’نابالغ مجرم‘ کو پھانسی دینے کے لیے نئے بلیک وارنٹ کی درخواست

شائع March 12, 2015

کراچی: یہاں بدھ کے روز جیل کے حکام نے ایک سزایافتہ قیدی کے بلیک وارنٹ جاری کرنے کے لیے انسدادِ دہشت گردی کی عدالت سے رجوع کیا، جسے کم سن بتایا جاتا ہے۔ امکان ہے کہ عدالت یہ بلیک وارنٹ جمعرات (آج) جاری کردے گی۔

شفقت حسین کو انسدادِ دہشت گردی کی عدالت نے ستمبر 2004ء کو اس وقت سزائے موت سنائی تھی، جبکہ وہ اٹھارہ سال سے کم عمر تھا۔ اس کو 2004ء میں نیوٹاؤن پولیس اسٹیشن کی حدود کے اندر ایک سات برس کے بچے کے اغوا اس کو قتل کرنے کا مجرم پایا گیا تھا۔

کراچی سینٹرل جیل کے حکام نے انسدادِ دہشت گردی کی عدالت سے کہا کہ وہ اس موت کی سزاپانے والے مجرم کو پھانسی دینے کے لیے ایک نیا بلیک وارنٹ جاری کرے۔ اس لیے کہ حکومت نے اس کی پھانسی کے خلاف عبوری التواء ختم کردیا ہے۔

اس سزا یافتہ قیدی کی جانب سے جمع کرائی جانے والی رحم کی درخواستیں اور اپیل کو اعلیٰ عدالت اور ایوانِ صدر کی طرف سے پہلے ہی مسترد کردیا گیا تھا۔

انسدادِ دہشت گردی کی عدالت کے ایک اہلکار نے بتایا کہ توقع ہے کہ یہ عدالت جمعرات کو بلیک وارنٹ جاری کردے گی۔

سزائے موت کے منتظر اس قیدی کے لیے عدالت کی جانب سے متواتر جاری کیے جانے والے بلیک وارنٹ پر عملدرآمد ملتوی کیا جاتا رہا ہے۔ اس لیے کہ پاکستان پیپلزپارٹی کی حکومت نے 2008ء میں اقتدار سنبھالنے کے بعد سزائے موت پر پابندی لگا دی تھی۔

تاہم پاکستان مسلم لیگ نواز کی حکومت نے سترہ دسمبر 2014ء کو پشاور اسکول کی خونریزی کے بعد سزائے موت پر سے پابندی ہٹادی تھی۔

چنانچہ اس فیصلے کے بعد پھانسی کے منتظر اس قیدی کے وکیل نے سندھ ہائی کورٹ میں اس کی ممکنہ پھانسی کو روکنے کے لیے ایک پٹیشن دائر کی تھی، جس میں کہا گیا تھا کہ شفقت کو جب اغوا اور قتل کے مقدمے میں سزا سنائی گئی تھی، تو وہ اس وقت نابالغ تھا۔

لیکن سندھ ہائی کورٹ کے ڈویژن بینچ نے اس پٹیشن کو چوبیس دسمبر 2014ء کو یہ کہتے ہوئے خارج کردیا تھاکہ یہ بات اس لیے قابل غور نہیں ہے کہ اس معاملے کو اعلیٰ عدالت کے سامنے بھی پیش کیا گیا تھا، کہ ملزم ابھی نابالغ ہے، جسے مقدمے کے دوران نہیں اُٹھایا گیا تھا۔

جیل حکام کی درخواست پر عدالت نے چار جنوری کو اس کی سزائے موت پر عملدرآمد کے لیے بلیک وارنٹ جاری کردیا تھا اور اس کی پھانسی کی تاریخ چودہ جنوری مقرر کی تھی۔

لیکن وزارتِ داخلہ نے اس کی پھانسی کو روکتے ہوئے کہا تھا کہ اس کی عمر کے معاملے کی جانچ کی جائے۔ تاہم چند دن پہلے اس وزارت نے ایک نوٹیفکیشن کے ذریعے کہا کہ حکومت نے تمام جرائم کے لیے سزائے موت کو بحال کردیا ہے۔

استغاثہ کا کہنا تھا کہ یہ مجرم ایک رہائشی عمارت ندیم آرکیڈ کا چوکیدار تھا، اور سیکنڈ فلور کے اپارٹمنٹ سے عمیر کو اغوا کرکے اپنے کمرے میں لے گیا۔

جب عمیر نے اپنی رہائی کے لیے اصرار کیا تو اس چوکیدار نے اس کے سرپر ایک ڈنڈے کی ضرب لگائیجس سے وہ فوری طور پر ہلاک ہوگیا۔ پھر شفقت نے عمیر کی لاش کو اپنے کمرے میں پھینک دی۔

اس نے عمیر کے والد سے تاوان کا مطالبہ کیا اور اس کی لاش کو اگلی رات ایک قریبی نالے میں ڈال دی۔ اس کے بعد وہ تاوان کی وصولی کے لیے عمیر کے خاندان کو مختلف پبلک کال آفس سے فون کرتا رہا۔

بالآخر اس نے عمیر کے والد سے کہا کہ ندیم آرکیڈ کے کمپاؤنڈ کے اندر پڑے ایک لکڑی کے بکس میں تاوان کی رقم رکھ دیں۔ 21 مئی کو اس چوکیدار کو گرفتار کرلیا گیا، پولیس کا دعویٰ تھا کہ یہ بکس اسی چوکیدار کا تھا۔

تاہم اس مجرم کے بارے میں کہا گیا کہ جب اس نے اس جرم کا ارتکاب کیا اس وقت چودہ برس کاتھا، اور اس کو سزا ایک مجسٹریٹ کے سامنے کیے گئے اپنے جرم کے اعتراف کی بنیاد پر سنائی گئی تھی، جو پولیس کے مبینہ تشدد کے نو دن کے بعد لیا گیا تھا۔

1990ء میں اقوامِ متحدہ کے کنونشن برائے بچوں کے حقوق پر دستخط کرنے کے لگ بھگ ایک دہائی کا عرصہ گزرجانے کے بعد حکومت نے 2000ء میں نابالغوں کے لیے انصاف کے نظام کا آرڈیننس جاری کیا تھا، جس کے تحت اٹھارہ سال سے کم عمر مجرموں کے ساتھ خصوصی برتاؤ کا حکم دیا گیا تھا اور ان کی سزائے موت کو روک دیا گیا تھا۔

کارٹون

کارٹون : 21 دسمبر 2025
کارٹون : 20 دسمبر 2025