹرنیشنل رینکنگ کی وجہ سے ریسرچ کی کوالٹی پر زور دیتے ہیں لیکن زیادہ تر کو اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ باہر کے ممالک میں نامور یونیورسٹیوں سے اپنی تعلیم مکمل کر رہے اسکالرز تھوڑے لیکن اچھی کوالٹی کے پیپرز پبلش کرتے ہیں، لیکن یہاں پر تو معاملہ ہی الٹ ہے۔

پاکستان کی یونیورسٹیوں میں پروموشن کے لیے پی ایچ ڈی کے ساتھ ساتھ پیپرز کی ایک مخصوص تعداد ہونی چاہیے۔ ترقی کے معاملے میں پبلیکیشن کی کوالٹی کو نظرانداز کر کے صرف اور صرف تعداد دیکھی جاتی ہے۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ایک ایسا شخص جس کی پبلیکیشنز کم، لیکن سینکڑوں حوالہ جات کے ساتھ ہوں، وہ پیچھے رہ جاتا ہے جب کہ نامعلوم جرنلوں اور کانفرنسوں میں پبلش ہونے والے غیرمعیاری پیپرز کی بنا پر پروفیسر کا رتبہ حاصل کرلیا جاتا ہے۔ اس وجہ سے اکیڈمکس اپنی پی ایچ ڈی مکمل کرنے کے بعد محنت کرنے سے کتراتے ہیں، اور ایک بار پاکستان واپس آجانے کے بعد وہ ہر طرح کی مبہم کانفرنسوں اور جرنلوں میں اپنے پیپرز شائع کرا لیتے ہیں۔


پڑھیے: رینکنگ اور ہماری یونیورسٹیاں


فیکلٹی کے درمیان حسد اور عدم تحفظ

یہ بات اہم ہے کہ یونیورسٹیوں میں تعلیمی ڈپارٹمنٹس کے اکثر سربراہان خود باقاعدہ طور پر ریسرچ کی سرگرمیوں سے دور رہتے ہیں۔

اور یہی وہ بنیادی وجہ ہے جس کی وجہ سے ہیڈز آف ڈپارٹمنٹس اپنے اپنے ڈپارٹمنٹ میں ریسرچ کا کلچر بڑھانے پر توجہ نہیں دیتے۔ ان میں سے کئی اس بات سے بھی خوفزدہ ہوتے ہیں کہ ان کے جونیئر کہیں اچھی کوالٹی کا پیپر شائع کرانے میں کامیاب ہوکر ملکی یا عالمی شہرت حاصل نہ کرلیں۔

مجھے یقین ہے کہ یہ مضمون پڑھنے والوں میں سے کئی لوگ اس مسئلے سے اتفاق کریں گے۔ عدم تحفظ کا شکار ہیڈ آف ڈپارٹمنٹ اپنے ماتحتوں پر کام کا زیادہ سے زیادہ بوجھ ڈالتے ہیں، یا بنیادی وسائل جیسے کہ پرنٹر اور لیپ ٹاپ وغیرہ فراہم نہ کر کے رکاوٹیں ڈالتے ہیں۔

یہ سب چیزیں مل کر ہمارے اداروں میں اکیڈمکس کی پسماندہ صورتحال کا باعث بنتی ہیں۔

رابطے اور تعاون کی کمی

ریسرچ کو دوسروں تک پہنچانا، اور مستقبل کے کام کے لیے تعاون کرنا، اچھی کوالٹی کی ریسرچ کے لیے نہایت اہمیت کے حامل ہیں۔

پاکستان میں یونیورسٹیاں اپنے ٹیچرز کی ریسرچ کو آگے پھیلانے کی جانب کوئی توجہ نہیں دیتیں۔ اس کی وجوہات بھی تقریباً وہی ہیں جو اوپر دی گئیں، یعنی ناپسندیدگی، تعلقات اور نیٹ ورکنگ کی کمزوری، حسد، اور ایسے کلچر کا موجود ہونا شامل ہیں، جس میں پسمنظر میں رہنے کو ترجیح دی جاتی ہے، اور جس کے خلاف جنگ کافی مشکل ہے۔

اگر ریسرچ اتنی خراب کوالٹی کی ہے کہ وہ آگے پھیلائے جانے کے قابل بھی نہیں، تو الزام کسے دیا جائے؟

فنڈنگ حاصل کرنے کا مشکل طریقہ کار

اور زیادہ تر ریسرچ اتنی خراب کوالٹی کی کیوں ہوتی ہے؟ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ اصلی اور حیران کن ریسرچ کے لیے فنڈنگ کی ضرورت ہوتی ہے۔

ترقی یافتہ ممالک میں یونیورسٹیوں کے پاس اپنے اکیڈمکس کی تربیت کے لیے خصوصی فنڈز ہوتے ہیں، جس سے انہیں سمر اسکولز اور ورکشاپس میں بھیجا جاتا ہے۔ سیمینارز کرانا معمول ہوتا ہے، جس میں دنیا بھر سے مشہور اسکالرز کو مدعو کیا جاتا ہے تاکہ وہ نوجوان ریسرچرز کے سامنے اپنی تحقیق پیش کرسکیں۔

ایچ ای سی کے پاس کانفرنسیں کرانے کے لیے فنڈز موجود ہیں، جبکہ کانفرنسوں میں شرکت کرنے کے لیے ریسرچرز کو ٹریول گرانٹ بھی دی جاتی ہیں، لیکن اس کا مرحلہ کافی طویل ہوتا ہے۔ ریسرچرز کو کانفرنس میں شرکت کے لیے ویزا کے لیے اپلائی کرنا پڑتا ہے، اور فنڈنگ ملنے کے طویل مرحلے کے باعث کئی دفعہ ریسرچرز وقت پر ویزا حاصل کرنے میں ناکام رہتے ہیں۔

اکیڈمکس اور انڈسٹری کے درمیان فاصلے

پوری دنیا میں انڈسٹری اکیڈمکس کے ساتھ مل کر کام کرتی ہے تاکہ بہترین کوالٹی کی ریسرچ سے موجودہ مسائل کا حل نکالا جاسکے۔ اکیڈمکس سے انڈسٹری کی جانب معلومات کا یہ سفر ہی ترقی یافتہ معیشتوں کی ترقی کا راز ہے۔

پاکستان میں اکیڈمکس اور انڈسٹری کے درمیان یہ خلیج بہت وسیع ہے۔ نہ ہی انڈسٹری کے مسائل کے حل کے لیے ریسرچ کی جاتی ہے، اور نہ ہی یہ اتنی اچھی ہوتی ہے کہ کوئی مسئلہ حل کرسکے۔ حقیقی دنیا سے تعلق میں کمی بھی اس بات کی وجہ ہے کہ ہمارے گریجویٹس کو پروفیشنل دنیا کے لیے بےہنر اور ناکافی سمجھا جاتا ہے۔

اس سب کو درست کیسے کیا جائے؟

یونیورسٹیوں میں صحتمند اور فائدہ مند ریسرچ کا کلچر پیدا کرنے کے لیے ہمیں طویل مدتی اقدامات کرنے ہوں گے، اور اپنی یونیورسٹیوں میں ایسا ماحول پیدا کرنا ہوگا، جو ریسرچ کے لیے سازگار ہو۔

1۔ سب سے پہلے تو ایچ ای سی کو اپنی پالیسی پر نظرِثانی کرتے ہوئے بھرتیوں اور ترقییوں کے لیے صرف ان پیپرز کو مدِنظر رکھنا چاہیے جو کہ کسی اچھے اور اثرانگیز کانفرنس یا جرنل میں شائع ہوئے ہوں۔

2۔ سینیئرترین اکیڈمکس کو ریسرچ میں مصروف رکھنے کے لیے یونیورسٹیوں کو اس بات کو لازمی قرار دینا چاہیے کہ وہ ہر سال کم از کم ایک اچھی کوالٹی کا پیپر پہلے مصنف (first author) کے طور پر ضرور شائع کریں۔ اس سے یہ ہوگا کہ ٹینیور حاصل کرچکے پروفیسر بھی پوسٹ حاصل کرچکنے کے بعد ریسرچ کو فل اسٹاپ لگانے کے بجائے ریسرچ میں عملی طور پر حصہ لیں گے۔

3۔ اسکالرز کی بڑی تعداد کی پاکستان واپسی کو مدِنظر رکھتے ہوئے یہ ضروری ہے کہ ان نئے آنے والوں کے لیے آسانیاں پیدا کی جائیں اور انہیں سسٹم میں جگہ فراہم کی جائے۔ معمول کی بنیاد پر ہفتہ وار میٹنگز کرائی جائیں جس میں فیکلٹی ممبران پراجیکٹس کو ڈسکس کریں۔ یہ بہتر رابطے و تعلقات، باہمی انڈراسٹینڈنگ اور ریسرچ کو ملک اور ملک سے باہر دیگر ریسرچرز تک پہنچانے میں مددگار ثابت ہوگا۔ اس طرح کی کاوشوں سے زیادہ بہتر تعاون پر مبنی ریسرچ سامنے آئے گی۔

4۔ ایچ ای سی کو چاہیے کہ ٹریول گرانٹس کی منظوری کے طویل مرحلے کو چھوٹا کرے، اور اگر ممکن ہو تو کڑی شرائط کو بھی تھوڑا آسان کردیا جائے۔ اسکالرز کو سیمینارز وغیرہ کے لیے باہر بھیجنے کا طریقہ کار آسان ہونا چاہیے۔

5۔ انڈسٹری اور اکیڈمکس کے درمیان تعلق نہایت ضروری ہے۔ اگر پراجیکٹس میں طلبا کو شامل کیا جائے، تو انڈسٹری کے مسائل کو کم قیمت پر حل کیا جاسکتا ہے۔ اس کا ایک طریقہ یہ ہے کہ بیچلر اور ماسٹرز کے طلبا کو ریسرچ پر مبنی چھوٹے پراجیکٹس دیے جائیں، جن میں پہلا سپروائزر یونیورسٹی سے، جبکہ دوسرا سپروائزر انڈسٹری سے ہو۔


مزید پڑھیے: ایچ ای سی کو تین ارب کی گرانٹ جاری


طلبا اکثر اوقات انڈسٹری کو درپیش مسائل کا کم قیمت حل ڈھونڈ نکالتے ہیں، جو کہ کمپنیوں کے لیے پرکشش ہوگا۔ دوسری جانب یونیورسٹیاں ان کے آئیڈیاز کے بدلے انڈسٹری سے فنڈنگ اور آلات حاصل کرسکتی ہیں۔

پاکستان میں اکیڈمک ریسرچ ابھی نسبتاً نئی ہے، لیکن پھر بھی ایچ ای سی کو اعلیٰ تعلیم کے لیے اپنے اسکالرز کو باہر بھیجتے ہوئے ایک دہائی سے زیادہ عرصہ ہوگیا ہے۔

اب آگے بڑھنے، اور انڈر گریجویٹ اور پوسٹ گریجویٹ پروگرامز میں ریسرچ پر مبنی پراجیکٹ متعارف کرانے کا وقت ہے۔ ہم ایک رات میں مکمل طور پر نیا کلچر تو تشکیل نہیں دے سکتے، لیکن کم از کم اتنا تو کرسکتے ہیں کہ انڈرگریجویٹ سطح پر ریسرچ کی بنیادی تعلیم دیں۔

انگلش میں پڑھیں۔

تبصرے (0) بند ہیں