استنبول میں چند روز
شکاگو سے پاکستان میری واپسی ٹرکش ایئر لائینز سے تھی- استنبول پر ہمیں رکنا تھا اور پھر کراچی- سو اس موقعے سے فائدہ اٹھا کر ہم نے استنبول میں پانچ چھ دن رکنے کا پروگرام بنایا- ایک زمانے سے ترکی دیکھنے کی خواہش تھی- بچپن سے کمال اتاترک کا نام سنتے آئے تھے، سلطنت عثمانیہ کی تاریخ سے بھی تھوڑی بہت واقفیت تھی-
پھر 2004 میں اورہان پالموک کو ادب کا نوبل انعام ملا تو اس دوران میں انکی دو تین کتابیں پڑھ چکی تھی- مائی نیم از رڈ، اسنو اور استنبول کے بارے میں انکی یادیں جس میں وہ باسفورس کا ذکر حزن و ملال کے ساتھ کرتے ہیں-
پھر خبریں پڑھنے میں آئیں کہ آرمینیائی قوم کی نسل کشی کے بارے میں ان کے بیانات پر انھیں گرفتار کرلیا گیا- مقدمہ بھی چلا لیکن پھر انسانی حقوق کی تنظیم کی جانب سے احتجاج کے بعد انہیں رہا کر دیا گیا-
خیر شکاگو سے تقریبا دس گھنٹہ سفر کے بعد ہم استنبول پہنچے- جہاں ہمیں ویزہ لینا تھا- ترکی میں داخل ہونے کا ویزہ تو بآسانی مل جاتا ہے لیکن مشکل یوں پیش آتی ہے کہ "زبان یار من ترکی و من ترکی نمی دانم"- ترک نہ تو انگریزی جانتے ہیں نہ بولنا چاہتے ہیں- لہٰذا ہم جیسے لوگوں کو اپنا مطلب سمجھانے میں کافی مشکل پیش آتی ہے-
ویزہ یوں تو ہمیں آدھے گھنٹے میں مل گیا لیکن اسکے لئے ایک کھڑکی سے دوسری کھڑکی اور پھر تیسری کھڑکی تک تقریبا تین گھنٹے چکر لگاتے رہے- بہرحال یہ مرحلہ طے ہوا تو ہم نے ٹیکسی پکڑی اور اس ہوٹل پہنچے جہاں ہماری بکنگ تھی- رات تو آرام کیا اور دوسرے دن استنبول دیکھنے کے لئے نکل پڑے-
استنبول سیاحوں کا شہر ہے- ہمارا ہوٹل زیادہ تر یوروپین سیاحوں سے بھرا ہوا تھا- ہوٹل کے منیجر سے گھومنے پھرنے کے بارے میں کچھ "ٹپس" لئے، کاونٹر سے کچھ بروشر اٹھائے اور ٹرام اسٹیشن کی طرف چل پڑے، جو ہوٹل سے تقریبا دس منٹ کی واک پر تھا-
ٹرام سے ہم یہاں کی مشہور تاریخی نیلی مسجد پہنچے- ہاجیہ صوفیہ میوزیم، گرینڈ بازاروغیرہ کی سیر کی- شام کو فیری کے ذریعہ باسفورس کے ساحل کے ساتھ ساتھ استنبول کی تاریخی عمارتوں اور شاہی محلات کے دلفریب مناظر دیکھے- استنبول میں ہمارا پہلا دن بڑے سکون سے گزرا-
یہاں کے لوگ بہت مہمان نواز نظر آئے- اپنے لباس کی وجہ سے میں فوراً ہی پہچان لی جاتی تھی- البتہ پاکستانی اور ہندوستانی میں فرق کرنا ان کے لئے مشکل تھا- کوئی مجھ سے پوچھتا "ہندوستانی"؟ میں جواب دیتی، نہیں "پاکستانی"- تو کچھ دکاندار کہتے ترکی- پاکستانی بھائی بھائی، خاصی گرمجوشی کا اظہار ہوتا-
اکتیس مئی، جمعہ کا دن تھا- ہم نے بس کے ذریعہ استنبول دیکھنے کا دن بھر کا پروگرام بنایا- یہ بسیں صبح، دوپہر اور شام کو چلتی ہیں اور شہر کے مختلف حصوں کی سیر کراتی ہیں- یہ ڈبل ڈیکر بسیں اوپر سے بالکل کھلی ہوتی ہیں- ہم نے کھلی چھت پر بیٹھنے کو ترجیح دی- بسوں میں ہر سیٹ کے ساتھ آڈیو فون لگے ہوتے ہیں جن پر رننگ کمنٹری ہوتی ہے-
یہ ہمارا دوپہر والا "ٹور" تھا- عموما ہر ٹور دو گھنٹہ کا ہوتا ہے- ہم نے محسوس کیا کہ بس کی رفتار بڑی مدھم ہے- ٹریفک جام تھا- ویسے میری بہن جو مجھ سے پہلے استنبول جا چکی تھی ہمیں خبردار کر چکی تھی کہ جمعہ کے دن بڑا رش ہوتا ہے- لیکن اس کی بات کو ہم نے کوئی خاص اہمیت نہیں دی-
ہم نے سوچا یہ سب کچھ تو ہوتا ہی رہتا ہے ویسے بھی ہم کراچی کی سڑکوں کے ٹریفک جام کے "تجربہ کار" لوگ ہیں- تو پھر اس سے کیا ڈرنا؟
کمنٹری کے دوران ہم نے "تقسیم" اسکوائر کا نام سنا- بس یوں کھڑی تھی کہ ہلنے کا نام نہ لیتی تھی- سامنے لوگوں کا ایک ہجوم نظر آیا- سوچا جمعہ کا دن ہے- شائد نمازی ہونگے- لیکن اتنی بڑی تعداد میں؟ اور پھر لوگوں کو اچانک ہر سمت بھاگتے دیکھا- میں حیران تھی کہ اتنے میں مظفر نے کہا ارے یہاں تو گولی چل رہی ہے اور ٹیئر گیس کے شیل چلائے جا رہے ہیں-
دوسری طرف میری نظر اٹھی تو دھواں ہی دھواں ہر طرف نظر آیا- میں نے کچھ خوف کے ساتھ کہا، لگتا ہے کہیں آگ بھی لگی ہے- آگ لگنے کے واقعات کراچی اور پھر بنگلہ دیش میں سن اور دیکھ چکے تھے- خیال آیا کہیں ہم بھی اس آگ کی لپیٹ میں نہ آجائیں-
پھراچانک ساری بس زور زور سے کھانسنے کی آوازوں سے گونج اٹھی- میری آنکھوں سے بے تحاشہ پانی بہ رہا تھا- آنکھوں اورحلق میں سخت جلن محسوس ہو رہی تھی-
احساس ہوا یہ توواقعی "ٹیئر گیس" ہے- ہاتھ میں پانی کی بوتل تھی- میں نے اپنی شال پانی سے ترکی اور اپنا منہ اس میں چھپا لیا- دوسرے لوگ بھی یہی کچھ کر رہے ہونگے- کسی کو کوئی ہوش نہیں تھا- اب ہم سمجھ چکے تھے کہ "یہاں کچھ ہو رہا ہے"-
ٹریفک جام کی وجہ بھی سمجھ میں آنے لگی تھی- لیکن کہنا چاہئے کہ ڈرائیور خاصا چالاک تھا- نہ جانے کیسے اس نے بس وہاں سے نکالی اور گھومتا گھماتا ہمیں اس جگہ سے باہر نکال لے گیا-
اب ہم باسفورس کے کنارے کھڑے تھے- لوگوں کی جان میں جان آئی- بس والا فوراً پانی کی بوتلیں لیکر پہنچا- سب نے اپنے حلق تر کئے- مجھے حیرت اس بات پر تھی کہ بس میں کم از کم پچاس افراد تو ہونگے- ہرعمر کے لوگ- جوان، بوڑھے اور بوڑھیاں- لیکن عام طور سے لوگ پرسکون تھے- سوائے ایک آدھ کے جیسے کوئی خاص بات نہ ہوئی ہو اور ان کیلئے یہ ایک بالکل غیر اہم واقعہ ہو-
بس اپنی منزل پر واپس پہنچی تو سب اپنی اپنی راہ چل پڑے- باسفورس کے ساحل پر بھی سیاحوں کا ہجوم تھا- لیکن انہیں دیکھ کر قطعاً یہ نہیں لگ رہا تھا کہ ہم ایک ایسے شہر میں موجود ہیں جہاں بے چینی اور اضطراب ہے اور حکومت کو عوامی احتجاج کا سامنا ہے-
بس سے اتر کر ہم نے اپنے گائیڈ سے پوچھا، "تقسیم اسکوائر پرگولی چلی، آنسو گیس پھینکی گئی، کیوں؟"
اس نے کوئی خاص جواب نہیں دیا- میں تو بس میں تم لوگوں کے ساتھ تھا- لیکن ایک اور گائیڈ جو انگریزی جانتا تھا، کہنے لگا یہ طالب علموں کا احتجاج ہے، بیروزگاری، خراب معاشی حالات- عوام میں حکومت کے بعض اقدامات کے خلاف بے چینی ہے- انہیں ڈر ہے کہ اردگان کی حکومت اسلام کے نام پر ان کی آزادیوں کو چھیننے کی کوشش کررہی ہے-
میں پہلے اخبار میں پڑھ چکی تھی کہ اردگان کی حکومت شراب کی فروخت پر پابندی لگا رہی ہے- استنبول میں میں نے دیکھا کہ بڑی "اوپن" سوسائٹی ہے- سگریٹ نوشی عام ہے- عورتوں اور مردوں، دونوں میں-
کسی کو کسی بات پر کوئی "پرابلم" نہیں ہے- "اسکارف" بھی ہے اور ساتھ ہی بے حجابی بھی- بلکہ میں نے محسوس کیا کہ امریکہ میں اپنے آٹھ نو مہینوں کے طویل قیام کے دوران مجھے اس قسم کے "مناظر" خال خال ہی دیکھنے کو ملے- مجھے لگا جیسے یوروپین، امریکیوں کے مقابلے میں زیادہ آزاد خیال ہیں-
ہمارا تیسرا ٹور شام چھ بجے سے شروع ہونے کو تھا- ہماری گائیڈ نے ہمیں بتایا کہ ٹور تین گھنٹوں کا ہوگا- کچھ حیرت بھی ہوئی کیوں کہ ابتداً ہمیں بتایا گیا تھا کہ دو دو گھنٹوں کے ٹورہوتے ہیں-
خیر استنبول بائی نائٹ دیکھنا تھا اور وہ بھی باسفورس کے ساحل پر- لیکن بس پھر ٹریفک جام میں پھنسی- شام کے ٹریفک کا رش تھا- اور تو کچھ سمجھ میں نہ آیا سوچا شائد ایسا ہی ہوتا ہوگا- دل میں سوچا، کوئی مشورہ مانگے گا تو کہیں گے کہ شام والا ٹور بس سے مت کرنا، بور ہو جاؤگے-
خیر رات کے دس بجے ہوٹل واپس پہنچے تو شکاگو سے بیٹے کا فون تھا- اس نے بتایا کہ ٹی وی پر استنبول کے ہنگامے دکھائے جارہے ہیں- ہماری خیریت پوچھی-
ہم نے صبح کے واقعات بتائے اور کہا کہ بیٹے یہاں تو کچھ پتہ ہی نہیں چل رہا- سیاحوں کا ویسا ہی ہجوم ہے- لوگ ویسےہی گھوم پھر رہے ہیں- خیر ہم نے بھی فورا ٹی وی کھولا- سی این این اور بی بی سی کی خبریں دیکھیں- پھر اپنے لیپ ٹاپ کھولے اور تفصیل جاننا چاہی-
وجہ پتہ چلی کہ تقسیم اسکوائر پر سینکڑوں کی تعداد میں درخت کاٹ دئے گئے اورحکومت وہاں شاپنگ پلازا کا منصوبہ بنا رہی ہے- لوگ اس کے خلاف ہیں کیونکہ استنبول سے ہریالی کے رہے سہے نشان بھی ختم کئے جا رہے ہیں-
اب مجھے احساس ہوا- میں بطور سیاح یہاں کی تاریخ میں ڈوبی ہوئی تھی اور مجھے احساس ہوا کہ واقعی یہاں وہ "سرسبزی اور شادابی" نظر نہیں آتی جس کا تجربہ مجھے شکاگو میں ہوا تھا-
حالانکہ الی نوائے خود وہاں کی دوسری ریاستوں کے مقابلے میں اتنا سرسبزو شاداب نہیں- لیکن وہاں کے مختلف شہروں میں تھوڑے تھوڑے فاصلوں پر"فاریسٹ ریزرو" نظر آتے ہیں- یوں لگتا ہے جیسے فطرت کو محفوظ کرنا حکومت کا فریضہ ہو- استنبول میں باسفورس ہے، تاریخ ہے لیکن فطرت کا حسن مفقود ہے-
جاری ہے...
















لائیو ٹی وی
تبصرے (1) بند ہیں