ایک اور 16 دسمبر، ایک اور یوم سیاہ
پاکستان کی تاریخ میں سولہ دسمبر سقوط ڈھاکہ 1971 کے باعث سیاہ دن سمجھا جاتا ہے اور اس واقعے کو 43 سال مکمل ہونے کے بعد ایک بار پھر یہ روز پاکستانی قوم کے لیے انتہائی تکلیف دہ دن ثابت ہوا ہے۔
پشاور میں آرمی پبلک اسکول پر دہشت گردوں نے دھاوا بول کر 100 سے زائد بچوں سمیت 126 افراد کو ہلا ک کردیا جس کی ذمہ داری تحریک طالبان پاکستان نے قبول کی ہے۔
اس المناک سانحے نے ایک بار پھر ملک میں سیکیورٹی اور امن و امان کی صورتحال پر سوالات کھڑے کردیئے ہیں۔
آرمی پبلک اسکول پر حملہ شمالی وزیرستان میں جاری آپریشن ضرب عضب کا ردعمل مانا جارہا ہے۔
اس حملے پر سیاستدانوں اور صحافیوں کا ردعمل اس طرح سامنے آیا۔
سیکیورٹی اور قانون پر عملدرآمد پر سوالات
اگرچہ آپریشن ضرب عضب ملک کو دہشت گردوں سے نجات دلانے کے لیے جاری ہے مگر اس حالیہ حملے سے اندازہ ہوتا ہے کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے اس طرح کے جوابی ردعمل سے نمٹنے کے لیے تیار نہیں تھے۔
سنیئر صحافی طلعت حسین نے سیکیورٹی صورتحال پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ایسا نظر آتا ہے کہ دہشت گردوں کو کہیں بھی حملہ کرنے میں کسی قسم کی مشکل کا سامنا نہیں ہوتا۔
اتحاد کی اپیل
مختلف حلقوں کی جانب سے یہ اپیل سامنے آئی ہے کہ اس سانحے کو سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کے لیے استعمال نہ کیا جائے اور یہ وہ وقت ہے جب سب کو اکھٹے کھڑے ہوکر اپنے اختلافات کو پس پشت ڈال دینا چاہئے۔
مصنف بینا شاہ نے سیاسی قیادت سے اپیل کی ہے کہ وہ اپنے تنازعات کو دور رکھیں۔
ضرب عضب کو جاری رکھنے کا مطالبہ
پشاور حملے کے بعد پاکستانی عوامی تحریک کے سربراہ ڈاکٹر طاہر القاعدہ اور ایم کیو ایم کی رہنماءسمیتا سید نے آپریشن ضرب عضب جاری رکھن ے کا مطلبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ آپریشن کو مقاصد کے حصول تک جاری رکھا جانا چاہئے۔
مذہب کے نام پر دہشت گردی قابل مذمت
اس سانحے پر مذمت کرتے ہوئے سیاستدانوں کا کہنا تھا کہ معصوم بچوں پر حملوں کے لیے مذہب کا نام استعمال کرنا قابل مذمت، ظالمانہ اور غیرانسانی فعل ہے۔
جماعت اسلامی کراچی کے امیر نعیم الرحمان نے اس واقعے پر اپنی جماعت کی جانب سے مذمت کا اظہار کیا۔
عالمی برادری کی مذمت
برطانوی وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون نے اس حملے کی مذمت کرتے ہوئے اس سانحے پر صدمے کا اظہار کیا ہے۔












لائیو ٹی وی