پاکستان کے صوبائی لوک رقص

پاکستان کے صوبائی لوک رقص



سعدیہ امین




پاکستان ایسے خطہ ارض پر واقع ہے جس کی تاریخ بہت پرانی اور مختلف النوع ثقافتی روایات سے بھرپور ہے اور یہاں شروع سے ہی فنون لطیفہ لوگوں میں انتہائی مقبول صنف رہی ہے۔

اب چاہے وہ اداکاری ہو، شاعری، مصوری، مجسمہ سازی یا موسیقی مگر ایک صنف ایسی ہے جس میں پاکستان کو دنیا کے بیشتر ممالک پر بالادستی حاصل ہے اور وہ ہے اعضاء کی شاعری یعنی رقص جس کے مختلف لوک انداز یہاں صدیوں سے رائج ہیں۔

پاکستان کے ہر خطے کے رہنے والوں کے اپنے مختلف لوک رقص ہیں جو خوشی کے اظہار سے بھرپور ہوتے ہیں جنھیں دیکھنا بھی پرمسرت تجربہ ثابت ہوتا ہے۔

ہر صوبے میں خوشی منانے کے لیے مختلف انداز کے رقصوں کا سہارا لیا جاتا ہے اب وہ بچے کی پیدائش ہو، شادی یا کسی بھی وجہ سے ہونے والی تقریب جن میں مقامی روایات کا تڑکا اس کا لطف دوبالا کردیتا ہے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ ہر صوبے میں ایک نہیں کئی کئی اقسام کے لوک رقص مقبول ہیں اور وہ بھی ایک دوسرے سے بالکل مختلف تو چاروں صوبوں کی اس خوبصورت روایت کے مختلف انداز جانیے جو پاکستانی ثقافت کی جان بھی ہیں۔

پنجاب کے لوک رقص




بھنگڑا



— اے ایف پی فوٹو
— اے ایف پی فوٹو

یہ پاکستان بھر میں عام رقص ہے جس کی ابتداء پنجاب کے خطے سے شروع ہوئی اور یہ اب ملک کے مقبول ترین لوک رقصوں میں سے ایک ہے جس کی تاریخ بھی کافی پرانی ہے۔ اس کا آغاز وسطی شمالی پنجاب میں کاشتکاری کے میلوں کو منانے کے لیے ہوا اور تقسیم برصغیر کے بعد یہ پاکستان و ہندوستان بھر میں عام ہوگیا تاہم اسے بھنگڑا نام 1950 کی دہائی میں دیا گیا نوے کی دہائی میں اس میں مغربی تڑکا بھی لگا دیا گیا جس کے بعد اس نے مقبولیت کے نت نئے ریکارڈ بنا دیئے اور اب دنیا بھر میں جانا پہچانا رقص ہے۔

لڈی



— اسکرین شاٹ
— اسکرین شاٹ

پاکستان بھر میں شادی بیاہ کی تقریبات لڈی کے بغیر نامکمل مانی جاتی ہیں جو عام طور پر تقریبات میں شامل ہر عمر کی خواتین کرتی نظر آتی ہیں اور یہ آج کا نہیں صدیوں پرانا لوک رقص ہے جس کی مقبولیت میں آج تک کوئی کمی نہیں آسکی ہے۔ اس کا آغاز سب سے پہلے کھیلوں کے مقابلے میں فتح کے بعد کھلاڑیوں کے خوشی منانے کے انداز سے ہوا اور پھر یہ شادیوں میں زیادہ مقبول ہوا جس میں اب تک کوئی کمی نہیں آسکی ہے۔

سمی



— رائٹرز فوٹو
— رائٹرز فوٹو

پوٹھوہاری خطے سے شروع ہونے والا یہ لوک رقص بنیادی طور پر پنجاب کی قبائلی برادریوں کا روایتی ڈانس تھا جسے پنجابی فلموں نے مقبول بنانے میں کافی اہم کردار ادا کیا ہے۔ اس میں رقاص چمکدار کرتوں اور لہنگے پہن کر رقص کرتے ہیں اور یہ ایک حلقے میں کیا جاتا ہے تاہم یہ بہت آہستگی سے کسی المیہ موسیقی پر کیا جاتا ہے۔

گدھا



— اے ایف پی فوٹو
— اے ایف پی فوٹو

یہ بھنگڑے کی طرح انتہائی پرجوش رقص ہے جو ماضی میں گھنٹیوں کی تال پرکیا جاتا تھا مگر اس میں توانائی بہت زیادہ نظر آتی ہے اور عام طور پر اسے بہت خاص مواقعوں پر ہی کیا جاتا ہے تاہم تفریحاً بھی لوگوں کو یہ پنجابی لوک رقص بہت پسند ہے۔ رقص کرنے والوں کا فلو عام طور پر تالیوں کی آواز کے ساتھ تیز ہوتا چلا جاتا ہے جس کے ساتھ ڈھول بھی جوش و خروش میں اضافہ کر رہا ہوتا ہے۔ یہ انتہائی رنگارنگ قسم کا رقص ہوتا ہے جو ملک بھر میں کافی مقبول ہے۔

بلوچستان کے لوک رقص




لیوا



— اسکرین شاٹ
— اسکرین شاٹ

بلوچستان میں لیوا نامی رقص عام طور پر شادی بیاہ کے موقع پر لوگوں کی خوشی کے اظہار کے طور پر کیا جاتا ہے تاہم دیگر پرمسرت مواقعوں پر اس میں لوگ جھومتے نظر آتے ہیں۔ بلوچ کے قبائلی معاشرے میں اس رقص کو کافی اہمیت دی جاتی ہے اور یہ اب وہاں کا ثقافتی ورثہ سمجھا جاتا ہے۔ یہ عام طور پر لوگوں کے ایک گروپ کی جانب سے ایک دائرے میں ہاتھوں کی حرکت کے ساتھ کیا جاتا ہے اور عام طور پر اسے شہنائی اور ڈھول کی تھاپ پر کیا جاتا ہے۔

چاپ



— اسکرین شاٹ
— اسکرین شاٹ

یہ بھی شادی بیاہ کے موقع پر کیا جانے والا لوک رقص ہے جس میں ہتھیلی پر تالی کی تال پر بالغ مرد ناچتے نظر آتے ہیں۔ اس میں ایک قدم آگے بڑھا کر پیچھے کیا جاتا ہے اور یہ حرکت ایک منفرد ردھم کے ساتھ کی جاتی ہے جس سے دیکھنے والوں پر جادو سا ہوجاتا ہے۔اس رقص کو مرد گروپ کی شکل میں کرتے ہیں اور تالی اور ڈھول کی تال پر اپنے پیر، گردن اور سر کو رقص کے ردھم میں حرکت دیتے ہیں، کئی مواقعوں پر خواتین بھی ایک دائرے میں ہاتھ سے تالی بجاتے ہوئے اس رقص کا مظاہرہ کرتی ہیں۔

جھومر



— اے ایف پی فوٹو
— اے ایف پی فوٹو

اسے سرائیکی رقص بھی مانا جاتا ہے اور بلوچستان میں بھی بہت عام ہے یہ شادیوں اور دیگر پرمسرت مواقعوں کے دوران کیا جاتا ہے۔ اس کا انداز اتنا منفرد اور حسین ہوتا ہے کہ خوشیوں کے لمحات کو یادگار بنا دیتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ جس شادی یا خوشی میں جھومر نہ ہو وہ بے مزہ لگتی ہے۔ جھومر کے دوران جسم کا ہر حصہ حرکت میں ہوتا ہے، پاﺅں اور ٹانگیں ایک ترتیب سے حرکت کرتے ہیں، سر اور گردن جسم کے ساتھ گردش میں ہوتے ہیں اور ساتھ ہی سانس کی آمد و رفت معمول سے بڑھ جاتی ہے۔ بڑے دلکش انداز میں جھومری رقص کرتے ہوئے لوگوں کے دلوں کے تار اس طرح چھیڑتے ہیں کہ ان کی طبعیت کو سکون محسوس ہونے لگتا ہے۔

خیبر پختونخوا کے لوک رقص




اٹن



— اسکرین شاٹ
— اسکرین شاٹ

یہ ایسا لوک رقص ہے جو افغانستان اور پاکستان کے پشتون علاقوں میں عام ہے، یہ پشتونوں یا افغانوں میں وقت جنگ اور وقت مسرت کیا جانے والا رقص ہے۔ یہ رقص کھلے آسمان کے نیچے کیا جاتا ہے۔ موسیقی کی دھن جو کہ ڈھول اور بانسری پر ترتیب دی جاتی ہے، اس رقص کے لیے ضروری تصور کی جاتی ہے۔ ایک بڑے دائرے کی شکل میں کئی لوگ ایک ساتھ ڈھول کی تھاپ پر ایک ہی طرح سے رقص کرتے ہیں اور اسی دائرے میں گھومتے جاتے ہیں۔ یہ رقص اول سست رفتار ہوتا ہے لیکن جیسے جیسے وقت گزرتا جاتا ہے رفتار میں تیزی آتی جاتی ہے۔ عام طور پر ایک ہی دھن پر یہ رقص 5 سے 25 منٹ تک جاری رہتا ہے۔

مختلف پشتون قبائل میں اٹن کی کئی قسمیں رائج ہیں۔ یہ رقص جنگ اور مسرت کے مواقعوں کے لیے مخصوص ہے۔ جنگ اور امن کے زمانے میں فرق کرنے کے لیے بھی اس رقص میں کئی قسمیں اور طریقے رائج ہیں۔ امن کے زمانے میں کئی جگہوں پر مختلف مواقعوں جیسے شادی، منگنی، جیت، کھیل، آزادی، فصل کی کٹائی، بہار کی آمد کے مواقعوں کے لیے بھی قبائل میں طریقے وضع کیے گئے ہیں۔

خٹک ڈانس



— رائٹرز فوٹو
— رائٹرز فوٹو

تلواروں کے ساتھ انتہائی تیز رفتاری سے کیا جانے والا یہ ڈانس مقبول ترین ہے پہلے اس رقص کا اہتمام عوامی اجتماعات میں کیا جاتا تھا مگر موجودہ حالات کی وجہ سے یہ رقص اب صرف خاص مواقع پر ہی نظر آتا ہے۔ لگ بھگ ہر پختون قبیلے کا اپنا رقص ہے مگر خٹک ڈانس کو دیگر قبائل کے رقص سے زیادہ ترقی ملی اور آج کسی بھی بڑے تہوار اور غیر ملکی سفارتکاروں کی آمد کے موقع پر خٹک ڈانس لازمی پیش کیا جاتا ہے اور اسے قومی ڈانس کی حیثیت بھی مل چکی ہے۔

اس ڈانس میں خٹک قبیلے کے نوجوانوں کو کمال حاصل ہے تلواروں کے ساتھ ڈانس کرنا کسی وقت بھی خطرے کا باعث بن سکتا ہے مگر خٹک قبیلے کے نوجوان بے خوف و خطر ڈانس کرتے ہیں۔

خٹک ڈانس میں مجموعی طور پر 12 سٹیپ ہوتے ہیں اور پہلے سٹیپ میں ڈانسرز ایک گول دائرے میں جمع ہوجاتے ہیں اس وقت میوزک کی رفتار تھوڑی مدہم ہوتی ہے مگر پھر رفتار میں تیزی آجاتی ہے جب دائرہ مکمل ہوجاتا ہے تو میوزک میں بھی تیزی آجاتی ہے اور پھر تیز میوزک کے ساتھ خٹک ڈانس شروع ہوجاتا ہے۔ خٹک ڈانس کی تین قسمیں ہیں جس میں شاہ ڈولہ، بھنگڑا اور بلبلہ شامل ہیں ۔

چترالی ڈانس



— فائل فوٹو
— فائل فوٹو

یہ خیبرپختونخوا کے ساتھ گلگت بلتستان میں کیا جاتا ہے اور یہ کچھ لوگوں کے گروپ میں کیا جاتا ہے، جس میں سے ہر ایک دوسرے کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر اس رقص کا مظاہرہ کرتا ہے اور عام طور پر اس کا مظاہرہ خوشی کے مواقعوں پر کیا جاتا ہے اور بڑے ڈھول کی تھاپ پر اس کا مظاہرہ کیا جاتا ہے بنیادی طور پر یہ وادی کیلاش کی ثقافت کا حصہ ہے جو بتدریج خیبرپختونخوا اور گلگت بلتستان کے مختلف حصوں میں پھیل گیا۔

سندھ کے لوک رقص




دھمال



اسکرین شاٹ
اسکرین شاٹ

یہ عام طور پر صوفی بزرگوں کے مزارات یا درگاہ پر کیا جانے والا رقص ہے جو انتہائی مستی کے عالم میں کیا جاتا ہے، سندھ کے شہر سہون میں لعل شہباز قلندر کے مزار پر کی جانے والی دھمال سب سے زیادہ مشہور ہے، کہا جاتا ہے کہ جب دھمال والا شخص اپنے اندر کی ساری فرسٹریشن نکال دیتا ہے تو بے سدھ ہو جاتا ہے اور دیکھنے والے کو لگتا ہے کہ وہ اب عالم سکون میں ہے۔

اسی طرح منگھو پیر کے مزار پر عرس کے موقع پر شیدی افراد جلوس کی شکل میں دھمال ڈالتے ہوئے چلتے ہیں اور جلوس کا کوئی فرد اس روز چپل نہیں پہنتا۔ جلوس مختلف افریقی طرز کی دھنوں پر دھمال ڈالتے، ناچتے گاتے مزار تک کا سفر طے کرتے ہیں۔

ہو جمالو



اسکرین شاٹ
اسکرین شاٹ

یہ سندھ کا مشہور ترین لوک رقص ہے، درحقیقت ہو جمالو ایک بہت پرانا گیت ہے اور عام طور پر اس گیت اور رقص کا مظاہرہ کسی پروگرام کے آخر میں کیا جاتا ہے۔

یہ ایسا سندھ لوک رقص ہے جو جنگ اور سندھ کے لوک لیجنڈز کی ترجمانی کرتا ہے اور عام طور پر اسے خوشی اور جشن کے مواقعوں پر کیا جاتا ہے۔ اس میں گائے جانے والے گیت میں 18 ویں صدی کے سندھی جنگجو جمال کی کہانی بیان کی جاتی ہے جس نے اپنی مادری سرزمین کی حفاظت غیرملکی حملہ آوروں سے کی۔

اسے گانے والا ہر جملے کے آخر میں ہو جمالو کا نعرہ لگاتا ہے جس کے دوران رقاص گانے والے کے گرد جمع ہو کر رقص کے آسان اسٹیپ کرتے ہیں، شروع میں سست روی سے ہوتا ہے مگر اختتام تک یہ رفتار پکڑ لیتا ہے اور جب بھی لوگ اسے سنتے اور دیکھتے ہیں تو ان پر نشہ سا طاری ہوجاتا ہے۔