‫خفیہ باغ: 18 سال کی محنت کا منہ بولتا ثبوت

15 دسمبر 2014

انسانی ہاتھوں سے تیار کردہ آبشاروں اور مجسموں سے سجے اس باغ کے اندر نیک چند بتا رہے ہیں کہ کس طرح وہ اٹھارہ برس تک راتوں کو خفیہ طریقے سے کام کرتے تھے اور کس طرح انہوں نے شمالی ہندوستان میں پریوں کا یہ نگر تخلیق کیا۔

وہ رات گئے اپنی سائیکل پر سوار ہوکر گھپ اندھیرے میں ریاست کے ملکیتی جنگل میں نکل جاتا اور وہاں اٹھارہ سال تک راتوں کی تاریکی میں زمین کو صاف کرکے اس جگہ کو جادوئی باغ میں تبدیل کرنے میں لگا رہا جو بیس ایکڑ رقبے پر پھیلا ہوا ہے۔

نیک چند نے اے ایف پی کو اپنی 90 ویں سالگرہ کے موقع پر انٹرویو دیتے ہوئے بتایا "میں نے چندی گڑھ میں اس باغ کو مشغلے کے طور پر 1950 کی دہائی میں تعمیر کرنا شروع کیا تھا اور اٹھارہ سال تک کسی کو بھی اس کے بارے میں معلوم نہیں ہوسکا، جس کی وجہ یہاں جنگل کا ہونا تھا اس لیے یہاں کس نے آنا تھا اور کس لیے؟ یہاں آنے جانے کے لیے سڑکیں بھی موجود نہیں تھیں"۔

اب یہ باغ ایک اہم سیاحتی مرکز بن چکا ہے جہاں روزانہ ہزاروں افراد آتے ہیں۔

تقسیم برصغیر کے بعد ہونے والے فسادات میں لاتعداد عمارات ملبے کا ڈھیر بن گئی تھیں اور اس ملبے سے روڈ انسپکٹر کا کام کرنے والے نیک چند نے وہ چیزیں منتخب کیں جو اس کی نظر میں بہت اہمیت رکھتی تھیں — اے ایف پی فوٹو
تقسیم برصغیر کے بعد ہونے والے فسادات میں لاتعداد عمارات ملبے کا ڈھیر بن گئی تھیں اور اس ملبے سے روڈ انسپکٹر کا کام کرنے والے نیک چند نے وہ چیزیں منتخب کیں جو اس کی نظر میں بہت اہمیت رکھتی تھیں — اے ایف پی فوٹو
مٹی کے ٹکڑے، شیشہ اور ٹائلوں کے ساتھ ٹوٹے ہوئے باتھ رومز کے حصوں کو بھی مرد و خواتین، پریوں، شیطانوں، ہاتھیوں اور بندروں کے مجسمے بنانے کے لیے استعمال کیا گیا — اے ایف پی فوٹو
مٹی کے ٹکڑے، شیشہ اور ٹائلوں کے ساتھ ٹوٹے ہوئے باتھ رومز کے حصوں کو بھی مرد و خواتین، پریوں، شیطانوں، ہاتھیوں اور بندروں کے مجسمے بنانے کے لیے استعمال کیا گیا — اے ایف پی فوٹو
نیک چند کے بقول "میرے پاس متعدد خیالات تھے اور میں ہر وقت اس باغ کے بارے میں ہی سوچتا رہتا تھا، میں نے تمام تعمیراتی سامان ملبے سے اکھٹا کرکے سائیکل پر لاد کر مطلوبہ مقام پر پہنچانا شروع کیا" — اے ایف پی فوٹو
نیک چند کے بقول "میرے پاس متعدد خیالات تھے اور میں ہر وقت اس باغ کے بارے میں ہی سوچتا رہتا تھا، میں نے تمام تعمیراتی سامان ملبے سے اکھٹا کرکے سائیکل پر لاد کر مطلوبہ مقام پر پہنچانا شروع کیا" — اے ایف پی فوٹو
جب نیک چند کا یہ راز 1976 میں سامنے آیا تو انتظامیہ نے اس باغ کو گرانے کی دھمکی دیتے ہوئے دعویٰ کیا کہ اس نے زمینی ملکیت کے قوانین کی خلاف ورزی کی ہے مگر حیرت میں مبتلا عوام نیک چند کے پیچھے تھے جس کے باعث اسے چندی گڑھ کے اس نئے نویلے پہاڑی باغ کا سربراہ بنا دیا گیا — اے ایف پی فوٹو
جب نیک چند کا یہ راز 1976 میں سامنے آیا تو انتظامیہ نے اس باغ کو گرانے کی دھمکی دیتے ہوئے دعویٰ کیا کہ اس نے زمینی ملکیت کے قوانین کی خلاف ورزی کی ہے مگر حیرت میں مبتلا عوام نیک چند کے پیچھے تھے جس کے باعث اسے چندی گڑھ کے اس نئے نویلے پہاڑی باغ کا سربراہ بنا دیا گیا — اے ایف پی فوٹو
دلچسپ بات یہ ہے کہ نیک چند نے فنون لطیفہ یا مجسمہ سازی کی رسمی تعلیم حاصل نہیں کر رکھی بلکہ انہیں یہ خیال بچپن میں اس وقت آیا تھا جب وہ اپنے گاﺅں میں دریا کے کنارے کھیلا کرتے تھے اب وہ مقام پاکستان کا حصہ ہے — اے ایف پی فوٹو
دلچسپ بات یہ ہے کہ نیک چند نے فنون لطیفہ یا مجسمہ سازی کی رسمی تعلیم حاصل نہیں کر رکھی بلکہ انہیں یہ خیال بچپن میں اس وقت آیا تھا جب وہ اپنے گاﺅں میں دریا کے کنارے کھیلا کرتے تھے اب وہ مقام پاکستان کا حصہ ہے — اے ایف پی فوٹو
نیک چند فاﺅنڈیشن کے ایک برطانوی رضاکار ایلن سیزرانو کے مطابق "یہی وجہ ہے کہ ان مجسموں کا معیار بچکانہ محسوس ہوتا ہے اور ان کو غور سے دیکھنے پر آپ کو معلوم ہوگا کہ درحقیقت یہ ایک افسانوی ریاست کا بچگانہ ورژن ہے" — اے ایف پی فوٹو
نیک چند فاﺅنڈیشن کے ایک برطانوی رضاکار ایلن سیزرانو کے مطابق "یہی وجہ ہے کہ ان مجسموں کا معیار بچکانہ محسوس ہوتا ہے اور ان کو غور سے دیکھنے پر آپ کو معلوم ہوگا کہ درحقیقت یہ ایک افسانوی ریاست کا بچگانہ ورژن ہے" — اے ایف پی فوٹو
اس نے مزید کہا "درحقیقت یہ اپنی طرز کا دنیا میں واحد مقام ہے، انتظامیہ اور عوام کو اس کی اہمیت کا احساس کرنا چاہئے اور اس کے تحفظ کے لیے آگے آنا چاہئے" — اے ایف پی فوٹو
اس نے مزید کہا "درحقیقت یہ اپنی طرز کا دنیا میں واحد مقام ہے، انتظامیہ اور عوام کو اس کی اہمیت کا احساس کرنا چاہئے اور اس کے تحفظ کے لیے آگے آنا چاہئے" — اے ایف پی فوٹو
اسی طرح کچھ پُرجوش سیاح اکثر آبشاروں یا دیگر چیزوں پر چڑھ جاتے یا لیٹ جاتے ہیں جس سے ان نازک اشیاء کو نقصان پہنچتا ہے، اس باغ کی دیکھ بھال کرنے والے رضاکاروں میں شامل مانی ڈھلون کا کہنا ہے " ایک ایسا ملک جو اپنی کچی بستیوں اور کچرا گھروں کی بناء پر زیادہ جانا جاتا ہو وہاں یہ پہاڑی باغ ایک غیرمعمولی مثال سمجھا جاسکتا ہے" — اے ایف پی فوٹو
اسی طرح کچھ پُرجوش سیاح اکثر آبشاروں یا دیگر چیزوں پر چڑھ جاتے یا لیٹ جاتے ہیں جس سے ان نازک اشیاء کو نقصان پہنچتا ہے، اس باغ کی دیکھ بھال کرنے والے رضاکاروں میں شامل مانی ڈھلون کا کہنا ہے " ایک ایسا ملک جو اپنی کچی بستیوں اور کچرا گھروں کی بناء پر زیادہ جانا جاتا ہو وہاں یہ پہاڑی باغ ایک غیرمعمولی مثال سمجھا جاسکتا ہے" — اے ایف پی فوٹو
ان کے بقول اس باغ کے راستے نقاشی سے مزئین کیے گئے، یہاں خفیہ چیمبر اور آنگن بھی موجود ہیں "میں اپنی سائیکل پر روزانہ چار چکر لگا کر سامان پہنچاتا تھا میں نے لوگوں کی نظر میں کچرے کی حیثیت اختیار کرنے والے سامان میں خوبصورت آرٹ تلاش کرلیا تھا" — اے ایف پی فوٹو
ان کے بقول اس باغ کے راستے نقاشی سے مزئین کیے گئے، یہاں خفیہ چیمبر اور آنگن بھی موجود ہیں "میں اپنی سائیکل پر روزانہ چار چکر لگا کر سامان پہنچاتا تھا میں نے لوگوں کی نظر میں کچرے کی حیثیت اختیار کرنے والے سامان میں خوبصورت آرٹ تلاش کرلیا تھا" — اے ایف پی فوٹو
نیک چند نے وہاں اپنے ہاتھوں سے تیار کردہ سینکڑوں مجسمے سجا رکھے ہیں جن میں بیشتر کو تباہ شدہ مکانات کے ملبے اور بے کار ذاتی مصنوعات جیسے برقی ساکٹس، سوئچز، چوڑیوں اور سائیکل کے فریمز وغیرہ کی مدد سے تیار کیا گیا ہے — اے ایف پی فوٹو
نیک چند نے وہاں اپنے ہاتھوں سے تیار کردہ سینکڑوں مجسمے سجا رکھے ہیں جن میں بیشتر کو تباہ شدہ مکانات کے ملبے اور بے کار ذاتی مصنوعات جیسے برقی ساکٹس، سوئچز، چوڑیوں اور سائیکل کے فریمز وغیرہ کی مدد سے تیار کیا گیا ہے — اے ایف پی فوٹو
کچھ مجسمے ٹوٹی ہوئی چوڑیوں سے تیار کیے گئے جس میں لڑکیوں کو ناچتے ہوئے دکھایا گیا ہے، جیسے جیسے اس خفیہ باغ کی خبر پھیلنا شروع ہوئی وہاں لگائے جانے والے ٹکٹوں کی فروخت بھی بڑھنے لگی اور اب روزانہ ہندوستان بھر اور بیرون ملک سے تین ہزار کے لگ بھگ افراد اس حیرت کدہ کو دیکھنے کے لیے آتے ہیں — اے ایف پی فوٹو
کچھ مجسمے ٹوٹی ہوئی چوڑیوں سے تیار کیے گئے جس میں لڑکیوں کو ناچتے ہوئے دکھایا گیا ہے، جیسے جیسے اس خفیہ باغ کی خبر پھیلنا شروع ہوئی وہاں لگائے جانے والے ٹکٹوں کی فروخت بھی بڑھنے لگی اور اب روزانہ ہندوستان بھر اور بیرون ملک سے تین ہزار کے لگ بھگ افراد اس حیرت کدہ کو دیکھنے کے لیے آتے ہیں — اے ایف پی فوٹو
نیک چند کے مجسمے اب دنیا بھر کے میوزیمز کا حصہ بن رہے ہیں جن میں واشنگٹن کا نیشنل چلڈرن میوزیم اور دیگر شامل ہیں تاہم چندی گڑھ میں اس باغ کو اپنی بقا کے چیلنج کا سامنا ہے جس کی وجہ ریاستی حکومت کی جانب سے کم فنڈز کی فراہمی اور ٹکٹوں سے حاصل ہونے والی آمدنی خود لے لینا ہے — اے ایف پی فوٹو
نیک چند کے مجسمے اب دنیا بھر کے میوزیمز کا حصہ بن رہے ہیں جن میں واشنگٹن کا نیشنل چلڈرن میوزیم اور دیگر شامل ہیں تاہم چندی گڑھ میں اس باغ کو اپنی بقا کے چیلنج کا سامنا ہے جس کی وجہ ریاستی حکومت کی جانب سے کم فنڈز کی فراہمی اور ٹکٹوں سے حاصل ہونے والی آمدنی خود لے لینا ہے — اے ایف پی فوٹو
نیک چند اب بھی اس باغ کی دیکھ بھال کرتے ہیں اور یہاں روزانہ ہی آتے ہیں مگر ان کی بڑھتی عمر اور کمزور بینائی کے باعث ان کے لیے نئے مجسموں کی تخلیق کا وقت نہیں رہا — اے ایف پی فوٹو
نیک چند اب بھی اس باغ کی دیکھ بھال کرتے ہیں اور یہاں روزانہ ہی آتے ہیں مگر ان کی بڑھتی عمر اور کمزور بینائی کے باعث ان کے لیے نئے مجسموں کی تخلیق کا وقت نہیں رہا — اے ایف پی فوٹو
تاہم وہ اپنے نصف صدی پرانے حیرت انگیز باغ کو بچانے کے لیے پُرعزم ہیں "میں کسی بات سے خوفزدہ نہیں ہوں، اگر میں خوفزدہ ہوتا تو کس طرح جنگل میں رات کی تاریکی میں کام کرپاتا؟ — اے ایف پی فوٹو
تاہم وہ اپنے نصف صدی پرانے حیرت انگیز باغ کو بچانے کے لیے پُرعزم ہیں "میں کسی بات سے خوفزدہ نہیں ہوں، اگر میں خوفزدہ ہوتا تو کس طرح جنگل میں رات کی تاریکی میں کام کرپاتا؟ — اے ایف پی فوٹو